آج کے دور میں معاشی نظام عالم انسانیت کی قیادت کر رہا ہے۔ انسان کی نفسانی خواہشات لامحدود ہیں اور ان کو پورا کرنے کے لیے وسائل محدود ہیں۔ انسان ہر وقت اس کوشش میں لگا رہتا ہے کہ وہ اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے وسائل کی تلاش میں لگا رہے اور یہی اس کی ساری معاشی جدو جہد کا مقصد ہونا چاہیے۔ لیکن وہ اس بات کا خیال نہیں کرتا کہ وہ جن ذرائع سے اپنی خواہشات کی تکمیل کر رہا ہے وہ حلال ہیں یا حرام۔
حضور نبی رحمت ﷺ نے اہل ایمان کو جو معاشی لائحہ عمل دیا ہے اس میں یہ بات واضح ہے کہ مومن کی خواہشات لا محدود نہیں ہوتیں بلکہ اس پر لازم ہے کہ وہ اپنی خواہشات پر کٹرول رکھے۔ آپ نے اتباع نفس اور جائز اور ناجائز میں تمیز نہ کرنے سے منع فرمایا ہے۔ اور ساتھ میں یہ بات بھی واضح کر دی کہ تمہاری زندگی افراط و تفریط سے پاک ہونی چاہیے یہ نہ ہو کہ تم ساری زندگی ہاتھ پہ ہاتھ رکھ بیٹھے رہو اور نہ یہ ہو کہ ساری زندگی دولت کو جمع کرنے میں لگے رہو بلکہ تمہاری زندگی میں اعتدال ہونا چاہیے اور اعتدال کا دامن کسی بھی وقت ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔
رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا :
” تین چیزیں ایسی ہیں جو انسان کی ہلاکت کا سبب ہیں حد درجہ بخل ، اتباع نفس اور تکبر و غرور اور تین باتیں انسان کے لیے باعث نجات ہیں۔ ہر حال میں خوف خدا ، حالت فقراور حالت غنی میں میانہ روی اور ناراضگی اور خوشی دونوں صورتوں میں عدل کا دامن نہ چھوڑنا۔“
حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : بنی آدم کا تین چیزوں کے سوا کسی چیز پر کوئی حق نہیں۔رہائش کے لیے گھر ، ستر پوشی کے لیے کپڑا اور حسب ضرورت روٹی اور پانی۔
اس حدیث مبارکہ کی روشنی میں اگر انسان محض اپنی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش کرے تو اس کے لیے کوئی مسئلہ نہیں اور وہ کسی بھی پریشانی میں مبتلا نہیں ہو گا۔ اگر انسان اپنے مکان کی زیب و آرائش پر کروڑوں خرچ کر دے یا پھر اپنی لذت کو پورا کرنے کے لیے طرح طرح کے کھانے بنائے یا پھر ظاہری آرائش کے لیے مہنگے کپڑے پہنے اور اس کے لیے سر گرم رہے اور اپنے وسائل پر نظر نہ رکھے اور ان کو پورا کرنے کے لیے قرض تک لے تو یہ بعد میں پریشانی کا باعث بنے گا۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسلمان کا بدترین مال وہ ہے جو غیر ضروری تعمیرات پر خرچ ہوتا ہے۔
معاشی خود انحصاری (۱)
Nov 20, 2024