مشترکہ علاقائی ماحولیاتی خطرات سے نمٹنے کا عزم

Nov 20, 2024

عبدالستار چودھری 
کرہ ارض کو موسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے خطرات کی شدت سے پوری دنیا آگاہ ہو چکی ہے اور اس سے نمٹنے کے کئے عالمی سطح پر کئی کوششیں ہو  رہی ہیں۔ اسی سلسلے میں آذربائیجان کے شہر باکو میں اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن آن کلائمیٹ چینج (یو این ایف سی سی سی) کے زیر انتظام کانفرنس آف پارٹیز (کوپ)29 سربراہی اجلاس 11 سے 22 نومبر تک جاری ہے۔ آذربائیجان کے دارالحکومت باکو میں جاری اس اہم بیٹھک میں دنیا بھر سے 196 ممالک اس کانفرنس آف پارٹیز (کوپ) 29 شریک ہوئے۔وزیراعظم شہباز شریف نے اس کانفرنس میں پاکستان کی نمائندگی کی ہے جب کہ وزیراعظم شہبازشریف کے ہمراہ وفد میں نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار، وزیر اطلاعات عطا تارڑ اور وزیراعظم کی کوآرڈینیٹر برائے موسمیاتی تبدیلی رومینہ خورشید سمیت متعلقہ حکام بھی شامل ہیں جنہوں نے پاکستان کو درپیش خطرات اور چیلنجز کے ساتھ ساتھ ترقی یافتہ ممالک کی تیزرفتار ترقی سے پاکستان کو پہنچنے والے نقصانات سے بھی دنیا کو آگاہ کیا ہے۔ 
کوپ-29 کلائمیٹ ایکشن سربراہی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہبازشریف نے کہا کہ محفوظ مستقبل کے لئے ماحولیاتی تحفظ پر ہنگامی بنیادوں پر کام کرنا  ہوگا، کوپ -27، کاپ-28 اور 10 سال پہلے پیرس میں کئے گئے وعدوں پر عمل درآمد کیاجائے، پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لئے بھر پور اقدامات کررہا ہے، دنیا کو پاکستان جیسے ترقی پذیر ملکوں کی مدد کرنا ہو گی۔وزیراعظم نے آذربائیجان کے صدر کو سربراہی اجلاس کے بہترین انعقاد پر مبارکباد بھی پیش کی۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ تبدیلیوں کو سمجھنا ضروری ہے۔ دنیا کے اکثر ممالک کو موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات سے نقصانات کا سامنا  ہے۔ پاکستان بھی ماحولیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثرہونے والے ممالک میں شامل ہے۔ وزیر اعظم نے کہاکہ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث پاکستان کو 2022 میں تباہ کن سیلاب کاسامنا کرناپڑا،1700 کے قریب جانوں کا نقصان ہوا، اس کے علاوہ ہزاروں ایکڑ پرکھڑی فصلیں تباہ ہوگئیں اور لاکھوں لوگ بے گھر ہو گئے۔ سیلاب کے باعث سکولوں کی عمارتیں گرگئیں اور پاکستان کو 30 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا۔ وزیراعظم نے اس موقع پر بلوچستان کے ضلع قلعہ سیف اللہ کیایک طالب علم اکرام اللہ کو بطور مثال پیش کیا اور شرکاء￿  کو بتایاکہ اس طالب علم کا گاؤں، گھر اور سکول سب سیلاب کی نذر ہو گئے، اسے حکومت پاکستان نے لارنس کالج مری میں بہترین تعلیمی سہولیات فراہم کیں اور اس کی زندگی بدلنے میں اہم کردار اداکیا۔وزیراعظم نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات سے نمٹنے کے لئے  بروقت اقدامات نہ کئے گئے تو آنے والے وقت میں مزید نقصانات اور تباہی کاسامنا کرنا پڑے گا۔ وزیراعظم نے عالمی برادری کو موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث ہونے والے نقصانات سے نمٹنے کے لئے ان کے وعدے یاد دلاتے ہوئے کہا کہ کوپ۔ 28 میں کئے گئے مالیاتی وعدوں پر عملدرآمد کیا جائے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہم نہیں چاہتے کہ پاکستان کی طرح دیگر ممالک بھی تباہ کن سیلاب جیسی صورتحال کا سامنا  کریں۔ انہوں نے کہا کہ عالمی ماحولیاتی آلودگی میں پاکستان کا حصہ 0.5فیصد سے بھی کم ہے لیکن ہم اس کے سبب ہونے والی تباہیوں اور آفات سے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں شامل ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ ماحولیاتی انصاف کے بغیر اس صورتحال سے نہیں نمٹا جا سکتا۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لئے بھر پور اقدامات کررہا ہے،ہم نیشنل کاربن مارکیٹ فریم ورک پر کام کر رہے ہیں جبکہ پاکستان  متبادل توانائی کے ذرائع میں سرمایہ کاری کا بھی خواہاں ہے۔ انہوں نے  بتایا کہ حکومت نے آئندہ چند سالوں میں اپنے انرجی مکس میں کلین سورسز کا حصہ 60 فیصد تک لے جانے اور 30 فیصد گاڑیوں کو  الیکٹرک ٹیکنالوجی پر منتقل کرنے  کے لئے اقدامات کئے ہیں۔وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک تنہا موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لئے ضروری اقدامات نہیں کر سکتے، عالمی برادری کو ترقی پذیر ممالک کی مدد کرنا ہوگی۔ وزیراعظم نے زور دیاکہ موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لئے فراہم کئے گئے فنڈز بطور قرض نہیں بلکہ  گرانٹ کے طور پر دیئے جائیں کیونکہ  ترقی پذیر ممالک ان قرضوں کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتے۔ وزیراعظم نے کاپ-27، کاپ-28 میں کئے گئے مالی وعدے پورے کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ 10 سال پہلے پیرس میں جو وعدے کئے گئے تھے ہم ان کے بھی پورے ہونے کے منتظر ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ دنیا اب  موسمیاتی تبدیلیوں کی وجوہات جان چکی ہے اور اس کے حل بھی تلاش کئے جا چکے ہیں، اب وقت آ گیا ہے کہ ہم فوری اقدامات اٹھائیں۔ انہوں نے کہا کہ محفوظ مستقبل کے لئے ماحولیاتی تحفظ پر ہنگامی بنیادوں پر کام کرنا  ہوگا۔ ادھر وزیر اعظم کی کوآرڈینیٹر برائے موسمیاتی تبدیلی رومینہ خورشید عالم نے کہا کہ ہندوکش ہمالیہ (ایچ کے ایچ) خطے کو درپیش چیلنجز فطرت کے لحاظ سے ایک دوسرے سے متصل ہیں، جو پورے ملک میں پاکستان نیپال، بھوٹان، بھارت اور بنگلہ دیش سمیت تمام علاقائی ممالک کی قومی سرحدوں سے بنیادی ڈھانچے، معیشتوں اور ماحولیاتی نظام کو بری طرح متاثر کرتے ہیں۔ رومینہ خورشید عالم نے کہا کہ ایچ کے ایچ ممالک میں حیاتی تنوع، پہاڑی برادریوں اور ان کے ذریعہ معاش پر موسمیاتی تبدیلی کے مشترکہ لیکن منفی اثرات سے نمٹنے کے لیے تعاون کو بڑھانا ناگزیر ہے۔ رومینہ خورشید عالم کا کہنا تھا کہ ایچ کے ایچ خطہ، جسے اکثر 'واٹر ٹاور آف ایشیا' کہا جاتا ہے، 1.3 بلین سے زیادہ لوگوں کا گھر ہے، جو تقریباً ایک چوتھائی انسانیت کی روزی روٹی، پانی اور حیاتیاتی تنوع کی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ تاہم، یہ ایک وقت کے مستحکم ماحولیاتی نظام اب موسمیاتی تبدیلی سے شدید دباؤ میں ہیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ایچ کے ایچ خطے کے پہاڑی حصے سیلاب ، لینڈ سلائیڈنگ اور قدرتی آفات سے غیر متناسب طور پر متاثر ہوتے ہیں۔
