ہمارا آج کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ زندگی مشکل سے مشکل تر ہوتی جا رہی ہے۔ شاید یہ مسئلہ عام عوام کو زیادہ محسوس ہوتا ہے اور معمولات زندگی میں رکاوٹیں بھی شاید عام آدمی کو اپنے سامنے کھڑی نظر آتی ہیں اس لئے ایک آزاد اور خودمختار مملکت میں محرومی کا احساس عام آدمی کیلئے سوہان روح بن رہا ہے جسے رات کو سوتے وقت بھی اپنے اور اپنے اہل خانہ کے مستقبل کے حوالے سے ڈراﺅنے خواب نظر آتے ہیں اور صبح اٹھتے وقت بھی معمولات زندگی میں مسائل کے پہاڑ اسکے سامنے کھڑے ہوتے ہیں۔ بانیان پاکستان قائداعظم اور علامہ اقبال نے تو ہندو اور انگریز کی اقتصادی غلامی کے شکنجے میں جکڑے مسلمانوں کو اس غلامی سے نجات دلانے کیلئے انکے الگ وطن کا خواب دیکھا اور اسے شرمندہ تعبیر بھی کردیا تھا مگر انکی ودیعت کردہ اس ارض وطن پر حکمرانی کرنے والے اشرافیہ طبقات نے عام عوام کیلئے اس ارض وطن کا کیا حال کر دیا ہے۔
سچی بات ہے عوام کی اقتصادی بدحالی دیکھ کر تو مایوسی کے شدید دورے پڑنا شروع ہو جاتے ہیں اور ذہن میں یہ حسرت بھرا تصور اجاگر ہونے لگتا ہے کہ ”زندہ ہیں‘ یہی بات بڑی بات ہے پیارے“۔ بس سانس کا آنا جانا ہی زندگی کی علامت بن گیا ہے۔ اور تو معمولات زندگی میں زندگی کا کہیں شائبہ تک نظر نہیں آتا۔ اور آسودہ زندگی کا سہانا تصور تو گزشتہ 77 سال سے بس خواب ہی بنا نظر آتا رہا ہے‘ ڈراﺅنا خواب۔
اپنے علاقے کی ویلفیئر سوسائٹی کا صدر ہونے کے ناطے مجھے شہریوں کے روزمرہ کے مسائل سے آگاہی ہوتی رہتی ہے۔ ہم نے اپنے علاقے کے مکینوں کا ایک وٹس ایپ گروپ بھی بنایا ہوا ہے جس میں لوگ اپنے اپنے مسائل شیئر کرتے رہتے ہیں۔ عوام کیلئے روزگار کا مسئلہ تو اپنی جگہ پر انتہائی سنگین ہے‘ اسکے علاوہ بھی مسائل کے انبار لگے نظر آتے ہیں اور ان مسائل کے حل کے مجاز اداروں نے کوئی مسئلہ خوش دلی سے اور اپنی ذمہ داریوں کے احساس کے ساتھ حل نہ کرنے کی ٹھان رکھی ہو جو ہمارے آج کے کلچر کا خاصہ بن چکا ہے تو صرف مسائل ہی نہیں بڑھتے‘ اپنی کسمپرسی کے احساس میں ڈوبے عوام کے دلوں کا کرب بھی بڑھتا رہتا ہے۔ ہمیں وٹس ایپ گروپ پر روزانہ یہ شکایت ملتی ہے کہ محکمہ سوئی گیس کے متعین کئے گئے اوقات میں بھی گیس دستیاب نہیں یا اتنی ہلکی آنچ ہوتی ہے کہ کھانا تیار کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس اذیت کے ساتھ ایک اذیت اضافی اقتصادی بوجھ کی بھی لگ جاتی ہے کہ گھر میں کھانا تیار نہیں ہو پارہا تو باہر ہوٹلوں سے منگواﺅ اور متعینہ گھریلو خرچے سے تجاوز کرو۔ پھر گیس دستیاب نہ ہونے کے باوجود گیس کے بھاری بل دیکھ کر اوسان خطا ہو جاتے ہیں۔ ایسی ہی شکایات بجلی کی دستیابی اور عدم دستیابی کے معاملہ میں بھی ملتی ہیں جس کے آسمانوں کو چھوتے بل بے وسیلہ عام انسانوں کو ہی زندگی کی قید سے نکال کر آسمانوں تک پہنچانے کا اہتمام کرتے نظر آتے ہیں۔ ان دنوں تو ایک نیا عذاب بھی عوام کے سر منڈھ دیا گیا ہے۔ موسم سرما میں بجلی کی کھپت انتہائی کم درجے تک چلی جاتی ہے اور ویسے بھی بھاری بل سے بچنے کیلئے لوگ بجلی کے استعمال میں احتیاط کرتے ہیں۔ اسکے باوجود موسم سرما میں بجلی کی لوڈشیڈنگ چہ معنی دارد؟ بجلی کی ترسیلی کمپنیوں نے ہر علاقے میں ہفتے کا ایک دن تو مخصوص کر رکھا ہے۔ جب بجلی دن بھر بند رکھی جاتی ہے‘ اس کی لاجک؟ کوئی سمجھائے کہ ہم سمجھائیں کیا۔ شہریوں کیلئے پانی کی فراہمی کا مسئلہ بھی ایسا ہی گھمبیر بنا ہوا ہے۔ اول تو متعلقہ ادارے کے نصب شدہ پائپ اتنے بوسیدہ ہیں کہ گھروں تک قطرہ قطرہ متعفن گدلا پانی ہی پہنچا پاتے ہیں جس کے استعمال سے لوگ جلد اور معدے کی متعدد بیماریوں مبتلا ہو رہے ہیں۔ پھر پانی کی بھی لوڈشیڈنگ اور مقررہ اوقات میں بھی کمیابی۔ بھائی جائیں تو جائیں کہاں؟ عوام کیلئے آسانیاں پیدا کرنے کا کوئی راستہ تو چھوڑا ہی نہیں گیا۔ شہری اپنے روزمرہ کے مسائل کے حل کیلئے متعلقہ محکموں کے دفاتر کے چکر پر چکر لگا رہے ہوتے ہیں‘ دھکے کھا رہے ہوتے ہیں اور کرسی پر بیٹھے بابو صاحبان کی شان بے نیازی کے مناظر شہریوں کو سسٹم سے مزید مایوس کرنے کا باعث بن رہے ہوتے ہیں۔ گویا ”سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں“۔
ہمارے آئین نے تو شہریوں کیلئے تعلیم‘ روزگار‘ صحت کی سہولتوں کی تمام تر ذمہ داری ریاست پر ڈال رکھی ہے۔ آئین کی بنیادی انسانی حقوق سے متعلق دفعات ریاست کو ان ذمہ داریوں کی ادائیگی کا پابند بناتی ہیں مگر ریاست کے ایما پر جن انتظامی‘ ریاستی اداروں اور حکمران طبقات نے یہ ذمہ داریاں ادا کرنی ہیں‘ انہوں نے بے وسیلہ عام عوام کو حالات زندگی بہتر بنانے والی سہولتوں تو کجا‘ بنیادی ضروریات پر مبنی سہولتوں سے بھی یکسر محروم کررکھا ہے۔ ہمیں جمہوریت کا کتابوں اور تصورات میں تو یہ درس دیا گیا ہے کہ اسکے تحت عوام کی حکومت عوام کیلئے عوام کے ذریعے تشکیل پاتی ہے مگر اسکی عملی تصویر حاکم کے ہاتھوں عوام کو محکوم بنا کر پیش کی جاتی ہے۔ حبیب جالب اسی لئے تو یہ دہائی دیتے اس جہان سے گزر گئے کہ:
کہاں بدلے ہیں دن فقیروں کے
دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے۔
مصور پاکستان علامہ اقبال انگریز اور ہندو کی غلامی میں جکڑے برصغیر کے مسلمانوں کیلئے یہ کہہ کر اپنی رجائیت پسندی کی عکاسی کرتے رہے کہ:
سلطانءجمہور کا آتا ہے زمانہ
جو نقش کہن تم کو نظر آئے‘ مٹا دو
