گزشتہ روز اسلام آباد میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو آبی مسائل اور اس کے حل کیلئے دی جانے والی بریفنگ میں سینئر آبی ماہرین نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے مختلف تجاویز دیں۔ ان ماہرین میں چیئرمین فلڈ کمیشن‘ چیئرمین ارسا‘ سندھ طاس کمشنر‘ ایڈیشنل سیکرٹری واٹر اینڈ پاور اور منسٹر فار وارٹر ریسورسز شامل تھے۔ ایڈیشنل سیکرٹری مہر علی شاہ نے واٹر ریسورسز پر بریفنگ دیتے ہوئے قا بل ا ستعما ل پانی کے اضافہ کے لئے نئے سٹوریج بنانے پر زور دیا۔ اجلاس میں بھاشا ڈیم اور مہمند ڈیم کی فوری تعمیر پر زور دیا گیا۔ اس مقصد کیلئے وزیراعظم نے مشترکہ مفادات کونسل کے آئندہ اجلاس میں بھاشا ڈیم کے لئے فنڈز مختص کرنے کو ایجنڈے میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا۔ تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں کے حوالے سے اس امر پر بھی غور کیا گیا کہ ہائیڈل بجلی کے نئے منصوبوں میں بجلی کی پیداواری لاگت 9 روپے سے زائد پڑتی ہے جبکہ تیل کی موجودہ قیمتوں کے حوالے سے اس سے حاصل ہونے والی بجلی کی قیمت ہائیڈل پاور کے مقابلہ میں سستی پڑتی ہے۔
پاکستان میں پانی و بجلی کے بحران پر نظر ڈالی جائے تو یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ 1990 میں ہائیڈل بجلی اور تھرمل بجلی گھروں کی پیداوار کا تناسب بالترتیب 70 اور 30 فیصد تھا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور میں IPP'sکے بجلی گھر بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس وقت کے چیئرمین واپڈا جناب جنرل صفدر بٹ نے ان منصوبوں کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ تیل کے بجلی گھر پہلے واپڈا کو تباہ کرینگے اور پھر پاکستان کی معیشت کو کھوکھلا کر دینگے۔ اس جرم کی پاداش میں انہیں ملازمت سے فارغ کر دیا گیا۔ چند ہی سال بعد اسکے اثرات ظاہر ہونے لگے۔ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ بھی ہوا۔ ان دو وجوہات کی بناء پر ہماری ویلیو ایڈڈ اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہونے لگا۔ بڑھتی ہوئی بجلی ڈیمانڈ اور لاکھوں دیہاتوں کو بجلی کی سہولتیں دینے کے باوجود مشرف اور پیپلز پارٹی کے گزشتہ دور حکومت میں پہلے سے پائپ لائن میں موجود غازی بروتھا ہائیڈرو پراجیکٹ کے علاوہ ایک میگا واٹ اضافی بجلی بھی پیدا نہ کی جا سکی۔ جس کا نتیجہ بدترین لوڈشیڈنگ کی صورت میں نکلا۔ ان مسائل سے نکلنے کیلئے موجودہ حکومت نے بجلی کے ساڑھے دس ہزار میگا واٹ کے منصوبے شروع کئے جو امید ہے کہ 2018ء تک مکمل ہو جائینگے جس سے لوڈشیڈنگ کے جن پر بڑی حد تک قابو پایا جا سکے گا۔ (اندازے کے مطابق ایک دو گھنٹے کی لوڈشیڈنگ رہ جائے گی)۔ وزیراعظم کی آبی وسائل سے متعلق میٹنگ میں سرفہرست یقیناً آبی مسائل تھے لیکن امید افزا فیصلے سامنے نہیں آئے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ قوم کو محض سراب کے پیچھے دوڑائے رکھنے کی پالیسی پر عمل کیا جا رہا ہے۔
اجلاس میں بھاشا ڈیم کیلئے فنڈز مہیا کرنے کیلئے مشترکہ مفادات کونسل میں ایجنڈا رکھے جانے کا ایک اچھا فیصلہ ضرور ہے لیکن یہ مسائل کا حل نہیں۔ بھاشا ڈیم کو مستقبل کا ڈیم کہا جا سکتا ہے کیونکہ اس کیلئے سالانہ ایک سو ارب روپے بھی رکھے جائیں تو یہ ڈیم 18 سالوں میں مکمل ہو گا۔ بھاشا ڈیم تک سڑک بنانے کیلئے پانچ سال لگیں گے تاکہ بھاری مشینری اور میٹریل وہاں پہنچ سکے۔ اس پر 6 ارب ڈالر سے زیادہ لاگت آئیگی۔ اگر اس پراجیکٹ کو ہر سال سو ارب روپے بھی مہیا کئے جائیں تو 18 سال بعد ڈیم مکمل ہو جانے پر 3/4 ارب ڈالر کی ٹرانسمیشن لائن بھی بچھانی پڑیگی۔ 15/20 سال بعد بننے والے اس ڈیم سے مستقبل کا انسان تو فائدہ اٹھا سکتا ہے لیکن موجودہ چیلنجز کا مقابلہ کرنے کیلئے اس ڈیم کی افادیت کہیں نظر نہیں آتی۔ آبی وسائل میں اضافے سے متعلق حکومتی تشویش بجا ہے لیکن بھاشا ڈیم کی تکمیل سے آبی وسائل میں اضافہ ایک سوالیہ نشان بھی ہے۔ پانی کے بہائو کو جانچنے والے ماہرین جانتے ہیں کہ تربیلا سے اوپر جتنا بھی پانی ہے وہ کنٹرولڈ ہے اور نہری نظام کے ذریعے قابل استعمال بنایا جا رہا ہے۔
