جہاد باالصندوق‘ جہاد باالبندوق

Nov 20, 2024

عبداللہ طارق سہیل

پی ٹی آئی نے تحریک کو ’’الجہاد‘‘ میں بدل دیا ہے یعنی وہ اب حکومت کیخلاف تحریک نہیں چلائے گی بلکہ جہاد کرے گی۔ گزشتہ روز قومی اسمبلی میں ’’الجہاد‘ الجہاد‘‘ کے نعرے بھی مجاہدانہ شان سے لگائے گئے۔ پاکستان کی سیاسی سائنس بتاتی ہے کہ جہاد تبھی کامیاب ہوتا ہے جب اسے امریکی سرپرستی حاصل ہو۔ افغان جہاد امریکی قیادت میں لڑا گیا تھا‘ بالآخر کامیاب ہوا۔ یہ جہاد سوویت یونین کیخلاف لڑا گیا تھا۔ پاکستان ہر اول لشکر تھا‘ اسے اس کا صلہ سرکاری اور حتمی نتیجے کے طور پر ٹی ٹی پی کی صورت میں ملا۔
…………
پی ٹی آئی والے جہاد کی کامیابی پر خاصے پریقین تو ہیں پورے پریقین نہیں۔ یعنی امریکی سرپرستی ابھی ملی نہیں لیکن ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد امید پیدا ہو گئی ہے اور امید کو بڑھاوا امریکی سینیٹرز کے خط نے دیا ہے۔ چلئے فی الحال امریکہ نہ سہی‘ امریکی سینیٹرز ہی سہی اور کل کلاں کو ریاست پاکستان کے خلاف جہاد کی باضابطہ زمام صدر ٹرمپ نے سنبھال لی تو جہاد کامیاب ہو جائے گا۔
…………
جہاد کی فی زمانہ تین قسمیں ہیں۔ جہاد باالصندوق‘ جہاد باالبندوق اور جہاد باالاشنام۔ یہ تیسرے نمبر والا جہاد تو پہلے ہی جاری ہے‘ پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا اور اس کے شعلہ زباں‘ شعلہ فشاں لیڈر اور کارکن سراپا دشنام ہیں‘ طوفان دشنام بہت کچھ بہا لے گیا ہے۔ جہاد باالصندوق یعنی خزانے کا بکسہ بھرنے کی جنگ بھی شدت سے جاری ہے اور رہا جہاد باالبندوق تو سردست ٹی ٹی پی یہ فرض کفایہ سرانجام دے رہی ہے لیکن صدر ٹرمپ کے حلف اٹھانے کے بعد ‘ احباب کا خیال ہے کہ … مطلب یہ کہ یعنی کہ۔ اب کیا کہا جائے‘ مشاہد حسین سے پوچھ لیا جائے یا پھر محمد علی درانی سے یا اگر ’’را‘‘ کے کسی افسر سے آپ کی رسم و راہ ہے تو وہاں  سے بھی مستند معلومات مل سکتی ہیں۔ 
…………
ایک ٹی وی پروگرام میں الجہاد الجہاد کے نعرے کی گونج کے پس منظر میں پارٹی کے رہنما لطیف کھوسہ نے اطلاع دی کہ 24 نومبر کی نوبت نہیں آئے گی‘ اس سے پہلے ہی حکومت کا بوریا بستر گول ہو جائے گا اور اڈیالہ نشین مرشد بھی اڈیالہ سے باہر ہو گا۔ 
آج 20 نومبر ہے۔ کیا پتہ یہ تاریخ ساز وقوعہ آج ہی وقوع پذیر ہو جائے ورنہ کھوسہ صاحب کے مطابق 23 نومبر کی ڈیڈ لائن تو ہے ہی۔ دوسرے الفاظ میں یہ جہاد باالصندوق ‘ جہاد باالبندوق امریکی تاریخ‘ معاف کیجئے گا‘ جہاد کی تاریخ کا تیز ترین جہاد ہو گا۔
واضح رہے کہ سوویت یونین کیخلاف جہاد کو کامیاب ہونے میں پورے بارہ سال لگے تھے۔ یہاں تو بارہ دن بھی نہیں لگیں گے۔ یعنی بہت ہی کراماتی جہاد ہو گا۔ بشریٰ بی بی کے ’’غائبات‘‘ یاد آ گئے۔
…………
کبھی مرشد کے نفس ناطقہ سمجھے جانے والے فیصل واوڈا صاحب بھی اس پروگرام میں شریک تھے۔ ان کا خیال تھا کہ مرشد کو ’’ٹریپ‘‘ کرایا گیا ہے اور پی ٹی آئی کی قیادت نے یہ جھمیلا اس لئے لگوایا ہے کہ مرشد کبھی باہر نہ آ سکیں۔
