راقم نے ٹی وی چینلز اور اخبارات میں سانحہ منیٰ کے بارے میں بیانات دیکھے۔ راقم کا بیٹا اور ہماری سٹریٹ کے دو تین دیگر جوڑے بھی الحمدُ اللہ اس برس حج کی سعادت کیلئے گئے ہوئے تھے۔اس سانحہ کے دوران عزیز و اقارب کے ٹیلیفون میرے بچوں کی منیٰ میں خیریت دریافت کرنے کے بارے میں آنے شروع ہو گئے۔ ہمارا متواتر رابطہ پہلے سے ہی تھا اور ہر گھنٹہ آدھ گھنٹہ میں بچے ضروراپنی امی ابو سے متواتر بات کرتے رہتے تھے۔جب راقم کی بات ہوئی تو بیٹے نے بتایا کہ غلط خبریں دی جا رہی ہیں یہ سانحہ شیطانوں کو کنکریاں مارنے اور شیطانوں والی جگہ نہیں ہوا بلکہ شیطانوں کو کنکریاں مارنے والی جگہ سے دو تین کلو میٹر دور فاصلہ پر ہوا ہے۔ اصل میں ایک گروپ سڑک پر بیٹھا تھا ان میں سے کچھ لوگ بغیر سوچے سمجھے سڑک پر ہی جائے نماز بچھا کر نماز ادا کر رہے تھے۔پیچھے سے گروہ در گروہ شیطانوں کو کنکریاں مارنے کیلئے حاجی صاحبان جلدی جلدی آرہے تھے وہ گپ شپ لگاتے بغیر توجہ کئے شیطانوں کی جگہ کی طرف تیزی سے آگے بڑھ رہے تھے کہ ان میں سے چند لوگ سڑک پر بیٹھے لوگوں اور سڑک پر نماز ادا کرنے والوں پر گر پڑے۔ چونکہ پیچھے سے حاجی صاحبان اپنی لگن میں مگن گروپوں کی صورت آرہے تھے لہٰذا وہ آتے گئے اورپہلے والوں کے اوپر گرتے گئے۔ سعودی حکومت کے کارندوں کو تو خیال تک نہ تھا کہ چلتے چلتے حاجی صاحبان شاہراہ عام پر ہی نمازیں ادا کرنا شروع ہو جائینگے ۔ ہر کوئی جلدی میں تھا اس لےے دوسروں کو بچانے کی بجائے وہ خود بھی نہ بچ سکا۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔
ایک اور خطرناک افواہ کہ ”شاہ سلمان کا بیٹا پورے پروٹوکول کے ساتھ شیطانوں کو کنکریاں مارنے جا رہا تھا بدیں وجہ رکاوٹ پیدا ہوئی اور سانحہ درپیش آیا۔ یہ بالکل غلط اور گمراہ کن پروپیگنڈہ تھاجس نے لوگوں کو تو کیا کئی ملکوں کے حکمرانوں کوہلا کر رکھ دیا۔ دراصل سعودی حکومت کے دشمنوں نے افواہ کوبڑھا چرھاکر پیش کیااور اس سانحہ سے سیاسی فوائد حاصل کرنے کی کوشش کی تاکہ مسلم ممالک سعودی حکومت کی ناقص کارکردگی پر تشویش کا اظہار کریں۔ افواہ پھیلانے والے احمقوں کو اچھی طرح معلوم بھی تھا کہ سعودی حکومت نے وی آئی پی موومنٹ کیلئے حج کے مقامات منیٰ، مزدلفہ اور عرفات کے تمام علاقوں میں الگ انتظامات کےے ہوتے ہیں۔وی آئی پی موومنٹ کا عوام الناس کے راستوں ، شیطانوں کو کنکریاں مارنے اور دیگر معاملات میں قطعاً کوئی دخل نہیں ہوتا۔
یہاں فسٹ ایڈ کی کمی ضروری پائی گئی بلکہ تمام مسلم ممالک نے جو اپنے اپنے ممالک سے ڈاکٹرز بھجوائے ہوتے ہیں ان کا وہاں فوری طورپر نہ پہنچنا بھی سوالیہ نشان ہے۔ اگر دو تین ہزار ڈاکٹرز اور میڈیکل کا دیگر عملہ بھی مذکورہ تعداد کے حساب سے بروقت پہنچ جاتا تو ہزاروں لوگوں کو موت کے منہ سے واپس لایا جا سکتا تھا لیکن بد انتظامی کی کچھ ایسی صورت حال بنی کہ اچانک اور غیر متوقع اتنے بڑے حادثہ نے انتظامیہ کو کچھ لمحات کیلئے حواس باختہ کر دیا۔چونکہ پہلے کرین کا حادثہ حرم پاک میںہو چکا تھا۔ ایسے حالات میں منیٰ کا بہت بڑا سانحہ فطری طور پر مسلم ممالک سے آئے ہوئے خدام ِ حجاج اور سعودی حکومت کی جانب سے متعین کردہ خدام ِ حجاج کیلئے بہت بڑی الجھن پید ا ہو گئی چنانچہ جس قدر جلدی جلدی سے متاثرین کو میڈیکل سٹاف کی توجہ کی ضرورت تھی وہ اُن شہیدوں کو فراہم نہ کی جا سکی۔
