کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی آقا اپنے اقتدار و اختیارات میں سے کچھ اپنے کسی غلام کو دیکر اسے اپنے برابر لے آئے؟ اپنا جمع کیا ہوا مال و زر اپنے غلاموں میں بانٹ دے؟ ایسا تو نہ کبھی ہوا ہے نہ ہو گا، ہو سکتا ہے؟ سوچیں اور ایک واقعہ سنیں سنا ہوا ہے تو پھر پڑھ لیں شیخ سعدیؒ نے گلستان میں بیان کیا ہے کہ شہنشاہ نوشیرواں شکار کھیلنے گیا ایک جگہ ٹھہرے تو حکم دیا کہ کباب بنائے جائیں۔ بتایا گیا کہ باقی سب کچھ تو ہے نمک نہیں ہے تو نوشیروان نے ایک غلام سے کہا کہ جاؤ کسی قریبی گاؤں سے نمک لے آؤ اور ہدایت کی کہ دکاندار کو نمک کی قیمت ضرور ادا کرنا تاکہ تیرے میرے نام پر مفت نمک لے آنے سے شہنشاہ کے نام پر لوگوں کا حق مارنے کی رسم ہی نہ پڑ جائے اور دیہات ویران ہو جائیں۔ غلام تو غلام ہی ہوتا ہے اس نے عرض کیا حضور تھوڑا سا نمک کسی سے مفت لے آنے میں کیا خرابی ہے کہ اس سے دیہات ویران ہوں جائیں گے؟ نوشیرواں کا جواب تھا ’’ظلم یعنی بے انصافی اور حقوق مارنے کا دنیا میں آغاز معمولی سی بے انصافی سے ہوا تھا پھر جو کوئی آیا دوسروں کے حقوق غصب کرنے کے ظلم کی اس روایت پر چلتا رہا اس میں اضافہ کرتا گیا۔ اسی وجہ سے بے انصافی اور ظلم دنیا میں اتنے بڑھ چکے ہیں اور کہا
یعنی اگر آقا کسی کے باغ سے ایک سیب توڑ کر کھا جائے تو اس کے غلام سارا باغ ہی ویران کر دیں گے اور اگر بادشاہ ہے کہے کہ جاؤ کسی سے پانچ انڈے چھین لاؤ تو اس کے غلاموں کی فوج ہزاروں مرغیاں چھین کر بھون کھائے گی اور بتایا کہ؎
نماند ستمگار برروزگار……
لوگوں کا مال لوٹ لینے والا اور ان کے حقوق چھین لینے والا ظالم و جابر حکمران تو ہمیشہ نہیں رہتا وہ تو چلا جاتا ہے لیکن اس پر لوگوں کی لعنت کبھی ختم نہیں ہوتی۔‘‘ شیخ سعدیؒ لکھتے ہیں کہ اگر کسی آقا کا کوئی کارندہ اس کا خزانہ بھرنے کے لئے لوگوں کے گھر ویران کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسی کارندے کو اس آقاء کی بربادی کا ذریعہ بنا دیتے ہیں۔ کپاس کے ڈھیر کو آگ لگ جائے تو اس کا دھواں وہاں تک نہیں پہنچ سکتا جہاں تک مظلوموں کے دلوں کی آہیں جاتی ہیں۔ شیخ سعدیؒ یہ بھی فرماتے ہیں کہ سب اہل دانش کا اتفاق ہے کہ شیر جانوروں کا بادشاہ ہے اور گدھا سب جانوروں میں گھٹیا ترین ہے لیکن گدھا شیر سے بہتر ہے کیونکہ وہ کسی کو تکلیف نہیں پہنچاتا شیر کی مانند انسانوں کو کھا پی جانا اس کے جنگل میںآپ ہی نافذ کئے ہوئے اپنے مینڈیٹ میں شامل نہیں ہوتا بلکہ گدھا اپنی کمر پر بوجھ اٹھاکر انہیں آرام اور آسانیاں پہنچاتا ہے وہ فرماتے ہیں کہ
یہ کہ بوجھ اٹھانے والے بیل اور گدھے بھی لوگوں کو دکھ پہنچانے والے انسانوں سے بہتر ہیں۔ یعنی ظالم اور بے انصاف بدترین جانور گدھے سے بھی بدتر ہے آپ پوچھ سکتے ہیں کہ جمہوریت کے طوفان آصفیہ کے دور میں تم نے غلاموں اور ان کے آقاؤں کا بے وقت قصہ کیوں چھیڑ دیا ہے؟ اس لئے کہ صدیاں گزر گئیں لیکن آج بھی اس نوشیرواں کو نوشیرواں عادل کے نام سے ہی یاد کیا جاتا ہے یعنی رعایا کے حقوق ادا کرنے والا ان حقوق کی حفاظت کرنے والا نوشیروان تو کیا جمہوریت کے طوفان میں غوطے کھانے کے دوران عدل اور کسی عادل کی بات کرنا جمہوریت کے خلاف سازش ہے۔ اللہ ہمیں بصیرتِ حق سے نوازے۔ ظلم ہو یا عدل بدعنوانی ہو یا نوشیروانی سب کا آغاز حاکم کے اعمال و افعال سے ہوتا ہے اور جیسا آقا ویسے غلام۔ غلام تو غلام ہے وہ جس کے پاس جو کچھ بھی ہوتا ہے آقا کا دیا ہوتا ہے اور کبھی نہیں ہوا کہ کوئی آقا اپنے اقتدار اور اختیار میں سے کچھ اپنے غلام کو دے دے۔ اقتدار اور اختیار کی بلندیاں پہاڑی چوٹیوں کی مانند ہوتی ہیں جنہیں سر کرنے کے لئے آرزو مند سالوں تربیت حاصل کرتے ہیں کسی چوٹی پر چڑھنے کے لئے اس چوٹی کے دامن سے اوپر جانے کا سفرشروع کرتے ہیں مرحلہ وار سفر کرتے ہوئے چوٹی پر پہنچ جائیں تو اس سے لڑھک جانے کے انجام سے آگاہ ہونے کے سبب بہت محتاط ہوتے ہیں کہ کہیں پاؤں نہ پھسل جائے تندوتیز ہوا کا کوئی جھونکا وہاں قائم رہنے کے لئے ضروری توازن نہ خراب کر دے کہ وہ جانتے ہوتے ہیں کہ اگر توازن بگڑ گیا اور بلندی سے لڑھک گئے تو کوئی بھی ان کا سفر بربادی روک نہیں سکے گا اور ان کا اونچی چوٹی کے دامن کے کسی غاز تک پہنچ جانا لازم ہو جائے گا اگر کسی نے کوہ پیمائی کی تربیت ہی حاصل نہ کی ہو کسی چوٹی کے دامن سے سفر شروع کر کے مرحلہ وار اس کی بلندی تک نہ پہنچا ہو اور کسی ہیلی کاپٹر کے ذریعے اسے اس چوٹی پر پھینک دیا گیا ہو تو اس کا انجام کیا ہو گا؟ کرے گا وہ اس بلندی پر ان سب اصولوں اور کوہ پیمائی کے ضوابط پر عمل جو وہاں تک پہنچ جانے والے تربیت یافتہ کوہ پیما کیا کرتے ہیں وہ جو چوٹی کے دامن سے سفر شروع کر کے نیچے سے بلندی تک کے تجربات و بصیرت کے مالک ہوتے ہیں اگر وہ وہاں بھنگڑا ڈالنے لگے ہیلی کاپٹر سے گرا دیئے جانے کو اپنا ذاتی کمال سمجھ کر توازن برقرار رکھنا نہ چاہے تو اس کا سب سے بڑا دشمن کون ہو گا؟ ہو سکتا ہے اس کے اپنے سوا کوئی اور اس کا سب سے بڑا دشمن مگر خیر چھوڑیں ایسی بلندی پر پھینک دیئے ہوؤں کی پست حرکتوں کو کہ کھڑی شریف والے گوجر میاں محمد نے کہا ہوا ہے کہ یہ بات پہلے باندھ رکھو کہ ؎
خاصاں دی گل عاماں اگے روا نیئں آئی کرنی...... مٹھی کھیر پکا محمد کتیاں اگے ترنی
یعنی اگر آقا کسی کے باغ سے ایک سیب توڑ کر کھا جائے تو اس کے غلام سارا باغ ہی ویران کر دیں گے اور اگر بادشاہ ہے کہے کہ جاؤ کسی سے پانچ انڈے چھین لاؤ تو اس کے غلاموں کی فوج ہزاروں مرغیاں چھین کر بھون کھائے گی اور بتایا کہ؎
نماند ستمگار برروزگار……
لوگوں کا مال لوٹ لینے والا اور ان کے حقوق چھین لینے والا ظالم و جابر حکمران تو ہمیشہ نہیں رہتا وہ تو چلا جاتا ہے لیکن اس پر لوگوں کی لعنت کبھی ختم نہیں ہوتی۔‘‘ شیخ سعدیؒ لکھتے ہیں کہ اگر کسی آقا کا کوئی کارندہ اس کا خزانہ بھرنے کے لئے لوگوں کے گھر ویران کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسی کارندے کو اس آقاء کی بربادی کا ذریعہ بنا دیتے ہیں۔ کپاس کے ڈھیر کو آگ لگ جائے تو اس کا دھواں وہاں تک نہیں پہنچ سکتا جہاں تک مظلوموں کے دلوں کی آہیں جاتی ہیں۔ شیخ سعدیؒ یہ بھی فرماتے ہیں کہ سب اہل دانش کا اتفاق ہے کہ شیر جانوروں کا بادشاہ ہے اور گدھا سب جانوروں میں گھٹیا ترین ہے لیکن گدھا شیر سے بہتر ہے کیونکہ وہ کسی کو تکلیف نہیں پہنچاتا شیر کی مانند انسانوں کو کھا پی جانا اس کے جنگل میںآپ ہی نافذ کئے ہوئے اپنے مینڈیٹ میں شامل نہیں ہوتا بلکہ گدھا اپنی کمر پر بوجھ اٹھاکر انہیں آرام اور آسانیاں پہنچاتا ہے وہ فرماتے ہیں کہ
