ٹیکس کی مقدار کے اثرات  سماج ساگر

Nov 20, 2024

ساجد سلطان 

ساجد سلطان

میرے عزیز اور ہر دل عزیز دوست ڈاکٹر علی سلمان، ایگزیکٹیو ڈائریکٹر، پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ آف مارکٹ اکانومی (پرائم) نے چودہ نومبر کو اسلام آباد کے پنج ستارہ ہوٹل میں " دی فورتھ پاکستان پراسپیریٹی فورم۔ ٹیکس پالیسی فار گروتھ " کے عنوان سے سیمینار منعقد کیا۔ ڈاکٹر صاحب کے حکم پر راقم اور ابنِ راقم اطہر سلطان شریک ہوئے۔ " پرائم " اکنامک پالیسی تھنک ٹینک ہے جو ایک کمپنی کی طرح 9 سے 5 فل ٹائم اپنی ٹیم کے ہمراہ عوامی آگاہی اور گورنمنٹ کے ساتھ اکنامک پالیسی ریسرچ پر پراجیکٹ بیسڈ کام کرتا ہے۔ 
ارشد ڈاڈ چیف ایڈوائزر آف دی کنسٹرکٹر ایسوسی ایشن آف پاکستان نے کہا کہ کنسٹرکشن انڈسٹری دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ 36 فیصد روزگار فراہم کرتی ہے جبکہ زراعت 70 فیصد کے ساتھ پہلے نمبر پر۔ کنسٹرکشن اندسٹری دس فیصد منافع کماتی ہے جبکہ اس پر 7.5 سے 8 فیصد تک ودہولڈنگ ٹیکس ہے جو ناقابل برداشت ہے۔ 
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ اکنامکس(PIDE) کے فسکل پالیسی ایکسپرٹ ڈاکٹر محمود خالد نے کہا ہر قسم کی ٹیکس چھوٹ ختم ہونی چاہیے۔ اس سے ٹیکس ریوینیو میں 37 فیصد اضافہ ہو سکتا ہے اور ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو میں 3.36 فیصد ا±ٹھان آ سکتی ہے۔ صرف تمباکو نہیں، بیوریجز/مشروبات کو بھی ٹارگٹ کرنا چاہیے کیونکہ یہ بھی انسانی صحت کے لیے اتنے ہی مضر ہیں جتنا تمباکو۔ 
ڈاکٹر علی سلمان نے کہا پندرہ سال ہو گئے فائلر، نان فائلر کی اصطلاح کو رائج ہو? مگر اس کا فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوا۔ ملک میں صرف فائلر اور ڈیفالٹر کی اصطلاح ہونی چاہیے اور ڈیفالٹر کے خلاف کارروائی اور ٹیکس چوری روکنی چاہیے۔ 
ڈاکٹر اکرام الحق اپنی کتاب 
'Towards Broad, Flat, Low-Rate, And Predictable Taxes'
میں اس بات پر زور دیتے ہیں کہ دس فیصد پر فلیٹ اور فکس ٹیکس رکھیں لیکن ٹیکس دینے والوں کی تعداد بڑھائیں۔ اگر ایک بندہ سال کا کروڑ روپے کماتا ہے تو وہ فلیٹ دس لاکھ سالانہ ٹیکس دے گا اور اگر دس کروڑ کما? گا تو ایک کروڑ فکس ٹیکس دے گا یعنی جب اس کی انکم بڑھ گئی تو بھی اس کا ٹیکس ریٹ وہی رہا مگر ٹیکس کی رقم بڑھ گئی۔ لوگ اگر ٹیکس نہیں دیتے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ لوگ چور ہیں بلکہ اس کا مطلب ہے کہ ٹیکس ریٹ زیادہ ہے۔جارجیا پہلا ملک ہے جس نے فلیٹ ٹیکس متعارف کرایا اب جبکہ بشمول روس لگ بھگ 50 ملکوں میں فلیٹ ٹیکس رائج ہے مگر امریکا سمیت بڑے ممالک فلیٹ ٹیکس کے بجائے پروگریسو ٹیکس کے حامی ہیں۔ 
 جارجیا کے سابق وزیرِ خزانہ مسٹر الیکسی نے کہا کہ میں جارجیا کو دو تین درجن ٹیکس ختم کر کے صرف چھ ٹیکسوں پر لے آیا اور یہ تجربہ بہت کامیاب رہا وہ چھ ٹیکس ہیں۔ پرسنل انکم ٹیکس، کارپوریٹ انکم ٹیکس، ویٹ( ویلیو ایڈڈ ٹیکس جسے پاکستان میں جی ایس ٹی یا جنرل سیلز ٹیکس کہتے ہیں) ، ایکسائز ، کسٹم ڈیوٹی اور پراپرٹی ٹیکس۔ 
الیکسی نے جارجیا میں 12.5 فیصد پر لا کر ٹیکس فکس کر دیا جبکہ پاکستان میں 35 فیصد پروگریسو ٹیکس ہے۔ پروگریسو طریقہءٹیکس میں آپ دو طرح سے زیادہ ٹیکس دیتے ہیں۔ ایک آمدنی بڑھنے کی وجہ سے زیادہ ٹیکس دیتے ہیں دوسرا ٹیکس ریٹ یا سلیب بڑھنے کی وجہ سے اور زیادہ ٹیکس دیتے ہیں۔ 
جارجیا کے سابق ہونہار وزیرِ خزانہ مسٹر الیکسی نے ایک دلچسپ بات سنائی کہ ہم نے نوجوان لڑکوں کو ٹریننگ دے کر ایک دن تمام کسٹم حکام کو اچانک چھٹی دے کر ان کی جگہ تمام پوسٹوں اور چیک پوسٹوں پر ان نوجوانوں کو تعینات کردیا۔ اس دن کسٹم ڈیوٹی میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ اس کی ایک وجہ نوجوانوں کو رشوت لینے کا تجربہ نہ ہونا بھی تھا۔
نوجوان وزیرِ مملکت برائے خزانہ، ریوینیو اور پاور، علی پرویز ملک نے کہا پاکستان میں دو لاکھ لوگ ہیں جن کی آمدن اربوں روپے ہے لیکن وہ ٹیکس نیٹ میں نہیں، ہم نے پانچ ہزار لوگ شارٹ لسٹ کر لیے ہیں جن کے بینک ڈیپازٹ پر سو سو ملین روپے انکم ہے اور تین تین گاڑیاں ہیں لیکن انکم ٹیکس ریٹرن فائل نہیں کرتے۔ 
 کھوجا کمیونٹی، میمن کمیونٹی کے بعد دوسری قابل ترین کاروباری برادری ہے۔ رضوان راجی بھی کھوجا کمیونٹی کے کامیاب ریٹائرڈ کاروباری شخصیت ہیں بیلجیم میں رہتے ہیں اور کہتے ہیں اگر پاکستان کو ترقی دینی ہے تو مارک اپ اور ٹیکس ریٹ سنگل ڈجٹ میں رکھیں۔ 
رونلڈ ریگن جب امریکا کے صدر تھے تو ان کی اکنامک ٹیم کے سربراہ آرتھر لیفر تھے جن کی Curves Laffer بہت مشہور ہوئیں۔ 
آرتھر لیفر کہتے ہیں کہ اگر حکومت صفر فیصد ٹیکس لگائے تو تنخواہیں دینے، ترقیاتی منصوبوں اور دفاع کے لیے حکومت کے پاس کوئی رقم نہیں ہو گی اور اگر 100 فیصد ٹیکس ریٹ نافذ کرے تو لوگ کاروبار کرنا چھوڑ دیں گے کہ جب ہماری محنت کی ساری کمائی حکومت لے جا? گی تو پھر ہمیں کام کرنے کی ضرورت کیا ہے۔ لہٰذا لوگ بھاگ جائیں گے ، کاروبار ٹھپ ہو جائیں گے۔ اس لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ %0 اور %100 کے درمیان ایسے ٹیکس ریٹ کی curve بنائے جو ہر دو فریقین کے لیے قابلِ قبول اور قابلِ عمل ہو۔ آرتھر لیفر کم از کم ٹیکس ریٹ کے حامی تھے۔ 
