ہم پاکستانی وقتا فوقتا اپنا موازنہ دوسری قوموں کے ساتھ کرتے رہتے ہیں اور اس موازنے کے نتیجے میں مایوسی اور بے یقینی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ہم اپنی اسمبلی ہال کا موازنہ ترقی یافتہ ملکوں کی اسمبلیوں سے کرتے ہیں اور اس میں بیٹھنے والے لوگوں کی ذہنی صلاحیتوں کو جانچنے کے لئے ہاتھ میں مائیک پکڑے ان سے اصرار کرتے ہیں کہ وہ انگلش کے چند جملے بول کر سنا دیں۔ مقام ہنسنے کا تھا یا رونے کا، ہمارے ارباب اختیار انگلش کے چند جملے بھی نہیں بول پائے۔ کئی تو اردو میں بھی پاکستان کے حالات پر کچھ کہنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے ۔ یہ تمام منظر دیکھ کر افسوس بھی ہوا اور مایوسی بھی۔
مگر بہت سے لوگوں کے بر عکس میں نے ان لوگوں کی عقل کا ماتم نہیں کیا۔ ان کو گالیاں نہیں دیں۔ کیونکہ یہ لوگ بے قصور ہیں۔ قصور وار تو اصل وہ نظام ہے، جو ایسے لوگوں کو آگے لے کر آتا ہے۔ جن لوگوں کے پاس اثرورسوخ کے سوا کوئی فکرٰی ،علمی اور عملی صلاحیت موجود نہیں ہوتی۔ حتی کے وہ زبان کیا قلم کے ذریعہ بھی قوم کی خدمت کرنے کے لائق نہیں ہوتے۔ ٹاک شوز میں بیٹھ کر اخلاقیات سے گری گفتگو کرنا ، ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنا، بدتمیزی کا مظاہرہ کرنا، گویا کوئی ضابطہ اخلاق ہے ہی نہیں۔ ایسے ممبران قومی اسمبلی کسی طرح بھی مہذب معاشرے کے شہری محسوس نہیں ہوتے۔ ہم کڑھتے ہیں برا بھلا کہتے ہیں مگر قصور ان لوگوں کا کہاں؟ قصور اس نظام کا ہے جو دولت اور اثر و رسوخ کو جگہ دیتا ہے۔ اس کے ہر عکس علم، ذہانت اور فکر کہیں راستوں کی گرد ہو جاتی ہے۔
کہیں علم ریڑھی لگائے سبزی بیچتا ہے تو کہیں ذہانت سڑکوں پر تار کول بچھاتی ہے۔ کہیں فکرو تدبر کسی چوک میں اپنے بچوں پر برائے فروخت کا بورڈ لگائے دکھائی دیتا ہے تو کہیں کئی دنوں کی بھوکی پی ، ایچ ،ڈی کی ڈگریاں نہر میں کود جاتی ہیں۔ کہیں ہنر مند ہاتھوں سے سرمایہ نکل کر کسی ان پڑھ کا محل سجاتا ہے تو کہیں کوئی انجنیئر شمسی توانائی اور پانی سے چلنے والی گاڑیاں بنا کر شکستہ حالی میں اپنی صلاحیتوں کا ماتم کرتا ہے۔ قصور ان لوگوں کا نہیں قصور اس نظام کا ہے۔ یہ نظام کیوں ایسی راہیں فراہم نہیں کرتا، جس سے اہل لوگ اسمبلیوں تک پہنچیں جن کی آنکھوں میں غیرت ہو حیا ہو، جن کے دل جذبہ حب الوطنی سے سرشار ہوں، جن کا دامن کرپشن سے پاک ہو ، جن کے پاس علم ہو، ذہانت ہو، فطانت ہو اور سب سے بڑی بات اخلاص اور اخلاق کی دولت ہو۔
ہم ان قوموں کے ساتھ اپنا موازنہ کرتے ہیں جن کی جی ، ڈی ،پی کی ہم خاک بھی نہیں چھو سکتے ، جن میں خواندگی کی شرح 100فیصد ہے۔ ان قوموں سے موازنے سے بہتر ہے کہ ہم اپنے گریبانوں میں جھانکیں اور اپنا احتساب کریں کیونکہ ہم اوازنہ برائے موازنہ کرتے ہیں مگر اس کے نتیجہ میں حاصل ہونے والے سبق کو بھول جاتے ہیں۔ اس سبق کو مد نظر رکھتے ہوئے مجموعی قومی مفادات کے لئے اہم اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
جس میں سب سے اہم ایسے اداروں کے قیام کی ضرورت ہے جو ضلعی سطح پر کام کریں۔ جس میں الیکشن میں حصہ لینے والے خواہشمند افراد کی زبان، ادب قانون، اخلاقیات ، سیاسیات اور بین الاقوامی تعلقات کے کورس کروائے جائیں۔ ان امتحانات کو 80فیصد نمبروں سے پاس کرنے والے کو الیکشن میں حصہ لینے کا اہل قرار دیا جائے۔ کیونکہ ہمارا نظام تعلیم یہ ہے کہ سادہ بی، اے کرنے والا شخص سیاست کی تعریف بیان نہیں کر سکتا۔ وہ علم سیاست کے کسی ایک محقق سے واقف نہیں ہو گا۔ حتی کہ وہ اس بات سے بھی نا آشنا ہو گا کہ بھارت اور انڈیا کی فارن منسٹریز کیا کہلاتی ہیں۔
ایسا ادارہ بنانے کی ضرورت ہے جس میں روایتی دشمنی اور منافقت کی سیاست کی بجائے امن اور ہم اہنگی کی سیاست سیکھائی جائے، جس میں ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کی بجائے ملک کی ترقی کے لئے کام کرنا سکھایا جائے، اس کے لئے یہ ادارہ ہر ضلع سے ذہین لوگوں کو منتخب کرے اور ان کو آگے لے کر آئے۔ اس طریقے سے سیاسی بد معاشی اور جہالت کا خاتمہ کے ساتھ ساتھ ذہنی اور پڑھے لکھے لوگوں کو آگے آنے کا موقع بھی ملے گا۔
اب ایسا تضاد بھی کیوں ہے کہ سفارت کاری اور بیورو کریسی کے لئے سی ، ایس ،ایس کے امتحانات ہوں۔ اور جن لوگوں نے ملک کی باگ دوڑ سنبھالنی ہو اور اسمبلیوں میں بیٹھ کر نچلی سطح پر کام کرنے یا کرواتے ہیں، ان لوگوں کے لئے معیار صرف دولت ہو؟ علم ذہانت اور دانش کوئی معنی نہ رکھتی ہو؟ ان لوگوں کے لئے کوئی کڑا اور سخت امتحان کیوں نہیں ہے سی، ایس ایس اور پبلک سروس کمشن کے کڑے امتحانات سے گزر کر آنے والے لوگ جن کو سوسائٹی کا دماغ کہا جاتا ہے۔ وہ اس جاہل اشرافیہ کے نیچے کام کرنے پر مجبور ہے۔ پڑھے لکھے پی ایچ ڈی طبقہ کو جاہل اور جعلی ڈگری رکھنے والے نے یرغمال بنا رکھا ہے، اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ ایسا ادارہ آج تک ہمارے ملک کو کوئی ایک سیاست دان، بیورو کریٹ، ایمبیسیڈر کیوں نہ دے سکا۔ جس میں ذہین لوگوں کی قابلیت کو پرکھا جاتا ہے۔ ان میں قائدانہ صلاحیتوں کو نکھارا جاتا۔ (جاری ہے)
دشت امید میں گرداں ہیں دوانے کب سے
Oct 20, 2014