عمران خان کی احتجاجی کال کے امکانات

پاکستان کی سیاسی تاریخ کے آئینے میں اگر جائزہ لیں تو یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ حکومت جب کسی پاپولر لیڈر کو حراست میں لے لیتی ہے تو احتجاجی تحریک کی کامیابی کے امکانات مخدوش ہو جاتے ہیں۔ 1977ءمیں مارشل لاءکے نفاذ کے بعد جب پی پی پی نے جمہوریت کی بحالی کے لیے تحریک کا آغاز کیا تو ذوالفقار علی بھٹو نے (جو کوٹ لکھپت جیل میں قید تھے) پی بی پی کے وائس چیئرمین بابائے سوشلزم شیخ محمد رشید کو قائم مقام چیئرمین نامزد کر دیا ۔ پارٹی کے اندر گروہ بندی کی وجہ سے شیخ محمد رشید کی قیادت کو تسلیم نہ کیا گیا چنانچہ مجبورا بیگم نصرت بھٹو کو پارٹی کی قائم مقام چیئرپرسن نامزد کیا گیا۔ بیگم نصرت بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی قیادت کی وجہ سے پی پی پی جنرل ضیاءالحق کی آمریت کے خلاف موثر تحریک چلانے میں کامیاب رہیں۔پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان جیل میں قید ہیں ۔ تحریک انصاف کو موجودہ حکومت کے خلاف تحریک چلانے کے سلسلے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ پاکستان کی سیاسی جماعتیں شخصیت پرستی کے جنون میں مبتلا رہی ہیں۔ اگر سیاسی جماعتوں کو جمہوری اصولوں کے مطابق منظم کیا جائے اور چلایا جائے تو ان کی عوامی طاقت میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ تحریک انصاف نے مختلف تجربات کے بعد آخر کار عمران خان کی بیگم بشریٰ بی بی کو 24 نومبر کے احتجاج کو منظم کرنے کی ذمہ داری سونپی ہے جبکہ گوہر خان عمر ایوب اور سلمان اکرم راجہ عمران خان کے فوکل پرسن ہوں گے۔ بیگم بشری بی بی نے خیبر پختون خواہ میں تحریک انصاف کو فعال متحرک اور منظم بنانے کے لیے کوششیں شروع کر دی ہیں۔ انہوں نے اراکین پارلیمنٹ اور تنظیمی عہدے داران اور انصاف سٹوڈنٹس اور یوتھ ونگ کے لیڈروں سے ملاقاتیں کی ہیں اور ان پر زور دیا ہے کہ وہ 24 نومبر کی احتجاجی کال پر سنجیدگی کے ساتھ توجہ دیں کیونکہ اس احتجاج نے نہ صرف ان کے اپنے سیاسی مستقبل کا بلکہ عمران خان کی رہائی کا فیصلہ بھی کرنا ہے ۔ ہر تنظیمی عہدیدار اور رکن پارلیمنٹ کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ عوامی قافلے کی قیادت کرتے ہوئے ڈی چوک اسلام اباد میں پہنچیں۔ تحریک انصاف کے تمام پارلیمانی اراکین اور تنظیمی عہدے داران کو ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ وہ اپنے اپنے قافلوں کی ویڈیو بنائیں اور شیئر کریں تاکہ ان کی کارکردگی کا جائزہ لیا جا سکے۔ بشری بی بی کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ آئندہ پارٹی ٹکٹ ان افراد کو دیے جائیں گے جو 24 نومبر کی احتجاجی کال کو کامیاب بنانے کے لیے موثر اور فعال کردار ادا کریں گے۔ پارٹی کے فیصلے کے مطابق تمام عوامی قافلے الگ الگ راستوں سے اسلام آباد میں داخل ہوں گے تاکہ چاروں جانب سے ریاستی انتظامیہ کو دباو¿ میں لایا جا سکے۔ ذرائع کے مطابق تحریک انصاف کے پانچ ہزار کارکنوں کو یوم احتجاج سے چند روز قبل اسلام آباد روانہ کر دیا جائے گا تاکہ وہ آسانی سے ڈی چوک تک پہنچ سکیں۔
تحریک انصاف نے احتجاج سے پہلے جو مطالبات پیش کیے ہیں ان میں عوامی مینڈیٹ کی واپسی، 26 ویں آئینی ترامیم کا خاتمہ اور عمران خان اور دوسرے اسیروں کی رہائی شامل ہیں۔ اسلام آباد کے قریبی اضلاع سینٹرل پنجاب پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے تاکہ لوگ آسانی کے ساتھ اسلام آباد پہنچ سکیں۔ پاکستان کی موجودہ حکومت کو عمران خان اور دوسرے سیاسی اسیروں کی رہائی کے سلسلے میں بیرونی دباو¿ کا بھی سامنا ہے ۔ امریکی کانگرس کے 50 ارکان نے امریکہ کے صدر جو بائیڈن کو ایک اور خط لکھا ہے جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ حکومت پاکستان پر دباو¿ ڈالیں تاکہ عمران خان اور دوسرے سیاسی اسیروں کی رہائی ممکن ہو سکے۔ برطانیہ یورپی یونین اقوام متحدہ کی جانب سے بھی حکومت پر دباو¿ ڈالا جا رہا ہے۔ امریکہ کی ڈیموکریٹ پارٹی اگرچہ انتخابات ہار چکی ہے مگر اس کی یہ کوشش ہوگی کہ ٹرمپ کے منصب سنبھالنے سے پہلے عمران خان اور ان کی جماعت کو کچھ ریلیف مل سکے تاکہ اس کا کریڈٹ ٹرمپ حاصل نہ کر سکے۔ بیرونی دباو¿ کو کارگر بنانے کے لیے لازم ہے کہ پاکستان کے اندر بھی عوامی دباو¿ بڑھایا جائے تاکہ موجودہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ دونوں عمران خان کے ساتھ با معنی با مقصد مذاکرات کرنے پر آمادہ ہو سکیں ۔ اگر سینٹ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے اراکین نے نیک نیتی کے ساتھ عوام کی قیادت کرنے کا فیصلہ کر لیا تو 24 نومبر کی احتجاجی کال کامیاب بھی ہو سکتی ہے ۔ مختلف شہروں سے نکلنے والے قافلوں کو روکنے کے لیے حکومت کے پاس انتظامی طاقت ہی موجود نہیں ہے۔ حکومت کی کوشش ہوگی کہ وہ ریاستی طاقت استعمال کر کے فعال اور متحرک اراکین اسمبلی اور تنظیمی عہدے داروں اور کارکنوں کو گرفتار کر کے 24 نومبر کی کال کو کامیاب نہ ہونے دے۔ عمران خان عوام کے مقبول لیڈر ہیں البتہ ان میں سیاسی بصیرت کا فقدان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف کے جو پرانے لیڈر جیلوں میں بند ہیں عمران خان نے کبھی ان کا ذکر بھی نہیں کیا۔ شاہ محمود قریشی تحریک انصاف کے وائس کپتان ہیں سیاسی تجربے کے لحاظ سے وہ سب سے زیادہ سینئر ہیں۔ اسی طرح عمر سرفراز چیمہ، اعجاز چوہدری، محمود الرشید اور ڈاکٹر یاسمین راشد بھی تجربہ کار سیاست دان ہیں مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ پارٹی کے نئے لیڈر ان سے مشاورت ہی نہیں کر رہے۔ یہی وجہ ہے کہ شاہ محمود قریشی نے چند روز قبل صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اپنی پارٹی کی قیادت سے جائز گلے اور شکوے بھی کیے ہیں۔ انہوں نے سلمان اکرم راجہ عمر ایوب گوہر ایوب اور وقاص اکرم کو مشورہ دیا کہ وہ کوٹ لکھپت میں قید تحریک انصاف کے لیڈروں سے ملاقاتیں کریں اور ان سے پارٹی امور کے سلسلے میں مشاورت کریں۔ شاہ محمود قریشی کی یہ رائے بڑی صائب ہے۔ جب کوئی سیاسی جماعت تحریک کی حالت میں ہو تو اس پر لازم آتا ہے کہ وہ اپنے سیاسی اسیروں کو نظر انداز کرنے کی بجائے ان کو اعتماد میں لے۔ شاہ محمود قریشی نے تحریک انصاف کے کارکنوں کو ہدایت کی کہ وہ اپنے گھروں سے نکلیں، احتجاجی تحریک میں شامل ہوں اور پرامن رہیں۔ قانون کو اپنے ہاتھ میں نہ لیں۔
پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی یہ پالیسی رہی ہے کہ مقبول عوامی جماعتوں کی قیادت ایسے ہاتھوں میں رہے جو اسٹیبلشمنٹ کیساتھ تعلقات دوستانہ رکھ سکیں۔ اسٹیبلشمنٹ کی خواہش ہوگی کہ بشری بی بی تحریک انصاف کی قیادت سنبھال لیں۔ 24 نومبر کی احتجاجی کال کے دوران ہاتھ ہولا رکھا جائے گا تاکہ بشری بی بی کی قیادت میں قابل ذکر تعداد میں لوگ اسلام اباد تک پہنچ سکیں اور ایک لیڈر کی حیثیت سے بشری بی بی کی قیادت کو عوامی سطح پر تسلیم کیا جا سکے۔ بشری بی بی کو کوئی سیاسی تجربہ نہیں ہے لیکن وہ جس طریقے سے احتجاجی کال کو منظم کر رہی ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کوئی تجربہ کار ”سیاسی دماغ“ ان کو مشورے دے رہا ہے۔ عین ممکن ہے کہ تحریک انصاف اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان یہ خاموش معاہدہ ہو چکا ہو کہ تحریک انصاف کے کارکن اسٹیبلشمنٹ کے خلاف منفی پروپیگنڈا نہیں کریں گے اور اسٹیبلشمنٹ غیر جانبدار رہے گی۔ اس صورت حال میں ڈونلڈ ٹرمپ کے منصب سنبھالنے سے پہلے پاکستان کے حالات تحریک انصاف کے حق میں سازگار ہو سکتے ہیں ۔ اگر 24 نومبر سے پہلے تحریک انصاف کے مرکزی لیڈر کوٹ لکھپت جیل میں قید پارٹی کے سینئر رہنماو¿ں سے ملاقات کر سکیں تو ان کا یہ فیصلہ تحریک انصاف کو متحد اور منظم کرنے اور نیا ولولہ پیدا کرنے کے لیے مفید ثابت ہو سکتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن