اتوار ‘ 14 ذی الحج 1434ھ ‘ 20 اکتوبر2013ئ

بھارت کے ایک گاﺅں میں مسلمانوں کو قربانی دینے سے روک دیا گیا !
کہنے کو تو بھارت ایک سیکولر ملک ہے مگر وہاں جس طرح وہاں اقلیتی مذاہب کے ماننے والوں کی گزرتی ہے اس کا اندازہ وہی لگا سکتے ہیں جو وہاں رہتے ہیں۔ اب عید قربان کے موقع پر جو خالص مذہبی تہوار ہے ‘ہرممکن کوشش یہ ہے کہ مسلمانوں کو جانوروں کی قربانی سے باز رکھا جائے۔ ”گا¶ ماتا“ کی قربانی ہمیشہ سے متنازعہ رہی ہے، ہندو اسے ”ماتا“ یعنی ماں کہتے ہیں اور مسلمان اس کی قربانی کو جائز سمجھتے ہیں۔ گائے کی قربانی کا مرحلہ کم ہی آتا ہے عام طور پر نر جانور یعنی ” بیل“ کو ذبح کیا جاتا ہے گویا ”پِتا“ کہہ لیں یا ماتا کی نیت سے اس کے سرتاج کی قربانی زیادہ ہوتی ہے اس پر کبھی کسی جنونی نے اعتراض نہیں کہا کہ بھئی ہماری گﺅ ماتا“ کو بیوہ کیوں کر رہے ہو۔ ویسے بھارت کی تقسیم کو بھی ہندوﺅں نے ”بھارت ماتا“ کی تقسیم قرار دے کر اسے روکنے کی ہر ممکن کوشش کی مگر یہ تقسیم ہو کے رہی اور پاکستان بن گیا۔ اب بھارت میں لاکھ ”گاﺅ کشی“ پر پابندی مسلمانوں کیلئے استعمال ہوتی ہو مگر پھر بھی جب قریب المرگ گائیوں کو مار کر جھٹکا کر کے ہی ان کی کھالیں اتاری جاتی ہیں اور اس سے جوتے پرس، بیلٹ اور نجانے کیا کیا بنایا جاتا ہے اس پر کسی کی حمیت نہیں پھڑکتی، صرف ....ع
”برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر“
اس بار دیوبند مدرسے کے بعض علماءنے کہا ہے کہ مسلمان ہندوﺅں کے مذہبی جذبات کا خیال رکھتے ہوئے گائے کی قربانی نہ کریں۔ اس پر کسی نے عمل کیا یا نہیں اس کا تو علم نہیں مگر صوبہ مہاراشٹر کے ضلع منگرام پور کے گاﺅں ملنڈرانہ میں پولیس نے چار دیواری کے اندر بھی مسلمانوں کو قربانی سے روک دیا حالانکہ چار دیواری کے اندر قربانی سے کسی کے جذبات مجروح نہیں ہوتے، مگر کیا کہیں اس ”بلنڈرانہ“ قسم کے فیصلے کرنے والی بھارتی پولیس کو جس نے ایسا فیصلہ کر کے اپنی حکومت کے سیکولر ازم کا مذاق اُڑایا۔
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
دنیا میں 3 کروڑ افراد غلاموں کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں !
ایک بین الاقوامی رپورٹ میں یہ اعداد و شمار پڑھ کر ہمیں بہت حیرت ہوئی کہ اس میں ہمارے ساتھ بہت زیادتی کی گئی اور ہمارے ملک کا نام سرفہرست نہیں رکھا گیا بلکہ ہمارا تیسرا نمبر رکھا گیا ہے۔ اگر ہمارے سیاستدانوں، مذہبی لیڈروں اور حکمرانوں و اپوزیشن جماعتوں کے بیانات دیکھے جائیں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ غلامی میں تو ہم سرفہرست ہیں۔ امریکی غلامی، جاگیر داروں کی غلامی، حکمرانوں کی غلامی، مذہبی ثقافتی، لسانی گروہوں کی غلامی، طاقتور غنڈہ عناصر کی غلامی، واپڈا سے لیکر سوئی گیس والوں تک کونسی ایسی غلامی ہے جو ہم پاکستانی برداشت نہیں کر رہے اور اب تو ہم یہ بھی بھول چکے ہیں کہ .... ع
”کیا اسیری ہے کیا رہائی ہے“
ہم غلام ابن غلام بن چکے ہیں۔ حکمران اور طاقتور ادارے اور طبقے ہمارے آقا بن کر ہم غریب عوام پر صرف حکم نہیں چلاتے بلکہ اپنی حکومت، طاقت اور عیاشیوں کا خراج بھی ہم سے وصول کرتے ہیں۔ یہ ظالم طبقے ہماری لاشوں پر اپنے شیش محل تعمیر کرتے ہیں اور خون آشام چمگادڑوں کی طرح ہمارے لہو پر پلتے ہیں۔
اب اس کے باوجود اگر کوئی اپنے کو آزاد سمجھتا ہے تو یہ اسکی خام خیالی ہے۔
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
حکومت سندھ کا اندرون صوبہ جرائم پیشہ افراد کیخلاف آپریشن سے انکار !
قربان جائیے اس سیاست پر لڑتے ہیں مگر ہاتھ میں تلوار نہیں ہے والی بات اسی طرزِ پر سیاست پر فٹ آتی ہے۔ کیا صوبہ سندھ میں صرف کراچی ہی بگڑا ہُوا بچہ ہے باقی سارے تو فرمانبردار ہیں۔ بے شک کراچی میں خرابی کی بگاڑ کی حالت بہت نمایاں ہے مگر اندرون سندھ جرائم پیشہ افراد کے محفوظ قلعے آخر کیا ملک و قوم کے مفاد میں برقرار رکھنا ضروری ہیں۔ کراچی میں بھی آپریشن سے خطرناک ردعمل سامنے آنے کا خطرہ تھا اور آ بھی رہا ہے تو کیا وہاں آپریشن بند کر دینا اس مسئلے کا حل ہو گا۔ اس طرح اس خوف سے کہ اندرون سندھ گڑبڑ ہو گی، صوبائی حکومت شُتر مرغ کی طرح سر ریت میں چھپائے بیٹھی رہے اور سندھی عوام انہی ڈاکوﺅں اور جرائم پیشہ افراد کے ہاتھوں لُٹتے رہیں۔ آج بھی اندرون سندھ نہ سفر محفوظ ہے نہ کسی کی عزت نہ مال و جان کچھ بھی محفوظ نہیں۔ لگتا تو یوں ہے جیسے حکومت خود ان ڈاکوﺅں اور جرائم پیشہ افراد سے ملی ہوئی ہے اور یہ دونوں ایک دوسرے کو تحفظ دے رہے ہیں۔ کراچی میں آپریشن پر واہ واہ کرنے والے اندرون سندھ آپریشن پر ہائے ہائے کا راگ بند کریں اور پورے صوبے کو جرائم پیشہ افراد سے پاک کر کے امن کا نشان بنائیں ورنہ کہیں تنگ آئے عوام ہمارے حکمرانوں کو ہی عبرت کا نشان نہ بنا دیں۔
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
واپڈا ناسُور بن چکا ہے، افسر خود بجلی چوری میں ملوث ہیں : پرویز خٹک !
وزیر اعلیٰ خیبر پی کے نے ایک قومی مرض کی درست تشخیص کی ہے۔ ہمارے ہاں ایک بڑا المیہ یہی ہے کہ ہم مرضی کی تشخیص کے بعد بھی اس کا علاج نہیں کرتے اور ہائے ہائے، وائے وائے کا راگ الاپتے رہتے ہیں۔ واپڈا میں کرپشن کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ واپڈا لائن مین سے لیکر ڈائریکٹرز تک اور خدا جھوٹ نہ بلوائے تو چیئرمین تک سب اس ”ہَوائی روزی“ سے حصہ بقدرِ جُثہ مستفید ہوتے رہتے ہیں کیونکہ اس محکمہ میں سارے کام ”انجمن ستائش باہمی“ کے زیر اہتمام نہایت تسلی سے انجام پاتے ہیں اور کسی کو کسی سے کوئی گلہ نہیں ہوتا۔ علاوہ ازیں بھی واپڈا کے ملازمین دیگر کئی برکات بجلی سے مستفید ہوتے ہیں مثلاً یہ واپڈا ملازمین کے گھروں کو مفت فراہم کی جاتی ہے اور یہ نیک طینت خدمتِ خلق کے مارے محبِ وطن عوام دوست سرکاری ملازمین اپنے میٹر سے آس پاس کے متعدد گھروں کو بجلی فراہم کر کے انکے گھروں میں بھی روشنی پھیلاتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن