ملک میں دہشت گردی کا سلسلہ تیز تو نہیں ہوا مگر پھر سے سر اٹھا رہا ہے۔ کوئٹہ میںنئے کورکمانڈر جا رہے ہیں ، اس لئے انہیں پیغام دیا گیا ہے کہ سدرن کور کی کمانڈ اتنی بھی آسان نہیں ہو گی۔ بلو چستان بھارتی را کا اڈہ ہے، افغان سرحدی علاقے را کے دہشت گردوں کی پناہ گاہیںاور وہ ایک کھلی سرحد سے جب چاہے اندر آن گھستے ہیں، کل بھوشن کے واقعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایران کا بارڈر بھی ان کے لئے سافٹ ہے، میرے ریمارکس پر کسی کو چیں بجبیں نہیں ہونا چاہئے۔ کل بھوشن کے دہشت گردی نیٹ ورک کی وجہ سے پاک ایران تعلقات بری طرح متاثر ہو چکے ہیں،اس کی گرفتاری بھی اس وقت عمل میں آئی جب ایرانی صدر پاکستان کے دورے پر تشریف لائے تھے، چنانچہ کل بھوشن ان کے لے لئے کلمونہا ثابت ہوا۔
فاٹا ایریا بھی ہم کئی بار صاف کرنے کااعلان کر چکے مگر یہاں ڈرون حملے بھی شروع ہو گئے ہیں اور امریکی معلومات پر ہم غیر ملکی مغویوں کو بھی بر آمد کر رہے ہیں دہشت گردوں کے بموں سے ہمارے کڑیل جوان افسر شہید ہو رہے ہیں اور ہماری فوجی گاڑیاں بھی بموں سے ٹکرا رہی ہیں، گزشتہ ایک روز میں بلوچستان اور فاٹا میں تیرہ افراد کی شہادت عمل میں آئی،کوئٹہ میں شہید ہونے والے بے چارے پولیس والے تھے، اس لئے کسی اچکزئی نے ان کی شہادت پر یہ سوال نہیں پوچھا کہ ہمارا سیکورٹی چیف کیا کررہا ہے، جب اسی شہر میں وکیل شہید ہوئے تھے تو ایک ہا ہا کار مچ گئی تھی اور بالآخر انٹیلی جنس چیف کی رخصتی عمل میں آ گئی۔ اس پر عدالتی کمیشن بھی بنا، مگرپولیس والے شہداءکا خوں خاک نشیناں تھا ، رزق خاک ہوا، ان کے گھر پنجاب کے چیف منسٹر بھی شاید ہی جائیں۔
دہشت گردی کسی کے بھی خلاف ہو،، یہ سخت قابل مذمت ہے ۔
کوئی ایک ہفتہ قبل ہی آرمی چیف نے کراچی کے ایک اقتصادی سیمینار میں فرمایا تھا کہ سیکورٹی خطرات پر قابو پایا جا چکا ہے مگر معاشی صورت حال دگر گوں ہے۔ مگر آثار بتاتے ہیں کہ ہم سیکورٹی کی طرف سے مطمئن نہیں ہو سکتے ، نہ غافل رہ سکتے ہیں۔ امریکہ نے شور مچا رکھا ہے کہ ہم نے دہشت گرد پال رکھے ہیں، یہ تو ایک ناقابل برداشت الزام ہے جسے پوری قوم مسترد کر چکی ہے مگر امریکہ کے اس مطالبے پر قوم تقسیم ہے کہ پاکستان ڈو مور کرے۔ آرمی چیف نے جواب میں کہا تھا کہ نو مور ، اب ڈو مور کی ذمے داری دوسروں کی ہے ۔پاکستان بہت کچھ کر چکا اور ان کی بات درست تھی مگر حکومتی وزراءنے کہا کہ ہمیں ڈومور کرنا پڑے گا اورا سکے لئے تیار بھی ہیں ، حتیٰ کہ امریکی افواج کے ساتھ مل کر ایکشن کر سکتے ہیں، اس امکان کو فوج نے مسترد کر دیا مگر اسی روز امریکی مدد سے ایک مغوی خاندان کو برآمد بھی کیا۔بد قسمتی سے قوم دہشت گردی کے مسئلے پر کنفیوژن کا شکار ہے، جبکہ آرمی پبلک سکول کے بچوں کی شہادت پر قوم یک جان ہو گئی تھی اور ایک نیشنل ایکشن پلان پر سبھی پارٹیوںنے دستخط بھی کر دیئے تھے، یہ سوال اپنی جگہ پر ہے کہ اس پلان پر کس صوبے نے کس حد تک عمل کیا اور کس حد تک اسے پس پشت ڈالے رکھا۔ اس وقت قوم تقسیم ہے اور اس کی وجہ نواز شریف کے خلاف نااہلی کا فیصلہ ہے۔ کھلے عام کہا جارہا ہے کہ جج اور جرنیل مل کر فیصلے کرتے ہیں، یہ بات ٹی وی پر سی پی این ای کے صدر ضیا شاہد اور سابق صدر مجیب شامی کئی بار دہرا چکے ہیں اور آئی ایس پی آر سے اس کی وضاحت بھی چاہتے ہیں۔ سوشل میڈیا تو شتر بے مہار ہے اور کچھ پتہ نہیں چلتا کون کس کی زبان بول رہا ہے۔ آرمی چیف نے کہا تھا کہ ان کے علم میں ہے کہ کون کس بیرونی اشارے پر فوج کو بدنام کر رہا ہے۔
