حکومت پنجاب کا مصنوعی بارش برسانے کا تجربہ کامیاب
گزشتہ دنوں سموگ کیلئے جن علاقوں میں مصنوعی بارش کا تجربہ کیا گیا‘ وہ کامیاب رہا۔ یہ تجربہ پاکستان کے اپنے ماہرین کی شاندار کاوشوں کی کامیابی ہے۔ اس پر روایتی انداز میں ہم ”ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی“ کہہ کر ان سب ماہرین اور اداروں کی حوصلہ افزائی کر سکتے ہیں جنہوں نے یہ کامیابی حاصل کی۔ اب اس کامیابی کو مزید بہتر بناکر ہم خشک سالی سے متاثرہ علاقوں میں بھی مصنوعی بارش برسا کر وہاں کے حالات بہتر بنا سکتے ہیں۔ مکمل نہ سہی‘ بیمار کی صحت میں تھوڑی بہت بہتری بھی آئے تو اسے اچھا سمجھا جاتا ہے۔ یہ خطرناک سموگ کی وجہ سے پنجاب خاص طور پر متاثر ہوتا ہے۔ کیونکہ بھارتی پنجاب سے آنے والا دھواں اور دھند بھی پنجاب کو متاثر کرتی ہے۔ پہلے ہم اپنے دوست متحدہ عرب امارات سے خصوصی طیارے حاصل کرکے مصنوعی بارش برسانے والی ٹیکنالوجی سے استفادہ کرتے تھے‘ اب حکومت پنجاب نے مقامی ٹیکنالوجی‘ پاک فوج کے ادارے ایس پی ڈی‘ آرمی ایوی ایشن‘ سپارکو اور ماحولیاتی تحفظ کے ادارے کے تعاون چہلم‘ سرگودھا‘ چکوال اور تلہ کنگ میں کلاﺅڈ سیڈنگ کے ذریعے بارش کا کامیاب تجربہ کیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر جذبہ تعمیر زندہ ہو تو پھر کس چیز کی ہم میں کمی ہے۔ اب ہمیں اس جذبہ تعمیر کو بیدار رکھنا ہوگا‘ ہر میدان میں اسی جذبے کے تحت آگے بڑھنا ہوگا‘ اس کامیاب تجربہ سے صحرائی علاقوں اور بلوچستان میں بھی بارش برسانے سے کافی فائدہ ہوگا۔ جہاں ساون میں بھی سوکھا ہی پڑا رہتا ہے۔ لوگ اب اس بارش کی بدولت ”رم جھم رم جھم پڑے پھوار“ کا مزہ بھی لے سکیں گے۔
ٹی ٹونٹی میں شاہینوں نے وائٹ واش کا مزہ چکھ لیا۔
اب تو جی ہی نہیں چاہتا کہ کرکٹ ٹیم کے حوالے سے کسی خبر پر بات کی جائے۔ آسٹریلیا میں ٹی ٹونٹی سیریز میں پاکستان کو جس طرح وائٹ واش کا سامنا کرنا پڑا‘ اس سے ہماری ٹیم کی شاندار کارکردگی پر ایک بار پھر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ سوالات اٹھ رے ہیں‘ سچ کہیں تو بقول اقبال:
میراث میں آئی ہے انہیں مسندارشاد
زاغوں کے تصرف میں ہیں عقابوں کے نشیمن
والی بات درست معلوم ہوتی ہے۔ چلیں پھر بھی رعایت کرتے ہوئے کہہ دیتے ہیں کہ کھیل میں ہار جیت ہوتی رہتی ہے۔اب ہمارے کھلاڑی چانس ملنے پر اگر فائدہ نہیں اٹھا پاتے تو اس میں ان کا یا مقدر کا کیا قصور ہوتا ہے۔ کیونکہ ہم سب کی پرانی عادت ہے کہ بقول مرزا رسوا۔
ہم بھی ہیں مختار لیکن اس قدر ہے اختیار
