ڈرون حملوں میں 2200 افراد جاں بحق 600 شدید زخمی۔ جاں بحق ہونیوالوں میں 400 عام شہری شامل ۔ اقوام متحدہ

Oct 20, 2013

نیویارک (بی بی سی + اے این این) اقوام متحدہ کے ایک خصوصی نمائندے نے امریکہ سے مطالبہ کیا ہے وہ پاکستان سمیت دیگر ممالک میں ڈرون حملوں کے نتیجے میں جاں بحق ہونیوالے عام شہریوں کے اعداد و شمار کو منظر عام پر لائے۔ اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے بین ایمرسن کے بقول پاکستانی حکام نے تصدیق کی ہے قبائلی علاقوں میں سال 2004ء سے ہونیوالے 330 ڈرون حملوں میں 2200 افراد جاں بحق اور 600 شدید زخمی ہوئے جبکہ جاں بحق ہونیوالوں میں 400 عام شہری شامل ہیں۔ انسداد دہشت گردی اور انسانی حقوق کیلئے اقوامِ متحدہ کے خصوصی نمائندے بین ایمرسن کی اقوامِ متحدہ کیلئے ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ کی مزید تفصیلات کے مطابق اس تحقیقاتی رپورٹ میں جائزہ لیا گیا کہ کہیں ڈرون حملوں میں عام شہریوں کی اموات غیرمتناسب تو نہیں اور کس حد تک قانونی ہیں۔ اقوام متحدہ نے پاکستان اور دیگر ملکوں میں ڈرون حملوں کے نتیجے میں عام شہریوں کی ہلاکت اور ٹارگٹ کلنگ پر تحقیقات جنوری سے شروع کی تھیں۔ اس تحقیق کے دوران بین ایمرسن نے ڈرون حملوں کیلئے ذمہ دار امریکی افسروں سمیت ان ملکوں کے اہلکاروں سے بھی بات چیت کی ہے جن کی سرزمین پر امریکہ ڈرون طیاروں کے ذریعے دہشت گردوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے لئے اپنی رپورٹ کی تیاری کے دوران بین ایمرسن نے ابتدائی معلومات جاری کی ہیں جن کے مطابق پاکستان، افغانستان اور یمن میں امریکی ڈرون طیارے، کم سے کم ساڑھے چار سو شہریوں کی اموات کا سبب بنے البتہ ان کا کہنا ہے اس سلسلے میں مزید کام کی ضرورت ہے۔ بین ایمرسن کا کہنا ہے پاکستانی حکام نے انہیں بتایا امریکی جاسوس طیاروں کے حملوں میں کم سے کم چار سو شہری مارے گئے۔ بین ایمرسن کے بقول ان کی تفتیش میں سب سے بڑی رکاوٹ امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کی رازداری ہے جس کے نتیجے میں ڈرون حملوں کے نقصانات کا شفاف تخمینہ لگانا مشکل ہے۔ پاکستان اور یمن میں ہونے والے ڈرون حملوں کی نگرانی سی آئی اے کرتی ہے۔ بین ایمرسن کے خیال میں ان ڈرون حملوں سے ہونے والے جانی نقصان کے اعداد و شمار کو منظر ِعام پر لانے سے امریکی سلامتی کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ انہوں نے امریکہ، اسرائیل اور برطانیہ سمیت ڈرون طیارے استعمال کرنے والے تمام ممالک سے مطالبہ کیا وہ عام شہریوں کے جانی نقصان کی معلومات دینا اور اس کی قانونی وضاحت کرنا اپنا فرض سمجھیں۔ اقوامِ متحدہ کے خصوصی نمائندے نے اپنی ابتدائی رپورٹ میں اعتراف کیا ہے ڈرون طیارے انتہائی محتاط حکمت عملی کے تحت استعمال کئے جائیں تو دوسری ہر قسم کی فوجی کارروائی کی نسبت ڈرون حملے کم جانی نقصان کرتے ہیں۔ بین ایمرسن کے بقول اس سلسلے میں حملہ کرنے والے اور جہاں حملہ ہو رہا ہو دونوں ملکوں کے درمیان معاہدہ ہونا ضروری ہے۔ پاکستان کا سرکاری مؤقف رہا ہے امریکہ کے ڈرون حملے ملکی سالمیت اور خودمختاری کی خلاف ورزی ہیں۔ پاکستان متعدد بار اعلیٰ سطح پر قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملوں پر احتجاج کر چکا ہے اور ان حملوں کے خلاف دائیں بازو کی اور مذہبی جماعتیں احتجاجی مظاہرے کر چکی ہیں۔ وزیراعظم نوازشریف نے گذشتہ ماہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں اپنے خطاب میں ڈرون حملوں کو تمام عالمی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے امریکہ سے مطالبہ کیا تھا وہ یہ حملے بند کریں تاکہ مزید شہریوں کی ہلاکت نہ ہو۔ اے این این کے مطابق انسانی حقوق اور انسداد دہشت گردی کے بارے میں اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے بین ایمرسن نے ڈرون حملوں میں ہلاکتوں سے متعلق عبوری رپورٹ تیار کی جسے 25 اکتوبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بحث کیلئے پیش کیا جائے گا۔ بین ایمرسن نے کہا ڈرون حملے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں کئے گئے۔ دشوار گزار علاقے ہونے کی وجہ سے ہلاکتوں کی اصل تعداد سامنے نہیں آئی۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان، افغانستان اور یمن میں امریکی ڈرون حملوں میں کم از کم 450 شہری مار ے گئے اور یہ اعداد و شمار امریکہ کی جانب سے شہریوں کی ہلاکتوں کے اعتراف سے کئی گنا زیادہ ہیں۔ 

مزیدخبریں