محمد اکبر نیازی
سیمیں برلاس کو اگر میں، ذکی الحس، زود نویس کہوں تو کوئی مضائقہ نہ ہو گا کیونکہ وہ شاعری میں اپنے خیالات قلمبند کرتی ہیں تو ان کا اپنا مشاہدہ اور نجی تجربے ان کی تخلیق میں نمایاں نظر آتے ہیں۔ جنہیں وہ اپنے اشعار میں ڈھال دیتی ہیں۔ ان کی شاعری میں ایک خاص حِسی شاعرانہ کیفیت ہے جو ان کے ہر شعر میں سموئی ہوئی ہے۔ ان کے اشعار کبھی کسی ڈھکے چھپے دکھ کے پس منظر کا احساس دلاتے ہیں۔ اور کبھی ایک ایسی محرومی کی ترجمانی بھی جو پوشیدہ رکھنے کے باوجود شعور کے کسی گوشے سے جھانکنے لگتی ہے۔ کبھی شاعری کی طبعی زندہ دلی اور خوش مزاجی ان کے اشعار پر حاوی محسوس ہوتی ہے۔ زبان و بیان سلیس ، سادہ اور عام فہم ہے اور ان کی شعر گوئی میں دردمندانہ جذبات صاف محسوس کئے جا سکتے ہیں۔ ان کا کلام تصنع سے پاک ہے اور فطری طور پر نسائی احساسات و جذبات کی جھلک بھی نظر آتی ہے۔ شاعرہ اپنے لہجے میں ہمہ جہتی، شخصیت کی سالمیت، احساس کی شدت اور افکار کی صحت و وسعت کی آئینہ دار ہیں۔ ان کی شاعری اپنائیت کی چاشنی اور محبت کی فرحت کا احساس دلاتی ہے۔ وصل اور ہجر کی اذیت کے مدارج و مراتب کے باوجود ان کے ہاں گھٹن اور اجنبیت کی زہرناکی کہیں دکھائی نہیں دیتی، جو ایک خوش آئند اور لائق تحسین بات ہے۔ وہ الفاظ کو ان کے تہذیبی پس منظر میں برتنے کے فن سے بھی واقف ہیں۔
ہنر کو اپنے کرشمہ بنا بھی سکتی ہوں
جو خواب دیکھ رہی ہوں، دکھا بھی سکتی ہوں
جو میرے لب پہ مچلتے ہیں گیت الفت کے
اگر میں چاہوں، سرِ بزم گا بھی سکتی ہوں
میری ہنسی سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ
جو مضمَحِل ہوں تو یہ سب مٹا بھی سکتی ہوں
سیمیں برلاس صاحبہ اپنی داخلی کیفیات اور نفسیاتی حصار میں رہتے ہوئے اپنے الفاظ کو شاعری کے روپ میں ڈھالتی ہیں اور ان کی جملہ شعری توانائیاں اور خیال آفرینی اپنے عنوان پر مرکوز رہتی ہے۔
ڈھونڈ ہی لے گی میری آس اندھیروں میں تجھے
میرا رہبر تری آواز کا جگنو ہو گا
ذاتی احساس کو اجتماعی سطح پر ایک کیفیت میں ڈھال دینا ایک شاعر کا کمال ہوتا ہے۔شاعرہ نے اپنے تینوں شعری مجموعوں میں وجودیت اور زندگی کے مسائل اور مسائلِ غمِ گیتی اولین ترجیح دی ہے۔
اگر انسان اسیرِ نفس ہو گا
کہاں انسانیت آزاد ہو گی
یونہی بوتے رہے بارود گر ہم
زمیں یہ کس طرح آباد ہو گی
ان کا اسلوب بھی ان کے قلبی رجحان سے والہانہ وابستگی کے ساتھ وضع ہوتا ہے۔ ہر دوسری غزل یا نظم میں اس کا عکس دکھائی دیتا ہے۔ وہ خیال کو احساس اور احساس کو خیال بنانے کی بھرپور کوشش کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ وہ نئے خیال کے ساتھ روایت کی بھی پاسدار ہیں۔