صدر رونالڈ ریگن بھی آرتھر لیفر کی "کرو تھیوری" کے قائل تھے اور موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی۔ اس لیے صدر ڈونلڈ ٹرمپ، حکومت سنبھالتے ہی ٹیکس ریٹ کم کر دیں گے۔ جبکہ ڈیموکریٹس اس پالیسی کو ناپسند کرتے ہیں۔ آرتھر لیفر نے یہ نظریہ ابن خلدون کی تصنیف " مقدمہ " سے لیا ہے۔ ابنِ خلدون کا سولائزیشن پر بہت کام ہے۔ ابنِ خلدون کہتے ہیں کہ حکومتوں کو چاہیے کہ ٹیکس ریٹ بہت کم رکھے، پیداوار اور ٹیکس دہندگان کی تعداد بڑھائے۔ ابنِ خلدون کے بارے میں مشہور معاشی مورخ جے جے سپلنگلر اپنی کتاب ’اکنامک تھاٹس آف اسلام ! ابن خلدون ‘ میں لکھتے ہیں کہ ابن خلدون بلاشبہ ایک عظیم معیشت دان تھے اور مسلم معاشی نظریات کے بہترین ترجمان تھے۔ایڈم سمتھ سے بہت پہلے ابن خلدون اس بات کو اپنی کتاب ’مقدمہ تاریخ ‘ میں لکھ چکے تھے کہ دولت کا واحد ذریعہ پیداوار ہے۔ اگر کسی ملک نے معاشی خوشحالی حاصل کرنی ہے تو اسے اپنی پیداواری صلاحیتوں میں اضافہ لانا ہو گا۔ایک سماج جتنا خوشحال ہوتا ہے اتنا ہی اس میں سروسز کی مارکیٹ کو فروغ ملتا ہے۔ ابن خلدون نفع کے محرک کو معاشی سرگرمیوں کی واحد بنیاد سمجھتے تھے۔ وہ زیادہ ٹیکسز کو نفع کے محرک اور پیداواری عمل کا قاتل سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک صحت مند معیشت وہ ہے جس میں کاروبار نفع کما رہے ہوں اور نفع کے محرکات معاشی سرگرمیوں کو آگے بڑھا رہے ہوں۔ 
  قوموں کے عروج و زوال کی بحث میں ابنِ خلدون ریاست کے ایک حد سے زیادہ ٹیکسوں کو زوال کی بڑی وجہ سمجھتے ہیں۔ اگر ٹیکس کم ہوں گے اور کاروباری سرگرمیوں میں نفع زیادہ ہو گا تو معیشت پھلے پھولے گی، معیشت میں ترقی سے حکومت کو مجموعی طور پر زیادہ ٹیکس ملے گا جس سے ترقیاتی اخراجات میں اضافہ ہو گا۔ یوں مزید پیداوار سے مزید خوشحالی جنم لے گی ، یہ عروج کا راستہ ہے۔ زوال کا راستہ یہ ہے کہ ریاست کسی بھی سبب سے ٹیکسوں میں اضافہ کر دیتی ہے۔ ٹیکسوں میں اضافے سے کاروباری سرگرمیوں میں نفع کم ہو جاتا ہے۔ نفع کی کمی سے کاروباری سرگرمیوں میں کمی آتی ہے ، کاروباری سرگرمیوں میں کمی سے تہذیب کی قوت بھی ختم ہو جاتی ہے اور ٹیکس کی مقدار بھی کم ہو جاتی ہے، نتیجتاً ریاست کمزور ہو جاتی ہے۔

مزیدخبریں