یہ کہ بوجھ اٹھانے والے بیل اور گدھے بھی لوگوں کو دکھ پہنچانے والے انسانوں سے بہتر ہیں۔ یعنی ظالم اور بے انصاف بدترین جانور گدھے سے بھی بدتر ہے آپ پوچھ سکتے ہیں کہ جمہوریت کے طوفان آصفیہ کے دور میں تم نے غلاموں اور ان کے آقاؤں کا بے وقت قصہ کیوں چھیڑ دیا ہے؟ اس لئے کہ صدیاں گزر گئیں لیکن آج بھی اس نوشیرواں کو نوشیرواں عادل کے نام سے ہی یاد کیا جاتا ہے یعنی رعایا کے حقوق ادا کرنے والا ان حقوق کی حفاظت کرنے والا نوشیروان تو کیا جمہوریت کے طوفان میں غوطے کھانے کے دوران عدل اور کسی عادل کی بات کرنا جمہوریت کے خلاف سازش ہے۔ اللہ ہمیں بصیرتِ حق سے نوازے۔ ظلم ہو یا عدل بدعنوانی ہو یا نوشیروانی سب کا آغاز حاکم کے اعمال و افعال سے ہوتا ہے اور جیسا آقا ویسے غلام۔ غلام تو غلام ہے وہ جس کے پاس جو کچھ بھی ہوتا ہے آقا کا دیا ہوتا ہے اور کبھی نہیں ہوا کہ کوئی آقا اپنے اقتدار اور اختیار میں سے کچھ اپنے غلام کو دے دے۔ اقتدار اور اختیار کی بلندیاں پہاڑی چوٹیوں کی مانند ہوتی ہیں جنہیں سر کرنے کے لئے آرزو مند سالوں تربیت حاصل کرتے ہیں کسی چوٹی پر چڑھنے کے لئے اس چوٹی کے دامن سے اوپر جانے کا سفرشروع کرتے ہیں مرحلہ وار سفر کرتے ہوئے چوٹی پر پہنچ جائیں تو اس سے لڑھک جانے کے انجام سے آگاہ ہونے کے سبب بہت محتاط ہوتے ہیں کہ کہیں پاؤں نہ پھسل جائے تندوتیز ہوا کا کوئی جھونکا وہاں قائم رہنے کے لئے ضروری توازن نہ خراب کر دے کہ وہ جانتے ہوتے ہیں کہ اگر توازن بگڑ گیا اور بلندی سے لڑھک گئے تو کوئی بھی ان کا سفر بربادی روک نہیں سکے گا اور ان کا اونچی چوٹی کے دامن کے کسی غاز تک پہنچ جانا لازم ہو جائے گا اگر کسی نے کوہ پیمائی کی تربیت ہی حاصل نہ کی ہو کسی چوٹی کے دامن سے سفر شروع کر کے مرحلہ وار اس کی بلندی تک نہ پہنچا ہو اور کسی ہیلی کاپٹر کے ذریعے اسے اس چوٹی پر پھینک دیا گیا ہو تو اس کا انجام کیا ہو گا؟ کرے گا وہ اس بلندی پر ان سب اصولوں اور کوہ پیمائی کے ضوابط پر عمل جو وہاں تک پہنچ جانے والے تربیت یافتہ کوہ پیما کیا کرتے ہیں وہ جو چوٹی کے دامن سے سفر شروع کر کے نیچے سے بلندی تک کے تجربات و بصیرت کے مالک ہوتے ہیں اگر وہ وہاں بھنگڑا ڈالنے لگے ہیلی کاپٹر سے گرا دیئے جانے کو اپنا ذاتی کمال سمجھ کر توازن برقرار رکھنا نہ چاہے تو اس کا سب سے بڑا دشمن کون ہو گا؟ ہو سکتا ہے اس کے اپنے سوا کوئی اور اس کا سب سے بڑا دشمن مگر خیر چھوڑیں ایسی بلندی پر پھینک دیئے ہوؤں کی پست حرکتوں کو کہ کھڑی شریف والے گوجر میاں محمد نے کہا ہوا ہے کہ یہ بات پہلے باندھ رکھو کہ ؎
خاصاں دی گل عاماں اگے روا نیئں آئی کرنی...... مٹھی کھیر پکا محمد کتیاں اگے ترنی