ہفتہ ‘ 3 ذی الحج 1433ھ 20 اکتوبر2012 ئ

 اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 50لاکھ بچے بنیادی تعلیم سے محروم ہیں جبکہ ورلڈ بینک نے کہا ہے: ذمہ داری حکومت کی ہے۔ اچھی بات جہاں سے ملے اس پر عمل شروع کردینا چاہئے، اقوام متحدہ اور ورلڈ بینک کی رائے کو اکٹھا کیاجائے تو بات مکمل ہوکر ہمارے حکمرانوں کے گلے میں کانٹوں کا ہار بن کر ” فخرِ پاکستان“ بن جاتی ہے،یہ طمانچہ بے علمی و ناخواندگی کی طرف توجہ نہ دینے کا حکومت کا میک اپ خراب کرنے کیلئے کافی ہے لیکن جب گیٹ اپ ہی کو بگڑے64 برس بیت چکے تو اب کیا توقع کی جاسکتی ہے، ہمارے دین کا حرف اول ہی اقراءہے مگر 50 لاکھ بچے اعلیٰ تعلیم تو کجا بنیادی تعلیم سے بھی محروم ہیں پھر بھی ہمیں گلہ ہے کہ دنیا کے بازار میں ہماری کوئی قدر و قیمت نہیں، علم ہی سے طاقت آتی ہے اور جہالت سے کمزوری، اسی لئے کمزور جان کر اغیار نے پاکستان کو شارع عام بنالیا ہے اور ہم استقبال کیلئے بے قرار کہ اس بے قراری کی حکمرانوں کو قیمت دی جاتی ہے جبکہ عوام مفت بکتے ہیں اور پھر بھی کوئی خریدار نہیں آج دنیا کے اکثر ملکوں کے دیہات میں بھی یونیورسٹیوں کی قطاریں لگی ہیں ہمارے دیہات کے سکولوں میں بنیادی تعلیم سے محروم بچوں کی جگہ ڈھور ڈنگر بندھے ہوئے ہیں، ہمارے ہاں تعلیم حاصل کرنے کا ایک ہی مطلب ہے نوکری حاصل کرنا جبکہ حصول تعلیم کا مطلب مہذب انسان بننا ہے، بجٹ کو دیکھیں بلکہ 65 بجٹوں پر نگاہ دوڑائیں تو تعلیم سوتیلی بیٹی ہے جسے دھکے دیکر باہر نکالنے کیلئے چند ٹکے رکھے جاتے ہیں ،یہ ہم پر ڈرون حملے کیوں ہورہے ہیں ،یہ دشمن بلا اجازت ہمارے ملک میں کیوں داخل ہورہا ہے اس لئے کہ علم کی توہین کا ایسا ہی انجام ہوتا ہے۔
٭....٭....٭....٭....٭
 جرمنی کی عدالت نے سکارف پہننے پر نوکری نہ دینا غلط قراردیدیا جس مسلمان خاتون کو جرمن ڈینٹسٹ نے سکارف پہننے پر نوکری نہیں دی اُسے عدالت نے حکم دیا کہ مسلمان خاتون کو 1500یورو ادا کرے۔ جرمن عدالت نے ساری مغربی دنیا اور یورپ کی عدلیہ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے کہ بے انصافی کے خلاف کارروائی کرنا عدلیہ کا فرض بنتا ہے جس جرمن ڈینٹسٹ نے سکارف اوڑھنے پر مسلمان خاتون کو نوکری نہ دی کیا وہ اس خاتون کے بھی دانت گننا چاہتا تھا حیرانی ہے کہ یہ سکارف کیوں مغرب کی عقل پرپڑتا جارہا ہے،انسانی آزادیوں کے دعویدار انسانوں کو لباس بھی اپنی مرضی کا پہنانے پر کیوں بضد ہیں، گویا اُن کا دعویٰ ہی باطل ہے،مصر میں بھی ایک واقعہ رونما ہوا کہ حجاب نہ پہننے پر 2 طالبات کے بال کاٹنے والی سکول ٹیچر پر پابندی لگادی گئی ہے۔مصر ی حکومت نے صحیح فیصلہ کیا تاکہ دنیا کو یہ پیغام ملے کہ مصر میں اسلامی انقلاب آیا ہے، غیر اسلامی انقلاب نہیںبرپا ہوا۔مسلمان کو بھی چاہئے کہ
گھر کا حساب سیکھ لے آپ جوڑنا
اچھا نہیں غیر پر یہ کام چھوڑنا
٭....٭....٭....٭....٭
لاہور ہائیکورٹ نے قرار دیا ہے‘ ینگ ڈاکٹرز ہڑتال سے باز نہ آئے تو ان کےخلاف توہینِ عدالت کی کارروائی ہو گی۔ ینگ ڈاکٹرز کا کہنا ہے تین ماہ گزر گئے‘ ہائی کورٹ کے حکم کے باوجود ڈاکٹروں کو سروس سٹرکچر فراہم نہیں کیا گیا۔ ینگ ڈاکٹرز اور حکومت دونوں ہائیکورٹ کا حکم نہ ماننے میں ہم زلف ہیں‘ ینگ ڈاکٹرز کیوں ہڑتال ہڑتال کھیل کر خود کو اولڈ ڈاکٹرز کی صف میں کھڑا کرنے کے درپے ہیں اور عدالت عالیہ کے حکم کی خلاف ورزی کیوں کر رہے ہیں اور کھیل میں وہ مریضوں کی جانوں سے بھی کھیل رہے ہیں۔ سروس سٹرکچر جب حکمرانوں کا درست نہیں ہو سکا تو ان کا کیسے ہو گا؟ اس ملک میں اب ہر سٹرکچر بگڑ تو سکتا ہے‘ درست نہیں ہو سکتا۔ توہین عدالت کی کارروائی سے ینگ ڈاکٹرز بچنے کی کوشش کریں ورنہ....