سرحد سرحد خون بہا کر بانٹ رہے ہیں نفرت لوگ
گر ایسے حالات رہے تو پیار یہاں کمیاب نہ ہو
حرص و ہوس ہو جن آنکھوں میں مر جاتے ہیں خواب وہاں
کیسی بےرنگ آنکھیں ہوں گی جن آنکھوں میں خواب نہ ہو
احساس ان کے لئے نعرہ نہیں بلکہ لہو میں شامل شاید ایک حقیقت ہے۔ سیمیں برلاس کہ شاعری احساس کے داخلی و خارجی دونوں تجربوں کے درمیان سے گزرتی ہے، چنانچہ قاری ان کے شعروں سے ان کی فکری جہتوں اور محسوساتی زاویوں سے روشناس ہوتا ہے۔
حال اور ماضی کو جب سے جان لیا
مستقبل کیا ہو گا میں نے جان لیا
اب انصاف کہاں باقی ہے دنیا میں
دنیا کا ہر کونہ ہم نے چھان لیا
ذات کے بیگانے پن میں اپنی صفائی کا احساس ، کسی کی قید ِ بے مفر سے رہائی کی جستجو اور خود سے دور نکل جانے کی حسرت کے پردے میں زندگی کے بہت سے موڑ ان کے سامنے آتے ہیں اور فلسفہ حیات سے ان کے روشناس ہونے کی خبر دیتے ہیں۔
گن سکا ہے فلک کے تارے کون
خواہشوں کا کوئی شمار نہیں
حادثے عام ہو گئے اتنے
کوئی رستہ اب استوار نہیں
عزتِ نفس بچائیں کہ سنبھالیں دستار
ایسا لگتا ہے کسی چیز کی اب خیر نہیں
سیمیں برلاس کو معاشرے کی بے راہ روی ، الم و درد اور اِبتِلا کا احساس ضرور ہے، تاہم اظہار کی صورت ملائمت اور سرزنش بھرے لہجے میں ہے۔ ان کی شاعری میں جگہ جگہ احساسِ درد کے برق پارے محسوساتی سطح پر دکھائی دیتے ہیں ،ان کی حِسِیت انسانی وجود کے کرب کے نئے نئے پیکر کھوجتی دکھائی دیتی ہے۔
جنگل کا قانون ہے نافذ شہروں میں
اب انصاف کی باتیں فردا ہو گئیں
لپٹ کے بچھڑی یاد کے نرم سِرہانے سے
خواہش کی پَڑمردہ کلیاں سو گئیں
ان کے تنیوں مجموعہ کلام سے مَتَرشِح ہے کہ محبت ان کی زندگی کا سب سے بڑا حادثہ نہ بھی ہو تو محبت ان کی زندگی کا ایک ناقابل فراموش سانحہ ضرور ہے۔ موصوفہ کے ہاں جنوں کی منزل ابھی خام حالت میں ہے اور عشق بھی ناتمام محسوس ہوتا ہے۔
میں نمو ہوں، مٹی میں خو میں کوٹ جاتی ہوں
ڈال ڈال غنچوں سی پھر میں پھوٹ جاتی ہوں
لوٹ آئے گا اک وہ مجھے منا لے گا
اس خیال سے اکثر اب بھی روٹھ جاتی ہوں
روز کرچیاں اپنی مَیں سمیٹ لیتی ہوں
اور شام ہونے تک پھر سے ٹوٹ جاتی ہوں
ان کی تخلیقی صلاحیتیں ابھی جوان ہیں اور شعرو سخن میں ترقی کے امکانات واضح نظر آتے ہیں۔ سیمیں برلاس نے اپنے شعری سفر میں اپنے بادباں صحیح سمت میں کھولے ہیں اور پتوار پر گرفت مضبوط رکھتے ہوئے ان کے تخلیقی سفر کی ناو¿ شرمندہ ساحلِ فردا ہو سکتی ہے۔ میری یہی رائے ہے کہ وہ اپنے اشعار کو مزید لپیٹ کر گہری معنویت اور استعاراتی سطح پر مزید دلکشی، مضامین کی تازگی اور تنوع کے پہلو ذہن میں رکھ کر شاعری کریں گی تو ان کی آنے والی کتب میں مزید بہتر کامیابیوں اور پذیرائی کے امکانات روشن ہیں۔