اس پانی کا یہ بہائو گلیشیئرز کے پگھلنے کی وجہ سے ممکن ہوتا ہے جس کا اندازہ ماہرین پوری طرح رکھتے ہیں۔ سیلابی پانی کا سارا زور تربیلا ڈیم سے نیچے ہے۔ یہی پانی UNCONTROLLED ہے جو تباہیاں پھیلاتا ہوا بستیاں اجاڑتا ہوا‘ انسانوں اور جانوروں کو ہلاک کرتا ہوا سمندر میں جا گرتا ہے۔ صرف 2010ء کے سیلاب میں 1781ء افراد لقمہ اجل بنے۔ 43 ارب ڈالر کا معاشی نقصان ہوا۔ ڈیم یا کوئی بھی پراجیکٹ بنانے کے لئے وہ جگہ پلان کی جاتی ہے جس کی اہمیت سب سے زیادہ ہو۔ ہمیں کالا باغ ڈیم سے کوئی محبت نہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس ڈیم کی مخالفت کرنے والے ماہرین سے یہ پوچھا جائے کہ وہ کونسا مقام ہے جہاں سیلابی پانی کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ اگر وہ ماہرین بھی اس بات پر متفق ہوں کہ سیلابی پانی کو کنٹرول کرنے کا واحد اہم ترین مقام کالا باغ ہے تو پھر پوری قوم کو کالا باغ ڈیم پر متفق ہو جانا چاہئے تاکہ سیلابوں کی تباہ کاریوں سے بچتے ہوئے اس پانی کو قابل استعمال میں بھی لایا جا سکے۔
ایک بات میں پھر صفحہ قرطاس پر لانا چاہوں گا کہ کالا باغ ڈیم 6.1 ملین ایکڑ فٹ کا ڈیم ہے جو 1991 کے WATER APPORTIOMENT ACCORD کے مطابق 11.61 ملین ایکڑ فٹ پانی مہیا کرے گا۔ معاہدے کے مطابق اس میں سے سندھ کو 5.72‘ خیبر پختونخواہ کو 2.69‘بلوچستان کو 1.76 اور پنجاب کو صرف 1.45 ملین ایکڑ فٹ پانی ملے گا۔ یعنی پنجاب کو صرف 12 فیصد پانی ملے گا۔ عجب طرفہ تماشا ہے کہ 12 فیصد پانی لینے والے تو ڈیم کی حمایت کر رہے ہیں اور جنہیں 88 فیصد پانی ملنا ہے وہ اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔ اس وجہ کے پیچھے دراصل بھارتی لابی کا ہاتھ ہے جبکہ اب اس میں آئل مافیا بھی شامل ہو چکاہے۔ آئل مافیا نہیں چاہتا کہ اربوں ڈالر سالانہ کی آمدنی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔اس سال برسات میں نیسپاک سے آئے جوائنٹ سیکرٹری (واٹر اینڈ پاور منسٹری) نے فلڈ کنٹرول کیلئے نااہل فیصلے کر کے پاکستان کو نا قابل تلافی نقصان پہنچایا جس کی وجہ سے منگلا جھیل مکمل نہ بھرا جا سکا بلکہ تربیلا ڈیم کی فلنگ 30 ستمبر تک بھی برقرار نہ رکھ سکے جبکہ سمندر میں بڑی مقدار میں پانی گر کر ضائع ہو رہا تھا۔
کالا باغ ڈیم سے واپڈا رپورٹ کے مطابق 15 ارب یونٹ سالانہ پیدا ہونگے۔ ٹیکنیکل کمیٹی کی رپورٹ میں چاروں صوبوں کے ماہرین کے مطابق کالا باغ ڈیم بننے سے تربیلا ڈیم کی صلاحیت میں بھی 30 فیصد اضافہ ہو گا۔ اس طرح 6 ارب یونٹ مزید ملیں گے۔ اسی طرح پانی کے وسائل کو استعمال کر کے چاروں صوبوں کی 53 لاکھ ایکڑ بنجر زمین کو پانی دستیاب ہو سکے گا۔ سالانہ معیشت میں 16/17 ارب ڈالر کا اضافہ ہو گا اور یہی ہمارا دشمن نہیں چاہتا۔ اس لئے راقم یہ کہنے کی اجازت چاہتا ہے کہ پاکستان کے آبی وسائل اور انرجی کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے بھاشا ڈیم ہماری مرض کا علاج نہیں ہے۔ میرا ایمان ہے کہ کالا باغ ڈیم کی فوری تعمیر ہمارے معاشی اور انرجی بحران کا واحد عملی حل ہے۔
پاکستان کے آبی مسائل اور توانائی کے بحران کا مستقل حل
Oct 20, 2017