اسلام آباد (نامہ نگار‘نوائے وقت رپورٹ‘نیوز ایجنسیاں) احتساب عدالت میں شریف خاندان کے خلاف نیب ریفرنسز میں سابق وزیر اعظم نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر پر فرد جرم عائد کردی گئی تاہم ملزمان نے صحت جرم سے انکار کردیا، نواز شریف پر دو ریفرنسز جبکہ مریم نواز اور کیپٹن صفدر پر لندن فلیٹس کے حوالے سے صرف ایک ریفرنس میں فرد جرم عائدکی گئی ہے، ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر پر جبکہ العزیزیہ سٹیل ملز ریفرنس میں صرف نواز شریف پر فرد جرم عائد کی گئی تاہم تیسرے فلیگ شپ ریفرنس میں نواز شریف پر فرد جرم عائد کرنے کی کارروائی عدالتی وقت ختم ہونے پر آج (جمعہ) تک موخر کردی گئی۔ جمعرات کو احتساب عدالت نے ٹرائل روکنے اور ریفرنسز یکجا کرنے کے لئے نواز شریف کی جانب سے دائر دو درخواستوں سمیت مریم اور کیپٹن صفدر کی طرف سے فرد جرم عائد نہ کرنے کی ایک درخواست بھی مسترد کر دی۔ ایون فیلڈ پراپرٹیز ریفرنس میں استغاثہ کی گواہ سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمشن کی افسر سدرہ منصورکو آئندہ سماعت 26اکتوبرکو طلب کرلیا گیا۔ احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے شریف خاندان کے خلاف لندن فلیٹس، فلیگ شپ انوسٹمنٹ اور العزیزیہ سٹیل ملز ریفرنسز کی سماعت کی۔ مریم نواز اور کیپٹن صفدر پیش ہوئے تاہم سابق وزیر اعظم نواز شریف ایک بار پھر غیر حاضررہے، عدالت میں پیشی کیلئے 9 وکلا اور 6 رہنمائوں کو داخلے کی اجازت دی گئی۔ عدالت میں سماعت شروع ہوئی تو شریف خاندان کے وکیل امجد پرویز ملک ایڈووکیٹ نے ملزمان پر فرد جرم نہ عائد کرنے کی درخواست کرتے ہوئے موقف اپنایاکہ ابھی تک انہیں ریفرنس کا حصہ جے آئی ٹی رپورٹ کے والیم 10کی کاپی فراہم نہیں کی گئی اور نہ ہی گواہوں کے بیانات کی کاپیاں دی گئی ہیں اور نیب نے عبوری ریفرنس دائر کیا ہے اس لئے مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر پر فرد جرم عائد کرنے کی کارروائی موخر کی جائے۔ امجد پرویز نے مزید کہاکہ تین افراد کو شامل تفتیش کر کے بیانات ریکارڈ کیے گئے اور جب تک گواہوں کے بیانات کی کاپی اور والیوم 10فراہم نہیں کیا جاتا، فرد جرم عائد نہیں ہو سکتی۔ نیب پراسیکیوٹر نے کہاکہ سپریم کورٹ نے والیم 10کی کاپیاں کسی کو نہیں دیں اس والیم میں بیرون ملک تحقیقات کی تفصیلات ہیں تحقیقات مکمل ہونگی تو کاپیاں فراہم کردی جائیں گی۔ پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ جاوید کیانی نے جعلی غیر ملکی اکائونٹس کھولے اور رقوم منتقل کیں انکے خلاف شواہد کا جائزہ لیاجارہا ہے پراسیکیوٹرکا کہنا تھا کہ سعید احمد نے غیر ملکی اکائونٹس منی لانڈرنگ کیلئے استعمال کئے اس ضمن میں تحقیقات جاری ہیں اور سعید احمد کا کردار واضح نہیں۔ دوران سماعت سابق وزیراعظم نوازشریف کی وکیل نے احتساب عدالت کا ٹرائل روکنے کے لئے متفرق درخواست دائر کردی جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ جب تک سپریم کورٹ سے تینوں ریفرنسز یکجا کرنے کی درخواست کا فیصلہ نہ آجائے اس وقت تک کارروائی روکی جائے۔ سابق وزیراعظم کی جانب سے درخواست وکیل خواجہ حارث کی جونیئر وکیل مومنہ طارق نے دائر کی تاہم عدالت نے درخواست مسترد کر دی۔ شریف خاندان کیخلاف نیب ریفرنسز پر سابق وزیراعظم نے درخواست وکیل سعد ہاشمی کے ذریعے دائر کی جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ نیب نے مختلف اثاثوں پراحتساب عدالت میں تین ریفرنسز دائر کئے جبکہ نیب سیکشن نو کی ذیلی شق پانچ کے تحت اثاثے جتنے بھی ہوں ریفرنس ایک فائل ہوتا ہے۔ نیب کو حکم دیا جائے کہ تین ریفرنسز کو ایک ریفرنس میں بدلا جائے اور جب تک اس درخواست پر فیصلہ نہیں ہو جاتا احتساب عدالت کی کارروائی روکی جائے۔ عائشہ حامد نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ نیب پراسیکیوٹر نیب کا بطورگواہ بشارت سمیت تین گواہان کا بیان ریکارڈ کرچکی ہے، اورگواہان کے بیان کی کاپی ہمیں فراہم نہیں کی جا رہی، ان کا کہنا تھا کہ ناجائز اثاثہ جات کے حوالے سے شواہد غیر متعلقہ ہیں، نواز شریف اور ان کے بچوں پر الزامات لگائے گئے لیکن ان کی وضاحت نہیں کی گئی صرف ایک دفعہ لگائی گئی ہے تو ریفرنس بھِی ایک ہونا چاہئے، ایک دفعہ پر تین ریفرنسز بنانا غلط بات ہے۔ عائشہ حامد نے کہاکہ جائیداد تعداد میں کتنی ہی کیوں نہ ہو ریفرنس ایک ہی دائر ہوتا ہے۔ فلیگ شپ ریفرنس میں الزام ہے کہ نوازشریف نے بے نامی دار کے نام پر کرپشن کی، تمام ریفرنسز میں الزامات ایک جیسے ہیں، دونوں ریفرنسز میں فرق صرف نام کا ہے، عائشہ حامدکا کہنا تھا کہ تمام ریفرنسز کا انحصار ایک جیسی دستاویزات پر ہے۔ وجہ جیوگرافی ہے تو پھر فلیگ شپ اور لندن فلیٹس کا الگ ریفرنس ہونا چاہئے۔ عائشہ حامد نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں ایک ریفرنس دائر کرنے کا لکھا گیا ہے۔ نیب پراسیکیوٹر نے نوازشریف کی حکم امتناع کی درخواست خارج کرنے کی استدعا کردی اور کہا کہ تینوں ملزمان پر فرد جرم عائد کی جائے۔ نیب پراسیکیوٹر نے موقف اپنایا کہ وہ عدالت کا قیمتی وقت ضائع نہیں کرنا چاہتے کیونکہ سپریم کورٹ نے واضح ہدایات دیں کہ ریفرنسز پر فیصلہ کیا جائے۔ احتساب عدالت نے نواز شریف کی طرف سے ٹرائل روکنے جبکہ مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدرکی طرف سے فرد جرم عائد نہ کرنے کی درخواستیں مسترد کیں تو اسی دوران شریف خاندان کی جانب سے بالکل اسی نوعیت کی تیسری درخواست دائر کردی گئی جس نوعیت کی درخواست سپریم کورٹ میں دائر کی گئی تھی تاہم عدالت عظمی نے ابھی تک اس درخواست پر سماعت نہیں کی جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ نیب نے مختلف اثاثوں پر احتساب عدالت میں تین ریفرنسز دائر کئے جبکہ نیب سیکشن نو کی ذیلی شق پانچ کے تحت اثاثے جتنے بھی ہوں ریفرنس ایک فائل ہوتا ہے۔ نواز شریف کی جانب سے تین ریفرنسز کو یکجا کرنے کی درخواست بھی مسترد کردی۔ عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس میں میاں نواز شریف کے نمائندے ظافر خان کو کھڑا کرکے نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر پر فرد جرم عائد کی۔ فاضل جج نے تینوں ملزمان پر الزامات پڑھ کر سنائے۔ فرد جرم میں کہا گیا تھا کہ ملزمان لندن فلیٹس کی خریداری کے ذرائع بتانے میں ناکام رہے۔ ظافر خان نے نواز شریف کی جانب سے صحت جرم سے انکار کیا اور اس دوران نمائندے کے ذریعے نواز شریف کا بیان دیا گیا جس میں کہا گیا تھا کہ شفاف ٹرائل میرا حق ہے جبکہ چھ ماہ میں تین ریفرنس نمٹانے کی ہدایت کی گئی، آئین میرے بنیادی حقوق کی حفاظت کرتا ہے جبکہ مانیٹرنگ جج خاص طور پر اس کیس میں تعینات کیا گیا جس کی نظیر نہیں ملتی، آئین میرے بنیادی حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔ فرد جرم میں کہا گیا کہ لندن میں غیرقانونی اثاثے بنائے گئے، ٹرسٹ ڈیڈ جعلی ہے جبکہ عدالت میں نقلی دستاویزات جمع کرائی گئیں۔ جائیداد کے ذرائع بھی پتہ نہیں، تحائف اور رقوم کے تبادلے کا ریکارڈ نہیں ملا۔ اس دوران جب فرد جرم میں کہا گیا کہ مریم نوازکی جانب سے کیلیبری فونٹ کا استعمال کیا گیا، مریم ٹرسٹ ڈیڈ جعلی نکلی اور کیپٹن صفدر شریک ملزم رہے ان پر بھی فرد جرم عائد کی جاتی ہے۔ اس دوران مریم نواز نے صحت جرم سے انکار کرتے ہوئے موقف اپنایا کہ وہ ٹرائل کا سامنا کریں گی کیونکہ دفاع ہمارا قانونی حق ہے۔ مریم نواز نے کہاکہ جے آئی ٹی رپورٹ میں غلط بیانی کی گئی جبکہ نامکمل رپورٹ پر فرد جرم عائد کی گئی تمام الزامات سے انکار کرتی ہوں، ہمیں انصاف کے قانونی حقوق سے محروم رکھا جا رہا ہے، تاریخ اسے انصاف کے مذاق کے طور پر یاد رکھے گی۔ احتساب عدالت نے عزیزیہ سٹیل ملز ریفرنس میں نواز شریف پر فردجرم عائد کرتے ہوئے کہاکہ نواز شریف نے سرکاری عہدے لینے کے ساتھ ساتھ کاروبار کیا، انہوں نے وزارت اعلیٰ اور وزارت عظمیٰ کے باوجود اپنے نام سے کاروبار کیا اور 1991ء میں نواز شریف نے کاروبار بچوں کے نام منتقل کیا اور کروڑوں روپے کے فنڈز بچوں نے والد کو تحفے میں دیئے، یہ بھاری رقوم اثاثے خریدنے میں استعمال کی گئی۔ فرد جرم عائد ہونے کے بعد نواز شریف کیخلاف عزیزیہ سٹیل ملز ریفرنس میں شہادتیں اور نیب کے گواہ کوطلب کرلیا۔ العزیزیہ سٹیل مل کیس میں آئندہ سماعت 26اکتوبر کو ہوگی جس پراستغاثہ کے گواہ جہانگیر احمد کو طلب کیاگیا ہے۔ احتساب عدالت نے آف شور کمپنیوں سے متعلق فلیگ شپ ریفرنس میں فرد جرم عائد کرنے کی کاروائی آج (جمعہ) تک موخرکردی۔ یہ کارروائی عدالتی وقت ختم ہونے کے باعث موخر کی گئی۔ عدالتی کارروائی کے بعد حسین نواز اور حسن نواز کے مقدمات باضابطہ طور پر الگ ہوگئے ہیں۔ عدالتی کارروائی کے بعد میڈیا سے گفتگو میں مریم نواز نے کہا ایک فیملی کے ٹرائل اور انصاف کا تماشہ نہ بنایا جائے، اگر کوئی ملی بھگت ہے تو سزا سنادیں۔ ہم آئین، قانون اور عدالتوں کے احترام میں یہاں آئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ بڑے بڑے ڈبوں والے ثبوت کہاں چلے گئے، یہ اپنی نوعیت کا پہلا کیس ہے جس میں فیصلہ پہلے ہوگیا اور مقدمہ بعد میں چل رہا ہے۔ مریم نواز نے کہا کہ پارٹی میں پالیسی اب بھی نوازشریف کی چل رہی ہے۔ پارٹی متحد ہے اور پارٹی کو توڑنے والے خود ٹوٹ رہے ہیں۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا خاندان میں کوئی اختلاف نہیں البتہ اختلاف رائے ضرور ہو سکتا ہے۔ قبل ازیں غیر رسمی بات چیت کرتے ہوئے مریم نواز نے کہا کہ پہلی بار ایسا ہو رہا ہے کہ ’سیسلین مافیا‘ عدالتوں میں پیش ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا نواز شریف اسی ہفتے کے آخر یا آئندہ ہفتے واپس آجائیں گے۔ والدہ کی کیموتھراپی ہو رہی ہے اور صحت میں بہتری آرہی ہے تاہم ان کی مکمل ریکوری میں 6 ماہ لگ جائیں گے۔ ایک سوال پر انہوں نے کہاکہ ہم بھاگنے والوں میں سے نہیں۔ قانون اور عدالتوں کے احترام میں بیمار والدہ کو لندن چھوڑ کر واپس آئی ہوں۔