میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں

Nov 20, 2024

طارق امین۔۔۔۔ تیسری آنکھ

قارئین اس وقت ہمارے پورے ملک خصوصاً صوبہ کے پی کے اور بلوچستان کو دہشت گردی اور صوبہ پنجاب کوسموگ کے حوالہ سے جس آفت اور پریشانی کا سامنا ہے اسے یہ خاکسار وقت کا جبر نہیں بلکہ اپنے نامہ اعمال کی شامت سے ہی تعبیر کرے گا کیونکہ ان دونوں صورتحال کا جس زاویہ سے بھی تجزیہ کریں اس میں زیادہ تر قصور ہمارے اپنے رویوں کا ہی نظر آتا ہے۔ بیشتر اسکے کہ ان دونوں مسائل پر بات کی جائے راقم آپکی توجہ اس طرف منبدول کرانا چاہتا ہے کہ سورہ رحمٰن کو پڑھتے جائیں،اس میں آپکو ایک ہی فقرہ بار بار پڑھنے اور سننے کو ملتا ہے اور وہی ایک فقرہ اس ساری سورہ کا نچوڑ بھی ہے جب اللہ خود انسان کو مختلف حوالے دیکر پوچھتا ہے کہ “ تم اپنے رب کی کون کونسی نعمت کو جھٹلاو¿ گے”
تو دوستو عرض یہ ہے کہ جہاں قدم قدم پر رب العزت کی طرف سے عطا کردہ مختلف نعمتوں کا جنکا رب کریم نے اس سورہ میں ذکر کیا ہے سے آپ لطف اندوز ہوتے ہیں وہاں ان بیشمار نعمتوں کے علاوہ ایک نعمت دوستی بھی ہے جسکا شمار بھی خدا کی عطا کردہ نعمتوں میں ہی ہوتا ہے۔ کچھ خوش نصیبوں کی طرح ہم بھی اس میدان میں مقدر کے سکندر ٹھہرے کہ ہمیں بھی چند ایسے دوست ملے جو اسکے نزدیک اسکی زندگی کا اثاثہ رہے ہیں لیکن ان سب دوستوں میں ایک ایسا دوست بھی ہے جو اپنی فطرت اور خصلتوں کی وجہ سے دوستی کی اس معراج پر فائز نظر آتا ہے جو بہت کم لوگوں کی پہچان ہوتی ہے۔
جس شخص کا ذکر کرنے چلا ہوں اس شخص کا نام ہے زاہد شفیق خان اور یہ خاکسار اسے جب بھی بلاتا ہے تو خانِ اعظم کے نام سے پکارتا ہے۔ گو زاہد شفیق خان ایک بہت ہی پڑھے لکھے اور مضبوط بیوروکریٹک فیملی بیک گراونڈ سے تعلق رکھتا ہے لیکن عادتاً اور فطرتاًعوامی مزاج رکھتا ہے اور جب عوامی مسائل پر بولنے کا وقت آئے تو موصوف وہ رنگ جماتا ہے کہ شاگردی میں وہ عطااللہ شاہ بخاری اور شورش کاشمیری کی باقیات ہی لگتا ہے۔ پچھلے ہفتے سموگ کے حوالے سے بات چل رہی تھی تو زاہد شفیق کہنے لگا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ جس تیزی کے ساتھ زرعی زمینوں پر ہاو¿سنگ سوسائٹیز بنائی جا رہی ہیں وہ فیکٹر بھی اس آلودگی کا بڑا سبب ہے لیکن بقول اسکے اگر سائنٹیفک بنیادوں پر اس تعفن زدہ لاش کا پوسٹمارٹم کیا جائے تو اس میں سب سے زیادہ باریک واردات آپکے ملک کے ٹرانسپورٹ سسٹم کی نکلتی ہے جسکا اس بگاڑ میں ستر فیصد حصہ بنتا ہے۔ خان اعظم کا مزید کہنا تھا کہ صرف آپ یہ دیکھیں کہ جہاں دنیا الیکٹریکل ویکلز کی طرف جا رہی ہے وہاں آپکی ٹرانسپورٹ جو پٹرول اور ڈیزل پر چل رہی اس میں کتنی گاڑیاں اور موٹر سائیکل تکنیکی اعتبار سے اس معیار پر پورا اترتے ہیں جو ایک صحت مند معاشرہ کا سٹینڈر تقاضا کرتا ہے۔
