راولپنڈی کی انسدادِ دہشت گردی عدالت نے 9 مئی 2023ءکو جنرل ہیڈ کوارٹر (جی ایچ کیو) پر حملہ کیس میں نامزد ملزمان بشمول بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان، عمر ایوب، شبلی فراز، شہباز گل، مراد سعید، حماد اظہر، زلفی بخاری اور صداقت عباسی کے بیرون ملک سفر پر پابندی عائد کر دی۔ ملزمان کی بیرون ملک روانگی عدالت کی اجازت سے مشروط کی گئی ہے۔ بانی پی ٹی آئی نے جی ایچ کیو حملہ کیس میں نئے انسپکشن نوٹ کو دستخط کرکے وصول کرلیا۔ انسداد دہشت گردی عدالت کے جج امجد علی شاہ اڈیالہ جیل پہنچے، جہاں عمران خان کو انسپکشن نوٹ فراہم کر دیا گیا۔بانی پی ٹی آئی کو انسپکشن نوٹ کی فراہمی کے دوران وکلائے صفائی کی جانب سے اعتراض کیا گیا اور موقف اختیار کیا کہ یہ دستاویز پہلے سے داخل کرائی گئی دستاویز میں شامل نہیں تھی۔ یہ ٹمپرڈ دستاویز ہے۔ ملزمان کی فہرست میں عمران خان کا نام شامل نہیں تھا۔ دوسری طرف انسداد دہشتگردی عدالت لاہور نے سانحہ 9 مئی کی منصوبہ بندی کے مقدمہ میں شاہ محمود قریشی سمیت 21 ملزموں پر فرد جرم عائد کردی۔لاہور کی انسداد دہشتگردی عدالت کے جج نے کوٹ لکھپت جیل میں پی ٹی آئی رہنماﺅں کیخلاف 9 مئی مقدمات کی سماعت کی۔ عدالت نے سانحہ 9 مئی سے متعلق منصوبہ بندی کے الزام میں شاہ محمود قریشی ،اعجاز چودھری اور عمر سرفراز چیمہ سمیت 21 ملزموں پر فرد جرم عائد کی جبکہ 23 ملزموں کو اشتہاری قرار دے کر ان کی جائیدادیں ضبط کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
نو مئی سانحہ پاکستان کی تاریخ کا سیاہ باب ہے۔اس روز عمران خان کی اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیشی کے موقع پرنیب کی طرف سے گرفتاری ہوئی۔نیب نے گرفتاری کے لیے رینجرز کی مدد حاصل کی تھی۔اس پر تحریک انصاف کی طرف سے شدید ردعمل سامنے آیا۔ملک بھر میں احتجاج اور مظاہرے شروع ہو گئے۔جلاو¿ گھیراو¿ ہونے لگا۔کسی بھی مہذب معاشرے میں پرامن احتجاج ریلیوں اور مظاہروں کا حق ہر طبقے تنظیم اور پارٹی کو دیا گیا ہے۔تحریک انصاف کو بھی اس حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا مگر اس احتجاج اور مظاہروں میں تشدد کا عنصر اس تک بڑھ گیا کہ اس کو بلا شبہ ریاست پر حملہ قرار دیا جا سکتا ہے۔دفاعی تنصیبات پر نہ صرف حملے کیے گئے بلکہ لاہور کے کور کمانڈر ہاو¿س کو جلا کر راکھ کر دیا گیا۔جی ایچ کیو پر چڑھائی دیکھنے میں آئی۔یادگار شہداءکی توڑ پھوڑ کر کے توہین کی گئی۔ایسی ہی پر تشدد کارروائیاں ملک کے چھوٹے بڑے شہروں میں دیکھی گئیں۔