 حالیہ برسوں میں خطرناک تبدیلیاں دیکھی ہیں، خاص طور پر اس کے گلیشیرز میں پانی کے دباؤ کو بڑھاتے ہوئے، زراعت، توانائی اورحیاتیاتی تنوع کی سلامتی کو خطرہ ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان ایچ کے ایچ کے دیگر علاقائی ممالک میں تیزی سے گلیشیئر پگھلنے سے نہ صرف پانی کی حفاظت خطرے میں پڑ گئی ہے بلکہ قدرتی آفات جیسے گلیشیئر لیک آؤٹ برسٹ فلڈ (GLOFs) اور زمینی کٹاؤ کے خطرات میں بھی اضافہ ہوا ہے، جس سے نیچے کی دھارے کی کمیونٹیز کے لیے بے مثال خطرات لاحق ہیں۔خطے کا کوئی بھی ملک تنہا ان بحرانوں سے نہیں نمٹ سکتا،  اس کیلئے علاقائی تعاون اور بین الاقوامی تعاون ضروری ہے۔ عالمی موسمیاتی سربراہی اجلاس (سی او پی 29) میں یہاں باکو میں ہر قابل رسائی فورم پریو این ایف سی سی سی کے مالیاتی میکانزم کے تحت قابل رسائی ذرائع کے نفاذ اور موسمیاتی مالیات کی اہمیت پر زور دے رہے ہیں۔بھوٹان، نیپال اور خطے کے دیگر ممالک کے حکام نے بھی پاکستان کے مشترکہ علاقائی ماحولیاتی خطرات، خاص طور پر کمزور پہاڑی برادریوں، ان کے ذریعہ معاش اور ماحولیاتی نظام کو متاثر کرنے والے عوامل پر مشترکہ ردعمل کے مطالبے کی حمایت کی۔ بلاشبہ سفارتی محاذ پر یہ پاکستان کی ایک بڑی کامیابی ہے کہ اس نے موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرات پر بھرپور آواز اٹھائی لیکن ہمارا ہمسایہ ملک بھارت اس فورم سے بھاگ گیا ہے۔ کوپ 29 میں بھارت نے اپنا پویلین بھی قائم نہیں کیا اور نہ ہی کوئی بھارت کی حکومتی شخصیت کانفرنس میں شرکت کیلئے باکو آئی ہے جو ایک لحاظ سے بھارت کے لئے خفت کا باعث بھی ہے۔ پاکستانی پویلین موسمیاتی و ماحولیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات سے درپیش چیلنجز کو دنیا بھر کے سامنے اجاگر کر رہا ہے۔ اس کلائمیٹ سمٹ میں پاکستان سمیت دنیا بھر سے ایک سو چھیانوے ممالک دنیا کو موسمیاتی تبدیلیوں سے درپیش چیلنجز سے نمٹنے کیلئے عالمی سطح پر منعقد اس فورم میں ماحول دشمن گیسوں کے اخراج میں کمی کے لائحہ عمل پر غور کر رہے ہیں۔ یہاں یہ امر حیران کن ہے کہ بھارت جو کہ خود بھی موسمیاتی تبدیلیوں کی وجوہات میں بڑا حصہ دار ہے اور کاربن پروڈکشن میں ترقی یافتہ ممالک سے پیچھے نہیں لیکن اس عالمی فورم میں موجود نہیں ہے۔  کوپ29 میں شریک بھارتی صحافیوں کے مطابق انڈیا کی ریاست مہاراشٹرا میں انتخابات ہو رہے ہیں اس لئے بھارتی وزیر ماحولیات وہاں مصروف ہیں۔ دوسری جانب پاکستانی پویلین کوپ29 میں کلیدی حیثیت اختیار کئے ہوئے ہے، پاکستانی پویلین نہ صرف دنیا بھر کی توجہ کامرکز بنا ہوا ہے بلکہ موسمیاتی تبدیلیوں سے پاکستان کو درپیش مسائل اور مشکلات سے متعلق کیس بھی بڑی کامیابی لڑ رہا ہے۔

مزیدخبریں