اللہ پاک نے اپنی مخلوقات پر کرم فرمایا ہے اور لوگوں کے پاس حج اور عمرہ ادا کرنے کیلئے رقوم ہیں لیکن رب العالمین اپنے بندوں کو عقل و شعور بھی عطا فرما دیں تو اُنکے خزانوں میں کوئی کمی واقع نہ ہو گی۔حج کا فریضہ ادا کرنے کیلئے برصغیر کے ممالک سے عام طور پر عمر رسیدہ مرد اور عورتیں جاتے ہیں۔ اپنے ملک سے جہاز کے سفر، جدہ میں سامان کی چیکنگ اور پاسپورٹ پر انٹری کی مہُر ، جدہ سے مکہ پاک کا سفر اور فوراً بعد عمرہ ادا کرنا یہ سب بہت ہی تھکا دینے والے امور ہیں۔ اس پر بھی طرہ یہ کہ عام طور پر رہائش گاہیں ذرا فاصلہ پر ہوتی ہیں اور شہر مکہ پاک پہاڑی علاقہ میں ہے اس میں کہیں تھوڑی چڑھائی اور کہیں نیچے کی جانب چلنا بوڑھوں کیلئے تو درکنار جوانوں کیلئے بھی تھکاوٹ کا سبب ہوتا ہے۔پھر تقریباً تیس لاکھ حاجیوں کا پانچ روز کیلئے مکہ پاک میں لازمی قیام اور سعودی حکومت کا ان کیلئے پانی، خوراک، رہائش اور سفری سہولیات کے انتظامات کوئی چھوٹی بات نہیں۔دنیا کا سب سے بڑا یہ اجتماع اور اس کیلئے مناسب انتظامات سعودی حکومت کی انتظامیہ کے ہر سال کے تجربہ کی بنا پر ہی ہوپاتے ہیں اس لےے اس سانحہ پر سیاست چمکانا مناسب نہیں۔ا یک اور اہم فیکٹر یہ بھی سامنے آیا کہ سعودی حکومت ہر سال حج کے موقع کیلئے فورس سپیشل طور پر بھرتی کرتی ہے اور حج سیزن گرزنے کے بعد اُن لوگوں کو فارغ کر دیا جاتا ہے۔ ایک تجویز یہ ہے کہ مسلم ممالک خدام ِ حجاج تو پہلے سے بھجواہی رہے ہیں اگر مسلم ممالک اپنے اپنے حجاج ِ کرام کو سنبھالنے کیلئے اپنے ملکوں سے حج سیزن کیلئے فورسز کے دستے بھی بھجوا دیا کریں جو سعودی فورسزکی زیر نگرانی ڈیوٹی سرانجام دیں تو کیا ہی بہتر ہو، کیونکہ حجاج کرام کو سعودی فورسز کے ساتھ بات چیت کرنے میں سخت دشواری اور پریشانی کا سامنا ہوتا ہے جب حجاج کرام کے اپنے اپنے ملک کی فورسز کے دستے اُنکو کنٹرول کر رہے ہونگے تو کمیونیکیشن اور ابلاغ کا کوئی مسئلہ درپیش نہیں آئےگا۔ دوسری جانب سعودی حکومت کے مذکورہ سپیشل عملہ برائے حج سیزن کے اخراجات بھی ختم ہو جائینگے۔ہر ملک اپنی فورسز کیلئے دستے تیار کر کے اس کام کیلئے بھجوائے جو عربی زبان بھی اچھی طرح سے بول اور سمجھ سکتے ہوں علاوہ ازیں پہلے ایک مرتبہ مقامات کو اچھی طرح دیکھ لیں تاکہ ڈیوٹی کے دنوں میں حجاج کرام کی خدمت کرنے اور رہنمائی کرنے میں اُن کو کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہ ہو۔ ایسے میں سعودی حکومت کے دشمنوں کو حکومت کے ا نتظامات کے حوالے سے انگلی اٹھانے کا موقع نہیں ملے گا نہ ہی کسی چھوٹے بڑے واقعہ پر سیاست چمکانے کی اُن کو جرا¿ت ہو گی۔
سانحہ منیٰ اور سیاسی پروپیگنڈہ
Oct 20, 2015