نو مئی کو جو کچھ پاکستان میں احتجاج کے نام پر ہوا وہ کسی بھی ریاست کے لیے قطعی طور پر قابل قبول ہو سکتا ہے نہ ہی اس سے صرفِ نظر کیا جا سکتا ہے۔ان ہولناک واقعات میں ملوث ملزم کسی رعایت کے مستحق ہرگز نہیں ہیں۔ان کے خلاف کیسز خصوصی عدالتوں میں درج کروائے گئے۔نو مئی 2023ءکو ہونے والے ان پر تشدد واقعات کو ڈیڑھ سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن ابھی تک قابل ذکر پیش رفت سامنے نہیں آئی جس پر سول اور عسکری قیادتوں کے تحفظات بھی سامنے آتے رہتے ہیں۔ کیسز کے فیصلوں کے لیے خصوصی عدالتوں کو ایک ٹائم فریم دیا گیا ہے۔ٹائم فریم کے مطابق تو اب تک کم از کم لوئر کورٹس میں فیصلے ہو جانے چاہئیں تھے مگر ابھی کہیں فرد جرم عائد ہو رہی ہے کہیں معاملہ پراسیکیوشن میں ہے۔لوئر کورٹس سے فیصلوں کے بعد معاملہ ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ میں جانا ہے۔ اگر ملزموں کو سزائیں دی جاتی ہیں تو وہ سپریم کورٹ میں جا کے ہی فائنل ہوں گی۔
تحریک انصاف کا یہ مو¿قف رہا ہے کہ عمران خان کی گرفتاری پر احتجاج ضرور کیا گیا تھا مگر پر تشدد واقعات میں پی ٹی آئی کے لوگ ملوث نہیں ہیں بلکہ یہ پلانٹڈ لوگ تھے جنہیں مظاہرین کے اندر داخل کر دیا گیا تھا۔تحریک انصاف کی طرف سے بار بار یہ مطالبہ کیا گیا کہ اس حوالے سے جوڈیشل کمیشن قائم کیا جائے جو یہ تعین کرے کہ جلاو¿ گھیراو¿ میں کون لوگ ملوث تھے۔تحریک انصاف کی طرف سے اب اس مطالبے پر زور نہیں ڈالا جا رہا۔
تحریک انصاف ہی نہیں کئی غیر جانبدار حلقے بھی یہ کہتے ہیں کہ کورکمانڈر ہاو¿س کو جانے والے راستے کیسے کھول دیئے گئے۔ وہاں پر موجود سکیورٹی کہاں تھی۔ اس نے مظاہرین کو اندر داخل ہونے سے کیوں نہیں روکا۔ریاست کا موقف ہے کہ تحریک انصاف کی طرف سے یہ جلاو¿ گھراو¿ ایک باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا تھا۔ جس کے حکومت کی طرف سے جاری کردہ ویڈیوز میں ٹھوس شواہد موجود ہیں۔ تحقیقاتی رپورٹوں کے مطابق بھی تحریک انصاف کی لیڈرشپ کو مورد الزام ٹھہرایا گیا ہے۔
اس میں تو کوئی شک نہیں ہے کہ جو کچھ ہوا باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ہوا۔ فریقین ایک دوسرے پر ملوث ہونے کا الزام عائد کرتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ مظاہرین کو روکا کیوں نہیں گیا۔ایسا بھی ممکن ہے جن لوگوں کے ہاتھ میں سکیورٹی تھی وہ مظاہرین کے سرغنوں کے ساتھ ملے ہوئے ہوں جس کے اس دور کے کور کمانڈرلاہور کی برطرفی سمیت کئی ثبوت سامنے آبھی چکے ہیں۔نو مئی کیس میں ملوث کئی ملزموں کی ضمانتیں ہو چکی ہیں۔ کئی کیخلاف کیسز خارج بھی ہوچکے ہیں۔اسی حوالے سے چار کیسز میں دو روز قبل انسداد دہشت گردی کی عدالت کی طرف سے عمران خان کی ضمانت منظور ہوئی ہے۔پاکستان میں عدلیہ آزاد ہے لہٰذا کسی قسم کی انتقامی کارروائی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
9 مئی کے حوالے سے جن جن عدالتوں میں مقدمات زیر سماعت ہیں‘ انہیں جلد نمٹانے کی ضرورت ہے تاکہ جن پر جرم ثابت ہو ‘ انہیں سزا ہو اور بے قصوروں کو رہائی مل سکے۔ ریاستی اداروں اور فوجی تنصیبات پر حملے کے جرم میں کڑی اور مثالی سزا دیکر ہی 9 مئی جیسے واقعات کا سدباب کیا جا سکتا ہے۔