نااہل اور اہلیہ

Oct 20, 2017

محمد سلیم

ویسے تو نااہل کا اہلیہ سے چولی دامن کا ساتھ ہے جس طرح اہلیہ چند سالوں بعد اپنے خاوند کو نالائق اور نااہل سمجھنا شروع کر دیتی ہے اسی طرح ملک کے اکثر سیاستدانوں نے اس 'اہلیہ تھیوری'کو سچ ثابت کردیا ہے کونسا شعبہ ہے جس میں سیاست دان اہل ثابت ہوئے ہیں ماسوائے ایک کے اور وہ ہے کرپشن کا محکمہ اس محکمہ کے ذریعے دولت بھی اتنی جمع کرلی گئی ہے کہ مسائل نے غریب کو ایک لاغر بوڑھے کی طرح 'اکھٹا'کرکے رکھ دیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کا واویلا سمجھ سے بالاتر ہے کہ نوازشریف کو سپریم کورٹ کی طرف سے نااہل کئے جانے کے باوجود اس کو پارٹی صدر بنانے کے لیے آئین میں ترمیم بددیانتی ہے اور نواز شریف اب سیاست یا صدارت کے اہل نہیں ہیں۔ اہلیت تو ویسے تحریک انصاف کی بھی ثابت ہوگئی ہے جو اپنے سینیٹرز کو نہیں سنبھال سکی جنہوں نے آئین میں اس ترمیم کے لئے حکومت کا ساتھ دیا اور بھی بڑے ٹیکنیکل طریقہ سے اگر سیاستدانوں کی اہلیت کا جائزہ لینا ہو تو اس کے لئے ہسپتالوں سے لیکر تعلیمی اداروں، لاری اڈوں سے لیکر بازاروں تک نظر دوڑا لی جائے تو چشم کشا حقائق سامنے آجائیں گے۔اس حالت زار پر رونا پھر کبھی روئیں گے آج تو اہل کو سیاسی اہلیہ کے سامنے اہل ثابت کرنے کی سعی ہے۔اگر کوئی بندہ کنوارہ ہے جس کا آسان الفاظ میں مطلب ہے کہ اس کہ اہلیہ نہیں ہے تو خبردار ایسے انسان کو نااہل کہنا کسی طور جائز نہیں ہے ویسے تو ہم نے گرائمر کو بھی ٹٹول کر دیکھا ہے مگراہل اور اہلیہ کا تعلق تلاش نہیں کرپائے اگر آپ کے علم میں ایسا تعلق سامنے آئے تو مطلع ضرور کریں اہلیہ کو عرف عام میں زوجہ بھی کہتے ہیں جس کی جمع ازواج ہے اور اہلیہ کی جمع تو پھر 'اہلیت' ہونی چاہیے چلیں اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ازواج کی طرح 'اہلیات'کا لفظ درست ہے تو ایسا کر لیتے ہیں مگر جو بھی ہو جائے چند افراد اپنی اپنی اہلیہ کے معیار زندگی پر پورا نہیں اتر سکتے اور انہیں ناکامی کا ہی سامنا کرنا پڑے گا حالانکہ سائنسدان سٹیفن ہاکنگ واضع طور پر کہہ چکا ہے کہ انسان کو مشینری سے خطرہ ہے جو بڑی تیزی سے اس کی جگہ لے گی لیکن سٹیفن ہاکنگ اس تھیوری میں اہلیہ کا مقابلہ نہیں کرسکتا کیونکہ اہلیہ کئی عشروں سے اس تھیوری پر کام کرنے میں مصروف ہے کہ کیسے شوہر کو مشین کی مانند بنایا جاسکتا ہے تاکہ وہ جذبات سے عاری ہوکر ہر حکم بجا لائے یعنی خاوند نہیں درباری ہو۔ ویسے تو سیاسی جماعتیں درباریوں سے بھری پڑی ہیں لیکن وہ اہلیہ کے نہیں صرف مفادات کے لیے پارٹی کے چند سرکردہ لوگوں کے درباری ہیں۔ یہ دربار ہی کی خاصیت ہے جہاں سے ان سیاستدانوں کو سیاسی لنگر بڑی آسانی سے مل جاتا ہے لگتا ہے ایک دوسرے کی اہلیت چیک کرنے کی وبا پھوٹ پڑی ہے اپنے محترمی و مکرمی زرداری نے بھی نوازشریف کی اہلیت پر سوالیہ نشان اٹھا دیا ہے اور ان کا یہ سوال جائز بھی ہے کہ یہ جو نوازشریف پوچھتے پھر رہے ہیں کہ مجھے کیوں نکالا اس پر آصف زرداری نے کہا ہے کہ اگر آپ کو نہیں علم تھا نکالے جانے کی وجوہات کا تو آپ کیوں نکلے اگر دیکھا جائے تو نوازشریف کے سوال کا تعلق ریاضی سے بھی ہے کیوں کہ ریاضی کے سوال میں بھی اگر سوال حل نہ ہو رہا ہو تو‘لا’کی طاقت کا استعمال کیا جاتا کے مگر افسوس صد افسوس نہ تو ریاضی والا ’لا’ کام آرہا ہے اور نہ ہی انگلش والا Lawکام آرہا ہے بس پنجابی کے مصرعہ کی طرح ان کی‘لا پا’ہو رہی ہے یہی اگر وہ منی ٹریل کو‘مُنی ٹریل’نہ بناتے اور اپنی دولت کے ذرائع سے عوام کو مطمئن کر دیتے تو آج حالات یکسر مختلف ہوتے۔ دوسری طرف عمران خان نوازشریف اور آصف زرداری پر محدب عدسہ کے ذریعے باریک بینی سے تحقیق کرنے کر بعد اب نتیجے کی اس چوٹی پر پہنچ چکے ہیں کہ دونوں رہنما ملک کے لئے نقصان دہ ہیں اور پاکستان کو لوٹ کر کھا گئے ان دونوں لیڈران کے ساتھ رہ کر جن جن لوگوں نے کھایا ان کے کردار پر عمران خان ذرا کم ہی روشنی ڈالتے ہیں کیونکہ بجلی کے بڑھتے ہوئے نرخوں نے ان کو چھوٹے چوروں پر روشنی ڈالنے سے روک رکھا ہے یہ چھوٹے چور ہی تو ہوں گے جو کسی بھی وقت کسی کے لئے بھی علی بابا بنا سکتے ہیں ویسے تو چالیس چور اپنی اپنی 'پنڈ' اٹھا کر علی بابا کا انتظار کررہے ہیں جو ان کی چوری کی 'پنڈ' کا تحفظ کرسکے ویسے بھی نوازشریف کی حکومتی اور دولت والی 'پنڈ' کھل کر سر بازار بکھر چکی ہے اور جس بازار میں گری ہے وہاں پر ننگے پاؤں اور بوٹ والوں کااتنا ہجوم ہے کہ وہ اپنا مال و متاع سنبھال نہیں پائیں گے اس مرتبہ تو نوازشریف کے حواریوں نے ان کی 'پنڈ' بھاری کروادی جس کا بوجھ اب ان سے سنبھالا نہیں جارہا اور یہ 'پنڈ' مختلف مسکینوں میں تقسیم ہوتی نظر آرہی ہے اور کئی 'گدھ' بھی اپنا حصہ وصول کرنے کے لئے آسمان پر منڈلا رہے ہیں۔گدھ کا گدھے کی فیملی سے دور دور تک کا تعلق نہیں ہے تو برائے مہربانی گدھ کو گدھ ہی پڑیں اور اس پرندے کو موجودہ سیاسی حالات کے تناظر میں دیکھنا سخت ممنوع ہے ممانعت بھی ایسے ہے جیسے دیوار پر لکھا ہوتا ہے کہ یہاں کوڑا کرکٹ پھینکنا منع ہے مگربہت سارے افراد کو اس دیوارکے ساتھ ہی کوڑ پھینکنے کا مزاآتا ہے کیونکہ ایسے لوگوں کے خیال میں وطن عزیز میں ہر جگہ پر غلاظت پھیلانا تو درست نہیں ہے۔ نوازشریف بھی نوشتہ دیوار پڑنے سے قاصر نظر آرہے ہیں اور اپنا سیاسی کوڑا ہر صورت ایسے گھر یا دیوار کے ساتھ پھینکنے پر بضد ہیں جو ان کے ساتھ ساتھ سیاسی ماحول کو بھی تعفن زدہ کرکے رکھ دے گا۔ ویسے تو ان دنوں اختلاف رائے پر دلیل کی بجائے گالیاں دینے کا زمانہ ہے سو تحریک انصاف کے متوالے ہوسکتا ہے ہمیں بھی گالیوں جیسے تحفے سے نوازیں اور اس کے لیے ان کے پاس سوشل میڈیا کا آسان پلیٹ فارم موجود ہے جہاں پر دلیل اور برہان کے بغیر جس کی دل کرے پگڑی اچھال کر رکھ دو۔

مزیدخبریں