جب ہوئے مجبور قسمت کو برا کہنے لگے
ہم ناکامی کو قسمت کا لکھا کہہ کر دل کو تسلیاں دینے میں ماہر ہو چکے ہیں۔ اب آگے جو ٹیسٹ میچوں کی سیریز ہو رہی ہے‘ اس کا کیا نتیجہ سامنے آتا ہے‘ اس کا تو سوچ کر ہی دل کبھی اچھلنے اور کبھی ڈوبنے لگتا ہے۔ بے شک دنیا بھر کی کرکٹ ٹیموں پر برا سے برا اور کڑا وقت آتا ہے مگر بالآخر وہ سنبھل جاتی ہیں۔ ہم پر بھی اس وقت برا وقت چل رہا ہے اسی لئے ہماری ٹیم کبھی اچھی اور کبھی بہت بری پرفارمنس دے رہی ہے۔ اب قوم ویسے ہی جذباتی ہے‘ جیت گئے تو واہ واہ‘ ہار گئے تو تف تف کرنے سے باز نہیں آتی۔ ماضی میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے کہ کرکٹ ٹیم کو واپسی پر برقعے پہن کر آنے کے مشورے بھی دیئے جاتے رہے ہیں۔ کئی بار تو کھلاڑی اکٹھے نہیں‘ ایک ایک یا دو دو کرکے واپس آتے تھے تاکہ شائقین کے ہتھے نہ چڑھ جائیں۔ اب دیکھنا ہے کہ ٹیسٹ سیریز میں کیا ہوتا ہے۔
دریائے سندھ سے چولستان کینال منصوبے پر سندھ حکومت وقوم پرستوں کا احتجاج۔
چند سال سے دریائے سندھ سے نہریں نکال کر ایسے علاقوں میں پانی پہنچانے کا منصوبہ زیرغور ہے جہاں پانی کی قلت ہے۔ مگر سندھ کی قوم پرست جماعتیں ہوں یا تنظیمیں‘ خود قومی جماعت کی دعویدار پیپلزپارٹی بھی اس حوالے سے وہی بولی رہی ہے جو جئے سندھ والے بولتے ہیں یا سندھیائی تحریک والے۔ خورشید شاہ جیسے بزرگ جہاندیدہ رہنما بھی کہہ رہے ہیں ہم کسی صورت ایسا نہیں ہونے دینگے۔ یہ سندھ کو تھر بنانے کی سازش ہے۔ چولستان کینال پراجیکٹ پر 2 کھرب روپے لاگت آئے گی۔اس سےلاکھوں ایکڑ اراضی سیراب ہو گی۔اس سے بہاولنگر اور بہاولپور کا بنجر ایریا سیراب ہو گا۔مگر اب یہ معاملہ بھی کالاباغ ڈیم کی طرح واہمات اور خدشات کی بھینٹ چڑھ رہا ہے۔ کالاباغ ڈیم جیسا اہم اور قومی ترقی و خوشحالی میں کلیدی کردار ادا کرنے والا منصوبہ بھی اے این پی کے سرخپوشوں اور جئے سندھ کے نیلی اجرک والوں کی طرف سے ڈیم کو بم سے اڑانے‘ دونوں صوبوں میں احتجاجی مظاہروں اور مخالفت کی وجہ سے ابھی تک مکمل نہیں ہو سکا۔ اس پرکافی کام ہو چکا تھا‘ کاش جنرل ضیاءالحق جو بہت کچھ کر سکتے تھے‘ یہ منصوبہ بھی ڈنڈے کے زور پر مکمل کرالیتے تو آج نہ بجلی کی لوڈشیڈنگ ہوتی نہ پانی کی قلت نہ سیلاب کی تباہ کاریاں‘ جن کی وجہ سے خیبر پی کے اور سندھ میں ہر سال تباہی ہوتی ہے۔ کالاباغ ڈیم سے تو نوشہرہ نہ ڈوبتا‘ البتہ سیلابوں سے ضرور ڈوبتا ہے۔ اب جو علاقے آبی قلت کا شکار ہیں‘ جہاں زمین بنجر ہو رہی ہے‘ کیاوہاں کے لوگ اپنے علاقوں میں نہریں نکالنے کی مخالفت کرنے والوں اور انکی پارٹیوں کا حقہ پانی بند کردیں‘ ان کوووٹ نہ دینے کا فیصلہ کریں تو شاید انکے ہوش ٹھکانے آئیں۔ آخر وہ بھی تو یہی کرتےآ رہے ہیں۔ کہتے ہیں لوہے کو لوہا ہی کاٹتا ہے۔ یہ لوگ بھی اپنے علاقے میں نہریں نکالنے کیلئے آواز بلند کریں۔ اب حکومت درمیانی راہ نکال سکتی ہے کہ نہ دریائے سندھ کے آبی بہاﺅ میں کمی آئے نہ کسی علاقے میں پانی کی قلت ہو اور جہاں جہاں آبپاشی کیلئے پانی کی ضرورت ہے‘ وہ بھی کم از کم پوری ہو۔ یعنی سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ قومی اہمیت کے منصوبوں کو کب تک جنونی صوبائیت پر قربان کیا جاتا رہے گا۔
پاکستان میں خواجہ سراﺅں کی تعداد میں کمی۔
یہ بڑی عجیب خبر ہے کیونکہ اب تو کافی سالوں سے ہر حکومت خواجہ سراﺅں کیلئے خصوصی پروگرام دیتی ہے تاکہ انکی مالی و قانونی حالت بہتر ہو۔ ان کی تعلیم و صحت اور روزگار کیلئے درجنوں اقدامات کئے گئے ہیں جس کی وجہ سے ان کی کیمونٹی کو خصوصی تحفظ حاصل ہوا ہے۔ تو پھر اچانک کچھ سالوں میں انکی آبادی میں کمی کیوں ریکارڈ ہوئی اس کا مطلب تو یہی ہے کہ جو لوگ ویسے ہی شوقیہ یا ناچ گا کر روزی کمانے یا بھیک مانگنے کی وجہ سے خود کو خواجہ سرا ظاہر کرنے میں اجتناب کرنے لگے ہیں‘ اس کے علاوہ جو اصل خواجہ سرا ہیں‘ وہ ہر جگہ حکومتی مراعاتوں سے فائدہ اٹھانے کی وجہ سے اب سڑکوں‘ چوراہوں پر مانگنے یا ناچ گانے سے پرہیز کرنے لگے ہیں۔ تیسری وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ شادی بیاہ اور دیگر فنکشنوں میں ناچ گانے کیلئے بلائے گئے حسین خواجہ سراﺅں کی بڑی تعداد کو لوٹ کر قتل کیا جانے لگا ہے‘ اسی طرح تعلقات نہ بنانے پر یا توڑنے پر بھی کافی تعداد قتل ہو چکی ہے۔ اس خوف سے بھی اب بہت سے شوقیہ خواجہ سرا اس کام سے پرہیز کر رہے ہیں۔ بہرحال وجہ جو بھی ہو‘ یہ بات اچھی بھی ہے کہ اب تو ان کیلئے اسمبلیوں میں بھی نشستیں مختص ہیں‘ ہر جگہ انکی شنوائی ہوتی ہے۔ اس حساب سے تو کئی لوگ ان پررشک کرتے ہوئے انکی طرح سہولتوں کی تمنا کرنے لگے تھے۔ ویسے بھی ہمارے مردانہ بیوٹی سیلون لڑکوں کا میک اپ کرکے انہیں جس طرح ہم شکل لڑکی بناتے ہیں‘ اس سے تو ہی اور شی کا فرق ختم ہو گیا ہے تو پھر خواجہ سراﺅں کی تعداد میں کمی چہ معنی دارد۔ جبکہ ایسے ٹک ٹاکر نمونے مردانہ بھائی ہو کر بھی زنانہ بھائی بن کر فر ی لانسر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ ان کو کس کھاتے میں شمار کیا جائے گا۔