انکے سہانے تصورات کی بنیاد پر ارض وطن تشکیل پائی تو جمہور کی بجائے سلطان ہر ”نقش کہن“ کو اپنے راستے کی رکاوٹ سمجھ کر مٹانے پر تل گئے۔تو جناب، آج ہمارے فلاحی‘ اسلامی جمہوری معاشرے میں جمہور کیلئے فلاح کا کوئی عنصر موجود ہے‘ نہ آئین و قانون کی پاسداری والی جمہوریت کی کوئی رمق نظر آتی ہے اور نہ ہی شعائر اسلامی کے مطابق ہمارا معاشرہ اخلاقی اقدار اور شرف انسانیت کا دامن تھامتا دکھائی دیتا ہے۔ مسائل میں دبے عام آدمی کی زندگی ہی اس کیلئے روگ بنا دی گئی ہے گویا:
زندگی روگ ہے
بس یہی روگ ہے
ہمارے معاشرے میں یہ انسانی روگ اس لئے بڑھ رہے ہیں کہ ہمارے حکمران اشرافیہ طبقات نے ”پیتے ہیں لہو‘ دیتے ہیں تعلیم مساوات“ کا چلن اختیار کر رکھا ہے جنہیں ہر سہولت و عیاشی سے مستفید کرنے کی خاطر آئین و قانون کو باندی بنا کر انکے آگے پھینک دیا گیا ہے۔ وہ سیاہی‘ سفیدی جو چاہیں کریں۔ وہ منتخب ایوانوں کے باہر ایک دوسرے سے دامن گیر ہوتے رہیں اور ایک دوسرے کے گریباں چاک کرتے نظر آئیں مگر منتخب ایوانوں کے اندر بیٹھ کر اپنی مراعات اور سہولتوں کیلئے یک زبان ہو کر کسی بھی قانون میں ردوبدل کرلیں یا کوئی بھی نیا قانون منظور کرا لیں‘ بھئی ان کی شاہی ہے۔ کون پوچھتا ہے انہیں۔
اگر مایوسی و نامرادی کی اس فضا میں عام عوام کے اندر سے کچھ نفوس خدمت خلق کے جذبے کے تحت اصلاح احوال کا چارہ کرتے نظر آتے ہیں تو وہ سلیوٹ کے مستحق ہیں۔ ان کے دم قدم سے امید کی کوئی کرن پھوٹتی نظر آتی ہے تو دل میں یہ جوت ضرور جاگتی ہے کہ:
چار دن کا ہے مہماں اندھیرا
کس کے روکے رکا ہے سویرا
اس کیلئے میرے سامنے سندھ کے ایک پسماندہ علاقے ٹنڈوالٰہ یار کی ایک پڑھی لکھی مہذب خاتون عظمیٰ گیلانی کی مثال موجود ہے جس نے دوران تعلیم ہی صاف پانی کی سہولت سے محروم اپنے علاقے کے عوام کو یہ سہولت فراہم کرنے کی تدبیر سوچی اور ایک سرکاری کالج میں لیکچرار تعینات ہونے کے بعد عملی کام کا آغاز کیا۔ اس نے اپنی ساتھی لیکچررز پر مبنی ایک گروپ قائم کیا‘ اسے ایک این جی او کے قالب میں ڈھالا اور سوشل ویلفیئر آرگنائزیشن ٹنڈوالٰہ یار میں ویلفیئر آرگنائزیشن فار رورل ڈویلپمنٹ (ورلڈ) کے نام سے اسے رجسٹر کراکے پانی کی سہولت سے محروم علاقے کے عوام کے گھروں میں ہینڈ پمپ کی تنصیب کا کام شروع کر دیا۔ اس کیلئے اس تنظیم سے وابستہ خواتین اساتذہ اپنی تنخواہ میں سے دس سے20 فیصد نکال کر اس فلاحی کام پر صرف کرتی ہیں اور اب تک تین سو سے زائد سے ہینڈ پمپ اپنے علاقے میں نصب کراچکی ہیں۔ میرا سوشل میڈیا کے ذریعے عظمیٰ گیلانی سے رابطہ ہوا تو وہ فلاح انسانیت کیلئے اپنے اس نیک کام کو میڈیا پر اجاگر کرنے پر بھی بمشکل آمادہ ہوئیں۔ معاشرے کے متمول لوگ اس نیک کام میں اگر ان کا ہاتھ بٹائیں تو انکی جلائی شمع کی روشنی چار دانگ عالم میں پھیل سکتی ہے۔ انکی تنظیم سے فون نمبر 03233041516 کے ذریعے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔ یقیناً مایوسی کی چادر تانے بیٹھے اس معاشرے میں روشنی کی ایک کرن بھی پورے معاشرے کو جگمگا سکتی ہے۔