اس وقت سیاسی افق پر نیا سٹیج سجانے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ وفاقی حکومت نے اسلام آباد میں دفعہ 144 نافذ کرکے ہرقسم کے مذہبی اور سیاسی اجتماعات پر پابندی عائد کر دی ہے۔ راستے روکنے کیلئے کنٹینرز منگوائے جا رہے ہیں۔ حکومت نے افواج پاکستان رینجرز ایف سی اور پنجاب سے ریزرو فورس منگوانے کا فیصلہ کیا ہے اور کسی صورت بھی مظاہرین کا اسلام آباد میں داخلہ سے روکنے کی حکمت عملی اختیار کی جا رہی ہے۔ دوسری جانب تحریک انصاف ہر صورت اسلام آباد پہنچنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے اور خیبرپختونخوا سے یلغار کا ارادہ رکھتی ہے تحریک انصاف کی سیاست اس حوالے سے منفرد حیثیت رکھتی تھی کہ وہ جلسے جلوسوں میں ورکروں کو روائیتی طریقے سے اکٹھا نہیں کرتے تھے بلکہ لوگ اپنے طور پر پہنچتے تھے۔ وہ نہ کسی ایم این اے ایم پی اے یا عہدیدار کا احسان لینے کیلئے تیار ہوتے تھے نہ وہ کسی کے روٹی ٹکر کا انتظار کرتے تھے۔ اس کا عملی مظاہرہ فروری میں ہونے والے عام انتخابات میں بھی دیکھا گیا۔ لوگ اپنی کنوینس پر خود گئے خود امیدوار کا نشان ڈھونڈا خود اپنا ووٹ نمبر حاصل کیا اور لائنوں میں لگ کر اپنے من پسند ا±میدوار کو ووٹ دیا۔ تحریک انصاف کے تمام جلسے جلوسوں میں بھی ورکرز از خود پہنچتے رہے ہیں 24 نومبر کو ہونےوالے لانگ مارچ میں روایتی انداز اپنانے کیلئے کہا جا رہا ہے۔ بانی پی ٹی آئی کی اہلیہ کی حالیہ لیک ہونےوالی آڈیو میں کہا جا رہا ہے کہ ہر رکن قومی وصوبائی اسمبلی یا ٹکٹ ہولڈر اتنے اتنے لوگوں کو لیکر آئے۔ اگر نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اب اراکینِ اسمبلی پر تکیہ کیا جا رہا ہے تو پھر زیادہ بہتر ہے لڑائی لڑنے سے پہلے ہی صلح کر لیں کیونکہ یہ اراکین اسمبلی سب بڑے کاریگر لوگ ہوتے ہیں۔ انھوں نے دکھانے کیلئے ویڈیو بھی بنا لینی ہے اور راستے میں ہی رکھوا دینا ہے۔ جس طرح قانون سازی کے وقت پراسرار طور پر لاپتہ ہو جاتے ہیں اسی طرح یہ درمیان میں سے غائب ہو سکتے ہیں۔ اگر انکی بنیاد پر آخری جنگ لڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے تو اسکے نتائج کا اللہ ہی حافظ ہے۔ تحریک انصاف کو عہدیداروں اور اراکین اسمبلی کی بجائے اپنے ورکرز اور عام پبلک سے رابطے کرکے انھیں اسلام آباد پہنچنے کی دعوت دینی چاہیے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سیاسی تحریکوں کا گڑھ لاہور اور پنجاب رہا ہے جہاں مسلم لیگ ن کی مضبوط حکومت ہے اور مسلم لیگ ن پنجاب میں تحریک انصاف کو پر بھی نہیں مارنے دے رہی۔ ابھی تحریک انصاف نے احتجاج کا اعلان ہی کیا تھا تو پنجاب کی انتظامیہ الرٹ ہو گئی تھی عہدے داروں اور متحرک کارکنوں کی فہرستیں بننا شروع ہو گئی تھیں۔ ابھی سے پکڑ دھکڑ کا کام شروع ہو گیا ہے جس کا نتیجہ یہ سامنے آیا ہے کہ کافی سارے لوگ گرفتاریوں سے بچنے کیلئے زیر زمین چلے گئے ہیں۔ تحریک انصاف کو بھی پنجاب سے کوئی بڑی توقع نہیں ان کا بھی سارا فوکس خیبر پختونخوا پر ہے لیکن جب تک پنجاب کے لوگ باہر نہیں نکلیں گے اس وقت تک کسی بھی سیاسی تحریک کی کامیابی کے امکانات بہت کم ہیں۔ اول تو پنجاب میں کوئی خاطر خواہ لیڈر شپ نہیں۔ جو ہے وہ یا تو روپوش ہے یا پھر جیلوں میں ہے۔ پنجاب میں ورکرز کا آپس میں رابطہ بھی اتنا موثر نہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تحریک انصاف خیبرپختونخوا کی حکومت اور ورکرز کی بنیاد پر جو آخری معرکہ سر کرنے کی کوشش کر رہی ہے اس میں کامیابی کے کتنے امکانات ہیں۔ اس حوالے سے جو لوگ یہ تھیسز بیان کرتے ہیں کہ احتجاج سے بانی پی ٹی آئی کی رہائی کس طرح ممکن ہو سکتی ہے۔ ماضی میں بھی تحریک انصاف ایک لمبے عرصے کا دھرنا دیکر دیکھ چکی کہ دھرنے سے حکومت تو تبدیل نہ ہو سکی اب وہ کس طرح دھرنا دے کر بانی پی ٹی آئی کو رہا کروا سکتے ہیں۔ ان لوگوں کو جان لینا چاہیے کہ احتجاج اور دھرنا صرف اس لیے دیا جا رہا ہے تاکہ بات چیت کا راستہ ہموار کیا جائے۔ وفاقی دارالحکومت کا ناطقہ بند کرکے بات چیت پر مجبور کیا جائے اور عدالتوں کے ذریعے رہائی کو ممکن بنایا جائے۔ لیکن تحریک انصاف کے پاس اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ بانی پی ٹی آئی رہائی کے بعد خاموشی اختیار کرینگے۔ بہر حال اب اس مسئلہ کا کوئی نہ کوئی حل نکالنا ہو گا کیونکہ یہ معاملات اس طرح زیادہ دیر نہیں چل سکتے۔ جب سیاسی سرگرمیوں کی اجازت ہو گی بے شک وہ مشروط ہی کیوں نہ ہوں تو پھر وہ کوئی نہ کوئی رنگ دکھائیں گی اور حکومت کو آزادانہ کام کرنے کا ماحول میسر نہیں آ سکے گا۔ حکومت بہت سارے معاملات میں ہاتھ پاوں مارنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے بات بن نہیں پا رہی۔ اوپر سے حکومت کی سب سے بڑی اتحادی جماعت کے گلے شکوے بھی نمایاں ہو رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی اس نازک موڑ پر باور کروا رہی ہے کہ جو کچھ ہم نے کیا ہے اس کا مناسب صلہ ہمیں نہیں دیا گیا۔ پاکستان میں اتحادی حکومت چلانا بہت ہی مشکل کام ہوتا ہے کیونکہ آپ جس قدر اتحادیوں کے مطالبات مانتے جاتے ہیں اس سے دوگنا مطالبات بڑھتے چلے جاتے ہیں اور وہ کسی صورت بھی مطمئن نہیں ہو پاتے۔ پیپلز پارٹی کا جہاں دل کرتا ہے جس ایشو پہ دل کرتا ہے حکومت کی کلاس لے لیتی ہے اور خاص کر کے ایسے مواقع پر جب اپوزیشن نے چڑھائی کر رکھی ہو تو اتحادیوں کے ناز نخرے مزید بڑھ جاتے ہیں۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ اب کچھ اہم ہونے جا رہا ہے اپوزیشن کے موجودہ احتجاج اور ماضی کے احتجاجوں میں فرق واضح نظر آئیگا۔ حکومت کو کسی نہ کسی طرح تحریک انصاف کو مطمئن کرنا پڑےگا۔
احتجاج! حکومت اور اپوزیشن کی تیاریاں
Nov 20, 2024