ماہِ اکتوبر اگرچہ اُس وقت آتا ہے جب درخت اپنے ملبوس سے شاداب ہوکر تھک جاتے ہیں اور پودے ضعف کا شکار دکھائی دینے لگتے ہیں۔ پودوں کے سبز پیرہن آنکھوں کو ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتے اور نہ ہی ہر جانب خوشنما پھول کھلے نظر آتے ہیں۔ ڈالیوں پر کوئل کی کوک، پپیہے کی پی اور چڑیوں کی چہچہاہٹ کانوں میں رس نہیں گھولتی بلکہ اداسی انڈیل دیتی ہے۔ گرما اور سرما کے سنگم پر واقع اکتوبر وہ مہینہ ہے جب دھوپ کی تمازت سے جِلدسلگتی نہیں بلکہ سورج تلے بیٹھنا بھلا لگتا ہے۔ اس سحرانگیز موسم کے باوجود اکتوبر کا تیسرا ہفتہ سندھیوں کی بڑی تعداد کو ہمیشہ دکھی کرجاتا ہے۔ آج سے سات برس پہلے اکتوبر اٹھارہویں دن کی رات اُن کیلئے انتہائی دلدوز ثابت ہوئی تھی۔ گلوں سے رنگ چرانے کا موسمِ خزان ابھی انگڑائی ہی لے رہا تھا کہ بھرے پرے کاروبارِ گلشن کو کسی کی نظر لگ گئی۔یہ وہ رات تھی جب صدیوں پر محیط انسان کش روایتوں کے ایک باغی کی بیٹی برسوں کی جلاوطنی کے بعد واپس ملک لوٹ رہی تھی ، وہ باغی جس نے ظلمت کو ضیائ، سرسر کو صبا اور بندے کو خدا کہنے سے انکار کے جرم میں پھانسی کا پھندا چوم لیا تھا۔ یہ وہ ظالم دن تھا کہ جب پاکستان کے کروڑوں افراد کو زبان دینے والے کی سیاسی رہنما کی بیٹی ملک کو آمریت کے شکنجوں سے نکالنے کیلئے عوام میں واپس لوٹ رہی تھی، یہ وہ صبح تھی جب کروڑوں پاکستانیوں کی آنکھوں میں امید کے دیے جلانے والے کی زندگی کا چراغ گل کرنے کیلئے سازش کے پہلے سکرپٹ پر عمل درامد کیا گیا۔یہ دراصل اُس دن کا آغاز ہونے جارہا تھا، جس نے عوام کا سہارہ بننے والے کے اپنے خاندان کو دنیا بھر میں بے سہارہ کردیناتھا۔ اُس دن اصل میں جبر کے سامنے صبر، ظلم کے مقابل برداشت، قہر کے سامنے کرم اور زیادتی کے مقابلے میں توازن کا امتحان تھا۔یہ درصل برسوں کی جلاوطنی کے بعد کسی اور کی نہیں بلکہ پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بینظیر بھٹو کی وطن واپسی کا دن تھا، لیکن اُس دن کراچی میں کارساز کے مقام پر جلوس میں خودکش دھماکے کے نتیجے میں سینکڑوں افراد مارے گئے تو جیالوں کیلئے امید بھرا یہ دن یوم سیاہ بن گیا۔ یہ دھماکہ دراصل تنبیہ تھی کہ ملک کے اندر بہت سی قوتیں بینظیر بھٹو کو پاکستان میں سیاست کرتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتی۔ یہی ہوا کہ صرف سوا دو ماہ بعد ہی لیاقت باغ راولپنڈی کا جلسہ ختم کرکے بینظیر بھٹو واپس روانہ ہوئیں تو ایک اور خودکش دھماکے میں وہ جان سے گئیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے نواسے اورمحترمہ بینظیر بھٹو کے بیٹے بلاول بھٹو زرداری نے کراچی کے اُس پہلے تنبیہی حملے کے دن کے ٹھیک سات سال بعد کراچی میں باغ جناح کے مقام پر ایک بڑا جلسہ کرکے اپنی سیاست کا آغاز کردیا ہے۔لیکن یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہوگا کہ بلاول اپنے نانا کے طے کردہ اصولوں اور اپنی والدہ کے متعین کردہ راستوں پر کس ثابت قدمی سے چلتے ہیں؟کیونکہ ستر کی دہائی کی طرح افسوسناک طور پر پاکستان آج بھی مسائل کی آماجگاہ ہے۔البتہ ستر کی دہائی کے مسائل کی نوعیت آج کے مسائل اور چیلنجز سے قدرے مختلف تھی۔ اُس وقت پاکستان میں آئین نہ تھااور آئین سے تہی پاکستان میں کبھی ایک نظام حکومت تو کبھی دوسرے طرزِ حکومت کا تجربہ کرنا معمول کی بات تھی،نوے ہزار سے زیادہ پاکستانی فوجی بھارت کی قید میں تھے،آمریت کے چرکوں کے باعث پاکستان سقوط ڈھاکہ کے سانحہ سے گزرچکا تھا، ملک میں اداروں کا کوئی وجود نہ تھا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ملکی انتظامی ڈھانچہ شکست و ریخت کا شکار تھا، تاہم اتنا ضرور تھا کہ سیاست میں کرپشن کے بدنما دھبوں کی یوں بھرمار نہ تھی۔ کچی بستیوں میں ٹوٹے پھوٹے مکانوں کے باہر بان کی بنی چار پائیوں پر حقہ پیتے بوڑھے جیالے آج بھی اپنی یادیں تازہ کرتے ہیں کہ ’’ ذوالفقار علی بھٹو نے تمام چیلنجز کا ڈٹ کرمقابلہ کیا اورستر کی دہائی کے اوائل میں انتہائی مختصر وقت میں پاکستان کو دو آئین دیے،پاکستان جہاں یہ ہی طے نہ ہوسکاتھا کہ اس ملک خداداد کو کس طرزِ حکومت کے مطابق چلایا جائے، وہاں بھٹو نے دو ایوانوں پر مشتمل پارلیمانی نظام حکومت اس ملک کو دیا، جس پر آج بھی تمام جماعتیںاور دانشور متفق ہیں کہ اگر اس ملک کو متحد رکھ کر چلانا ہے تو اس کیلئے پارلیمانی نظام ہی بہترین طرزِ حکومت ہے۔ پاکستان جہاں اداروں کا سرے سے وجود ہی نہ تھا، وہاں ذوالفقار علی بھٹو نے اس ملک میں انگنت انتظامی اور معاشی ادارے قائم کیے ،جن کی افادیت سے کل کوئی منکر تھا نہ آج کسی کو انکار ہے۔ نوے ہزار فوجیوں کو بھارتی قید سے رہائی دلانے کا کارنامہ بھلا کون بھلا سکتا ہے؟ کیا کوئی بھلا سکتا ہے کہ یہ نعرہ کِس نے دیاتھاکہ’’ ہم گھاس کھالیں گے لیکن ایٹم بم ضرور بنائیں گے‘‘۔ بوڑھے جیالے آج بھی برملا کہتے ہیں کہ ’’بھٹو نے پاکستان کیلئے ایسی مضبوط بنیادیں فراہم کردی تھیں کہ آنے والا کوئی حکمران بھی پاکستان کے دفاع کیلئے متعین کردہ اصولوں سے روگردانی کرنے کی جرات نہ کرسکا۔ایک لمحے کو تصور تو کیجیے کہ اگر بھٹو ستر کی دہائی میںجوہری پروگرام شروع نہ کرتے تو کیاپاکستان کے ابتدائی بائیس برسوں میں پاکستان پر تین خوفناک جنگیں مسلط کرنے والا بھارت اگلے چالیس برسوں میں پاکستان کوامن اور چین کے ساتھ بیٹھنے دیتا؟ ‘‘افسوس آج بوڑھے جیالے بس یہ یادیں ہی تازہ کرسکتے ہیں۔ قارئین محترم ! اپنے گزشتہ دور حکومت میں گیلانی اور راجا کی کارکردگی سے مایوس ہوکر اپنا سیاسی قبلہ تبدیل کرنے والے جیالے دعویٰ کرتے ہیں کہ’’ اگر ذوالفقار علی بھٹو کوناکردہ جرم میں پھانسی نہ دی جاتی تو افغانستان میں روس کیخلاف لڑی جانے والی وہ جنگ ادھوری نہ رہتی،جس کے نامکمل رہ جانے کے باعث اِس خطے کی رگ رگ میں عدم استحکام کازہر گھُل چکا ہے! اگر بھٹو کو تختہ دار پر نہ چڑھایا جاتا تو دہشت گردی کا عفریت یوں منہ کھولے پورے جنوبی ایشیاء کو نہ نِگل رہا ہوتا، انتہاپسندی کا سانپ کب کااپنی موت آپ مرچکا ہوتا،فرقہ واریت یوں مذہبی رواداری کو چاٹ نہ رہی ہوتی،فروعی معاملات مسائل کی شکل اختیار نہ کرتے اور لسانی تعصبات کو یوں ہوا ملتی نہ روزانہ درجنوں افرادٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بن رہے ہوتے، پاکستان کو نہ صرف اس علاقے،خطے اور عالم اسلام بلکہ عالمی برادری میںبھی اس کا جائز مقام برسوں پہلے مل چکا ہوتااورآج دنیا بھر کے ہوئی اڈوں پر گرین پاسپورٹ کو شک کی نظر سے دیکھنے کی کسی کو جرأت نہ ہوتی۔‘‘ جیالوں کے یہ دعوے درست ہیں یا غلط؟ اس کی جانچ کیلئے بلاول میدان میں آچکا ہے۔ اہل سیاست کو بلاول کو میدان سیاست میں اس لیے بھی خوش آمدید کہنا چاہیے کہ بھٹو کی نسبت شاید اُسے بارش میں ٹپکتی اُسی چھت میں لے جائے، جہاں آج بھی اس کے نانا کی تصویر ٹنگی ہے اور بھٹو کی یادیں بسی ہیں۔ شاید اِسی طرح لب مرگ بوڑھے جیالے آخری سانسیں آرام سے پوری کرسکیں۔کیا بلاول یہ چیلنج پورا کراسکیں گے؟
بھٹو، بی بی اور بلاول
Oct 20, 2014