ان کی بات میں وزن کچھ یوں لگتا ہے کہ مرشد باہر آ گئے تو برسرزمین قیادت سے میڈیا کی توجہ ہٹ جائے گی۔ اس وقت یہ قیادت جہاں جاتی ہے‘ میڈیا پیچھے ہوتا ہے۔ پریس ٹاک‘ انٹرویو‘ کیمروں کی روشنیاں‘ مرشدکے آنے کے بعد یہ کام کہاں رہے گا۔ پھر تو یہ سب ایسی ٹوکریاں ہو جائیں گے جس کے ساتھ ’’ٹکے‘‘ کا سٹکر لگا ہوتا ہے۔ 
…………
فیصل واوڈا صاحب نے مسلم لیگ ن کے بارے میں بھی اظہار خیال کیا اور فرمایا کہ یہ جماعت غیر متعلق ہوتی جا رہی ہے یا شاید یوں کہا کہ ہو گئی ہے۔
گرائمر کی غلطی ہے۔ ہو گئی نہیں۔ کر دی گئی ہے۔ فیصل واوڈا صاحب دراصل اس کارنامے کا کریڈٹ شہباز شریف‘ نواز شریف اور مریم نواز کو دینا نہیں چاہتے اس لئے ہو گئی یعنی خود بخود ہو گئی ہے کا تاثر دیا۔ خود بخود کوئی شے کہاں ہوتی ہے بھیا۔ بہت محنت کرنا پڑتی ہے۔  
زیرنظر معاملے میں کریڈٹ شہباز شریف کی محنت‘ نواز شریف کی عدم محنت اور محترمہ مریم صاحبہ کے مشیران اور مشیرنیوں کو جاتاہے۔ مسلم لیگ کے گڑھ پنجاب میں مسلم لیگ بھولی بسری داستاں بن کر رہ گئی ہے۔ بہرحال‘ گاہے گاہے باز خوانی ہوتے رہے تو بھولی بسری داستانیں بہت مزا دیا کرتی ہیں۔
…………
امریکہ سے خبر ہے کہ وہاں کے مسلمان بہت پریشان اور پشیمان ہیں۔ اس بات پر کہ ان سے ٹرمپ کو ووٹ دینے کی بھول ہو گئی اور اب ٹرمپ ہر اہم عہدے پر چن چن کر صیہونی یہودیوں یا صیہونی نواز امریکیوں کو تعینات کر رہا ہے۔
حیرت ہے۔ امریکہ سے ہزاروں میل دور بیٹھے‘ دنیا کے ہر ملک کے ہر فرد کو پتہ تھا کہ ٹرمپ صیہونیوں سے بڑھ کر صیہونی ہے اور اگر نہیں پتہ تھا تو امریکی مسلمانوں کو نہیں۔
اور ٹرمپ کا پچھلا دور بھی اس کی گواہی دیتا ہے۔ یہ ٹرمپ ہی تو تھا جس نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا۔ 
لگتا ہے بائیڈن کی اسرائیل نوازی کا غصہ امریکی مسلمانوں نے بائیڈن کی پارٹی کی کملا ہیرس پر نکالا اور یہ نہیں دیکھا کہ کملا ہیرس بھی اسرائیل کی دوست تو اگرچہ ہوتی تھیں ٹرمپ سے سینکڑوں گنا کم۔
 ویسے ٹرمپ نے پھر بھی جیت ہی جانا تھا‘ امریکی مسلمان ووٹ نہ دیتے تب بھی۔ امریکی مسلمان کل ووٹروں کا ڈیڑھ فیصد بھی نہیں ہیں۔ شاید ایک اعشاریہ 33 فیصد ہیں جو نتائج سامنے آئے ہیں‘ ان میں سے اتنے ووٹ منہا کر لئے جائیں‘ ٹرمپ پھر بھی جیت جاتے ہاں جیت کا مارجن ضرور کم ہو جاتا۔
…………
 صدر بائیڈن جاتے جاتے ٹرمپ کیلئے مشکل پیدا کر گئے ہیں۔ جدید ترین تباہ کن امریکی میزائل امریکہ نے یوکرائن کو میدان جنگ میں استعمال کرنے کیلئے دیئے تھے۔ اب بائیڈن حکومت نے یوکرائن کو اجازت دے دی ہے کہ وہ مورچوں اور میدان جنگ سے آگے بڑھ کر ان میزائلوں کو روس کے اندر‘ شہروں اور فوجی تنصیبات پر بھی چلا سکتا ہے۔ روس کے دوست‘ یورپی یونین کے دشمن ٹرمپ کیلئے صدمے کا سامان تو ہو گیا۔ 
ادھر روس کی حالت اتنی پتلی ہے کہ فوج کم پڑ گئی‘ اب یوکرائن کی جنگ روس کیلئے روسی فوج نہیں‘ شمالی کوریا کی فوج لڑ رہی ہے۔ روس پر یہ دن بھی آنے تھے۔

مزیدخبریں