ینگ ڈاکٹر کی نہ آئیگی بارات
حکومت رات بھر ناچے گی
اب کیا ہو گا‘ حکومت بھی سروس سٹرکچر کے بارے اپنے دلائل پیش کریگی اور ینگ ڈاکٹرز بھی کٹہرے میں کھڑے ہونگے۔ بہرحال نوجوان طبیبوں نے مریضوں کو اس حال میں چھوڑ دیا کہ اب وہ یہ بھی نہیں کہہ سکتے....
اس نے تپتی ہوئی پیشانی پہ جب ہاتھ رکھا
روح تک آگئی تاثیر مسیحائی کی
یہ سٹرکچر کی درستگی کا مطالبہ کرتے کہیں ینگ ڈاکٹرز جنگ ڈاکٹرز نہ بن جائیں‘ ان کا موجودہ ڈھانچہ بھی بکھر جائے۔ عدالتی حکم کی تعمیل ضروری ہے لیکن ینگ ڈاکٹرز مریضوں پر رحم کھائیں۔ انہیں دیکھیں اور کچھ کام بھی سیکھیں پھر ڈاکٹر بنیں۔ نہ کہ ہڑتالی۔
٭....٭....٭....٭
بھارت کے دورے پر آئی ہوئیں آسٹریلوی وزیراعظم جولیا گیلارڈ گاندھی میموریل کے دورے کے موقع پر لڑکھڑا کر گر پڑیں۔ گاندھی کا ٹریک ریکارڈ دیکھا جائے تو 51 سالہ جولیا کے لڑکھڑا کر گرنے کا سبب سمجھ میں آجاتا ہے اور اس سانحے سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ خود جولیا بھی گاندھی ہی کی ہم مسلک تھیں۔ یہ تو شکر ہے کہ گاندھی کی روح نے جولیا کو لڑکھڑاتے ہوئے اپنی جانب نہیں کھینچ لیا‘ کیونکہ انکی روح اب بھی حسب شوقین رنگین مزاج ہے۔ ویسے آسٹریلوی وزیراعظم نے بھی گرنے کا ہیٹرک کرلیا ہے‘ اب تک وہ تین مرتبہ لڑکھڑا کر گر چکی ہیں اور جب بھی گرتی ہیں‘ منہ کے بل ہی گرتی ہیں۔ جس سے انکے وزارت عظمیٰ پر فائز ہونے کے Credentials کا تعین ہو جاتا ہے جو شخص تصویر میں ان کو اٹھاتے ہوئے دکھایا گیا ہے‘ وہ بھی دل ہی دل گنگنا تو رہا ہو گا....
نشہ پلا کے گرانا تو سب کو آتا ہے
مزا تو جب ہے کہ گرتوں کو تھام لے ساقی
بہرحال یہ بڑا اعزاز ہے اور قابل فخر بھی کہ اس برش نے آسٹریلوی استری کو جس شاعرانہ انداز میں اٹھایا‘ وہ اپنی جگہ کارثواب ہے بلکہ جو اکیاون سالہ صاحب اقتدار آسٹریلوی دوشیزہ بھارت کی زمین پر گاندھی کی سمادھی کے چرنوں میں گریں‘ تو ہمیں گاندھی کی نواسیاں یاد آگئیں‘ تاریخ جاننے والے جان گئے ہونگے کیونکہ تاریخ کو کون بدل سکتا ہے۔
٭....٭....٭....٭....٭

ای پیپر دی نیشن