جنرل پرویز مشرف کو امریکی کارگل سازش کے تحت اقتدار میں لایا گیا۔ کارگل سازش افغان طالبان حکومت کے پس منظر میں بنائی گئی تھی اس وقت پاک افغان (افیاک) بلکہ سارے جنوبی ایشیا میں رونما ہونے والے واقعات اور سانحات کا سبب افغانستان ہے۔ کارگل سازش سے قبل امریکہ نے جنرل جہانگیر کرامت، چیف جسٹس سپریم کورٹ سید سجاد حسین شاہ، صدر پاکستان فاروق احمد خان لغاری اور قومی اسمبلی کے رکن سید فخر امام کے ساتھ مل کر نواز حکومت کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جو بوجوہ ناکام رہی اس وقت امریکہ نوازشریف سے ناخوش تھا کہ وزیراعظم نوازشریف نے سعودی حکومت کیساتھ مل کر افغانستان میں مجاہد طالبان کی حکومت کو سرکاری طور پر تسلیم کر رکھا تھا۔ نیز نوازشریف پاکستان میں قرآن و سنت کے عملی نفاذ کیلئے شریعت بل کے معاملے میں بھی سنجیدہ کوشش کر رہے تھے۔ جو امریکہ و اتحادی ممالک بالخصوص بھارت اور ایران کو کسی طور بھی قبول نہیں تھے۔ جنرل پرویز مشرف پاکستان کی فوجی تاریخ کے پہلے صدر ہیں جو مکمل طور پر امریکہ نواز تھے اور انہوں نے افواج کے اندر ایک مضبوط امریکہ نواز حلقہ قائم کیا جس نے امریکہ و اتحادی ممالک کو خطے کی جغرافیائی طاقت اور حقیقت بنایا ہے۔ پرویز مشرف پالیسی کا پہلا ثمر افغانستان کو امریکی استعماری ریاست بنایا جو وقتاً فوقتاً پاکستان کے اندر داخل ہو کر سانحہ سلالہ جیسے واقعات کرتے رہتے ہیں۔ امریکہ افغانستان کے چٹیل اور بے آباد پہاڑوں پر راج کرنے نہیں آیا، امریکہ کا ہدف کراچی اور گوادر ہے جس کیلئے جنرل پرویز مشرف کی باجوڑ ، لال مسجد اور بگٹی پالیسی پاکستان کی جغرافیائی سلامتی کیلئے انتہائی مہلک رہی ہے۔ نیز جنرل پرویز مشرف نے پاکستان کو ملی وحدت کے ادراک سے نکال کر قومیتی ادراک کے حوالے کر دیا جو لامحالہ پاکستان کو خاکم بدھن قومیتی شکست و ریخت کا شکار کر دے گی۔ پرویز مشرف کی بے سروپا بھارتی پالیسی کا عالم یہ تھا کہ سانحہ گجرات بھارت کی تمہیدی سازش گودھراں ریلوے سٹیشن سانحہ تھا جس میں اس بوگی کو آگ لگائی گئی جس میں عام ہندو بھارتی شہری سفر کر رہے تھے۔ الزام حسب معمول بھارتی مسلمانوں پر لگایا گیا اور جنرل پرویز مشرف کا سرکاری بیان تھا کہ پاکستان دنیا کے مسلمانوں کا ”ماما“ نہیں۔ بھارتی مسلمان ہندو ریاست میں رہنے کے آداب سیکھیں جبکہ بھارتی سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ موجود ہے کہ سانحہ گودھراں وزیراعلیٰ گجرات نریندرا مودی نے دہلی سرکاری کی سرپرستی میں خود کرایا ہے۔ پاکستان کی موجودہ ابتری بدامنی مہنگائی کا بیج اور غربت پرویز مشرف کی کاشت ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ آکاس بیل بن گئی ہے۔ پاکستان کے اندر عریانی، فحاشی، بے حیائی اور میڈیا کی بے لگامی کا عفریت بھی اسی دور کی کی کاشت ہے۔ جنرل ایوب اور ضیاءالحق کی ترجیحات نیشنلزم رہی جبکہ پرویز مشرف کی واحد ترجیح انٹرنیشنلزم کے تحت امریکی تابعداری رہی ہے۔جنرل پرویز مشرف مختلف سنگین مقدمات میں بھی ملوث رہے ہیں مگر آج تقریباً سبھی مقدمات میں ٹھوس عدم ثبوت کی بنیاد پر ضمانت ہو چکی ہے۔ پرویز مشرف دبئی جاکر رہ سکتے ہیں۔ دریں صورت میں استاد گرامی پروفیسر محمد منور (مرحوم) کے ولی اللہ دوست کی باتیں یاد آتی ہیں جنہوں نے پرویز مشرف کے تین تین سال کے دو ادوار کی نوید دی اور بعدازاں استعفیٰ کی وعید سنائی۔ بعدازاں کچھ عرصہ ٹھہرنے کے بعد بہانے سے باہر جا کر رہنے کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ انہیں واپس آ کر ذوالفقار علی بھٹو سے زیادہ اسیری ذلت برداشت کرنا پڑے گی غیب کا علم اللہ کی ذات کو ہے مگر تاریخ پاکستان شاہد ہے کہ پاکستان کی نظریاتی اساس کو نقصان پہنچانے والی ہر اندرونی اور بیرونی قوت ریاست اور فرد کا انجام بُرا رہا ہے ۔ پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نظر۔