قارئین یہ ایک قدرتی امر ہے کہ جہاں آپکے رویوں میں آپکے جینز genies بڑا کلیدی کردار ادا کرتے ہیں وہیں پر آپ جس پیشہ سے منسلک ہو جائیں اس پیشہ کی اقدار اور عادات بھی پھر آپکے رویوں میں اتنا ہی اہم رول ادا کرتی ہیں جتنا عمل دخل ان جینز کا ہوتا ہے۔ خاکسار بھی جب سے صحافت کے پیشے سے منسلک ہوا ہے تو اس میں بھی صحافیوں والی چند صفات نے جڑ پکڑ لی ہے چنانچہ گفتگو کے آغاز میں جب زاہد شفیق نے اس بگاڑکی بابت رئیل سٹیٹ کو قدرے کم ذمےدار گردانا تو راقم کو لگا کہ چونکہ زاہد شفیق خان کا کردار رئیل سٹیٹ ڈویلپمنٹ کے بانی کرداروں میں سے ایک ہے اس لیئے شائد وہ اس بارے ڈنڈی مار رہا ہے۔ زاہد شفیق کا پروفیشن کے حوالے سے تعارف کرواتا چلوں کہ یہ 1994-95ءکی بات ہے جب ڈیفنس ہاو¿سنگ سوسائٹی کی طرز پر اسلام آباد میں ایک پرائیوٹ کمپنی نے نیشنل ہاو¿سنگ اتھارٹی اور ایک سنگاپورین کمپنی کے ساتھ مل کر اسلام آباد نیو سٹی کا پراجیکٹ شروع کیا۔ پاکستان سے جس پرائیویٹ کمپنی نے یہ پراجیکٹ شروع کیا اسکا ایم ڈی زاہد شفیق خان اور چیئرمین طاہر خان نیازی تھا کیونکہ یہ پراجیکٹ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کا پہلا نمونہ تھا جسے نیشنل ہاو¿سنگ اتھارٹی کی صورت میں گورنمنٹ کا اعتماد بھی حاصل تھا اور چونکہ لوگوں کے نزدیک ڈیفنس ہاو¿سنگ سوسائٹی کے مرکزی بینیفشری تو مسلح افواج کے ملازم ہی تھے اسلیئے عام لوگوں نے اس اسلام آباد نیو سٹی میں دل کھول کر پلاٹوں کی بکنگ شروع کر دی لیکن یہاں پر بھی وہی ہوا جو اس پاکستان کا مقدر ہے کہ ایسے میں جب اس منصوبہ کی پراپر ڈویلمنٹ شروع ہو چکی تھی تو 1996ءمیں جب بینظیر حکومت برخاست ہوئیں اور نواز حکومت وجود میں آئی تو سیف الرحمن کی زیر نگرانی ایک احتساب کمیشن کا عمل معرض وجود میں آیا جسکا پہلا شکار یہ پراجیکٹ صرف اس بنیاد پر ہوا کہ اس وقت طاہر خان نیازی اور آصف علی زرداری کی دوستی اپنے بامِ عروج پر تھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ طاہر خان اور زاہد شفیق سمیت ساری مینجمنٹ سلاخوں کے پیچھے چلی گئی اور لوگوں کی محنت کی کمائی اور انوسٹ کردہ سرمایہ ڈوب گیا۔ ہمارے ملک میں جاری احتساب کی صحت بارے کہ یہ سسٹم کتنا معتبر ہے صرف اس بات سے اندازہ لگا لیں کہ آج تیس سال بعد نہ صرف احتساب عدالتوں نے بلکہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی اس کیس کے تمام ملزموں کو بری کر دیا بلکہ اس منصوبہ کو بھی کلین چٹ دے دی لیکن اب کیا فائدہ بقول زاہد شفیق جوانی بھی گئی اور حالات بھی۔ اس بابت دوران گفتگو زاہد شفیق نے خاکسار کو کہا کہ خدا را اپنے قارئین کے سامنے ایک سوال رکھو کہ ہم نے تو اپنی جوانی کے جو تیس سال ان جیلوں اور عدالتوں میں دھکے کھا کر گزارے وہ تو اپنی جگہ لیکن وہ عوام جو دو سیاسی پارٹیوں کے باہم بغض کی وجہ سے ذلیل و خوار ہوئے اور اپناسرمایہ کھو چکے وہ کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کریں۔

مزیدخبریں