فوج ایک چو مکھی جنگ بھی لڑ رہی ہے۔ دہشت گردوں کا کوئی چہرہ نہیں۔ ان کی پشت پر ہر بیرونی طاقت ہے اور یہ بات بھی طے شدہ ہے کہ انہیں اندرونی طور پر بھی سہولت کار میسر ہیں جس کی وجہ سے ان کا مکمل خاتمہ ہونے میںمشکلات پیش آ رہی ہیں۔ اصل میں ہم ایک ابہام کا بھی شکار ہیں۔ ہم یہ فیصلہ نہیں کر پا رہے کہ ہمارا مسئلہ نمبر ایک کیا ہے۔ ہمیں اپنے مسائل کی ترجیحی فہرست بنانے میںناکامی کا سامنا ہے ، کبھی ہم یکا یک ڈنڈا اٹھا کر احتساب شروع کر دیتے ہیں اور ایک معمولی بہانے پر وزیراعظم کو فارغ کر دیتے ہیں ، پھر ساتھ ہی ہم ایک خاندان کے در پے ہیں اور نیب کو ان کے پیچھے لگا دیا گیا ہے۔ اسی طرح کبھی ہم سی پیک کو اپنی اولیں ترجیح سمجھنے لگ جاتے ہیں اور کسی وقت ہم بجلی کے پیداواری منصوبوں کو جنوں کی طرح مکمل کرنے میں جت جاتے ہیں۔ انگریزی محاورہ ہے کہ جیک آف آل ، ماسٹرآف نن۔
ہمیں سمجھ نہیں آتی کہ ہمیں جمہوریت چاہئے، مارشل لا چاہیے۔ قومی حکومت چاہیے یا ٹیکنو کریٹ حکومت چاہیے۔ جمہوریت سے بیزاری صرف پانچ سات سال کے بعد ہی لاحق ہو جاتی ہے اور اگر مارشل لا لگ جائے تو ہم لڈو بانٹتے ہیں، حلوے کی دیگیں چڑھاتے ہیں اور اور فوجی آمر کو گیارہ برس تک برداشت کرتے ہیں ۔ یا اسے دو سال بھی ملیں تو اس کے ہاتھوں ملک بھی تڑوا کر خوش باش دکھائی دیتے ہیں۔ ان دنوں لگتایہ ہے کہ معاملات کی مہار ایک بار پھر فوج کے ہاتھ میں ہے۔ اصولی طور پر ایسا ہونا تو نہیں چاہئے، بری بھلی جیسی بھی منتخب حکومت ہے، اسے مکمل بااختیار اور ہمہ مقتدر ہونا چاہئے۔ ان کے دائرہ کار میں کسی طرف سے غیر ضروری دخل اندازی نہیں ہونی چاہئے۔ فوج اپنے دائرے میں یک سو ہو گی تو یہ جو دہشت گردی کی اکا دکا وارداتیں بھی ہو جاتی ہیں ، ان کی بھی پیش بندی ہوسکتی ہے اور فوج بہر حال چوکس ہے اور کئی وارداتوں کو قبل از وقت ناکام بنا چکی ہے۔ فوج کو افغانستان، امریکہ۔ نیٹو۔بھارت اور ایرا ن سے بیک وقت سابقہ درپیش ہے، اسرائیل بھی پوری طرح ہمارے خلاف سرگرم عمل ہے۔ان خطرات کے ہوتے ہوئے فوج کے لئے سیاسی جھمیلوں میں پھنسنے کا وقت نہیں ہے، فوج کو ملکی معاملات پر تشویش لاحق ہو سکتی ہے، وہ آئینی طور پر داخلی اور بیرونی خطرات سے نبٹنے کی پابند ہے مگر جب بیرونی خطرات اس قدر ان گنت اور سنگین ہوں تو اسے داخلی طور پر قومی اتفاق رائے اور مکمل یک جہتی کی فضا پیدا کرنی چاہئے تاکہ بڑے خطرات کو تہس نہس کیا جا سکے۔ اندرونی خرابیاں ہزار ہوں گی ، یار زندہ صحبت باقی کی مثال پر عمل پیرا ہو کر ان مسائل کا حل بھی اس وقت ہی نکالا جا سکتا ہے جب دہشت گردی کے فتنے کو مکمل طور پر کچل دیا جائے۔ہمیں اپنے ماضی سے سبق حاصل کرنا چاہئے۔ اکہتر میں بھی ہم نے یک بارگی کئی محاذ کھول لئے تھے، ایک طرف سیاست دانوں پر بغاوت کے مقدمے۔ دوسری طرف انتخابی مینڈیٹ کے مطابق انتقال اقتدار سے انکاراور پس و پیش۔ تیسری طرف بھارتی تربیت یافتہ مکتی باہنی کے خلاف فوجی آپریشن۔اور مشرقی صوبے کی بغاوت کا سامنا۔
ایک وقت میں ایک کام تو ہو سکتا ہے، ہر طرح کی سر دردی مول نہیں لی جا سکتی، یہ ہے تاریخ کا سبق جسے فراموش نہیں کرنا چاہئے۔
٭٭٭٭٭