قومی مفادمیں صبر سے کام لے رہا ہوں عدلیہ کو نشانہ بنا نیوالے ہوش کے ناخن لیں:چیف جسٹس

اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت+ آن لائن) چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ملک میں سپریم کورٹ کے خلاف محاذ آرائی کی صورتحال پر ریمارکس دیئے کہ یہ ملک اور اسکے ادارے ہم سب کے ہیں، انکا وقار اور ان پر اعتماد قومی فریضہ ہے، مجھے پیغام آتے ہیں کہ آپکا وقار داؤ پر لگا ہوا ہے، ایکشن کیوں نہیں لیتے، میں جذباتی نہیں ہوں اسی لئے قومی مفاد میں صبر وتحمل سے کام لے رہا ہوں، ہر وقت عدلیہ پر تنقید کرنے والے ہوش کے ناخن لیں‘ غلط اقدامات پر مثبت تنقید ٹھیک ہے مگر حدود سے تجاوز کرتے ہوئے اداروں کا تقدس پامال کرنا کسی طور درست نہیں۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے جہانگیر ترین نااہلی کیس کی سماعت کی، جہانگیر ترین کے وکیل سکندر بشیر مہمند نے بد دیانتی کی تعریف کے حوالے سے کہا ایک اخبار نے تو اسکا بہت تفصیلی تجزیہ کیا ہے، اس پر چیف جسٹس نے کہا میڈیا کی باتوں پر نہ جائیں، عدالت پر اعتماد اور اعتبار کریں، فیصلہ خلاف بھی آتا ہے تو اسکو تسلیم کرنا چاہیے، چیف جسٹس کا کہنا تھا سپریم کورٹ کے رپورٹرز جو روزانہ کی سماعت کور کرتے ہیں انکو تو قوانین کا پتا ہے لیکن کچھ ایسے بھی ہیں جو کبھی عدالت میں بھی نہیں آئے لیکن عدالتی کارروائی پر تجزیے اور تبصرے جھاڑتے ہیں، پرانے صحافیوں کو یاد ہو گا کہ شمع معمہ کے معاملے میں توہین نوٹسز جاری ہوئے لیکن ہم یہاں سب سننے اور جاننے کے باوجود کوئی ایکشن نہیں لے رہے، مجھے ذاتی طور پر پیغام آتے ہیں کہ عدلیہ کی عزت داؤ پر لگی ہوئی ہے، آپ معاملے کا نوٹس کیوں نہیں لے رہے، موجودہ حالات کے تناظر میں صبر اور تحمل سے کام لے رہا ہوں، جذباتی نہیں ہو رہا، میں سب سے یہ ہی کہتا ہوں کہ ملکی مفاد کیلئے اپنے اداروں پر اعتماد رکھیں، ہاں اتنا ضرور ہے کہ کہیں کچھ غلط ہوتا ہے تو اس پر مثبت تنقید کی جا سکتی ہے، چیف جسٹس نے واضح کیا فیصلے کو غلط کہنے کی بجائے اس کا جائزہ لینا چاہیے کہ فیصلہ آیا کیوں اور ان لوگوں کو بھی احتیاط سے کام لینا چاہیے جو عدالتی کارروائی میں ہوتے نہیں لیکن وکیل اور جج کے درمیان ہونے والے مکالمے اور آبزرویشن پر پورے کے پورے پروگرام کر دیتے ہیں، انکو علم ہونا چاہیے کہ ہمیں سب پتا ہے لیکن ملکی مفاد کی خاطر برداشت کرتے ہیں، چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ پارلیمنٹیرینز کی تذلیل کرنا مقصد نہیں وہ ہمارے لیے قابل احترام ہیں لیکن جب انکی دیانتداری پر سوال اٹھایا جاتا ہے تو ہمیں باریک بینی کے ساتھ ان معاملات کا جائزہ لینا پڑتا ہے، ہم عدالت کے اندر کوئی آبزرویشن اور ریمارکس دیتے ہیں وہ کوئی فیصلہ نہیں ہوتا بلکہ اپنے اطمینان اور قانونی پیچیدگیوں کو دور کرنے کیلئے پوچھتے ہیں، ان کو غلط طریقے سے پیش نہیں کیا جانا چاہئے، اسی لیے موجودہ حالات میں میں ٹی وی نہیں دیکھتا تا کہ مقدمہ متاثر نا ہو لیکن زیر سماعت مقدمہ اپنی نوعیت کا الگ اور منفرد کیس ہے جبکہ پانامہ کا کیس بھی اسی نوعیت کا تھا، چیف جسٹس نے کہا ہم یہاں مجلس شوریٰ کے رکن کو بددیانتی کی بنیاد پر نااہل قرار دینے کیلئے اس کی دیانت کا جائزہ لے رہے ہیں، اس مقدمے کی کوئی حدود نہیں یہ مقدمہ ٹرائل سے بڑھ کر ہے، ہم بہت محتاط ہیں کیونکہ روز نئے سوالات جنم لے رہے ہیں اسی لئے میں ایسے کمنٹس ہی نہیں دیتا کہ میڈیا کی ہیڈ لائن بنے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل باسٹھ ون ایف کے ایک ایک لفظ کا جائزہ لینا ہوگا، فریقین کے وکلاء آرٹیکل باسٹھ ون پر معاونت کریں۔ جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ جہانگیر ترین جے ڈی ڈبلیو کے شیئر ہولڈر تھے اور انہوں نے بطور ڈائریکٹر اندرونی معلومات پر کمپنی کے شیئرز خریدے ۔ اس پر سکندر بشیر نے کہا کہ آرٹیکل 62 ان کا راستہ روکتا ہے جو صادق امین نہ ہوں، ایس ای سی پی کا سیکشن 15 اے اور 15 بی آئین سے متصادم ہے اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ قانون کے سیکشن کو چیلنج کرنے پر اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کرنا پڑیگا۔ فاضل وکیل نے کہا کہ اٹارنی جنرل معاونت کیلئے پہلے ہی نوٹس جاری ہوچکا ہے، اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ قانون کے سیکشنز پر الگ سے ایک نوٹس جاری کرنا پڑیگا ۔ جہانگیر ترین کے وکیل نے کہا کہ جہانگیرترین نے ایس ای سی پی کے کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں کی، غیرآئینی قانون پر نااہلی نہیں ہوسکتی، چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگرقانون غیرآئینی نہ ہوا تو پھر آپ کا موقف کیا ہوگا۔ سکندر بشیر نے کہا میرا موقف ہوگا جہانگیرترین کے کاغذات نامزدگی کوکسی نے چیلنج نہیں کیا۔ جہانگیرترین کے خلاف کسی عدالتی فورم کافیصلہ بھی نہیں ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا درخواست گزار کی جانب سے الزام لگایا گیا ہے جہانگیرترین نے اپنے ملازمین کے ذریعے حصص خریدے جبکہ ملازمین کے پاس حصص خریدنے کے لیے رقم نہیں تھی اور ملازمین جہانگیرترین کے بے نامی دار تھے،عدالت نے ایمانداری کا جائزہ لینا ہے۔ والد گھر پر بچوں کو کہہ رہے ہیں باہر والے کو بتا دو پاپا گھر پر نہیں ہے، یہ بھی ایک قسم کی بے ایمانی ہے،کیا گھر پر نہ ہونا کہہ دینا صادق اور امین کے زمرے میں آتا ہے۔ دیکھنا ہوگا ارکان پارلیمان کی نااہلی کے لیے ایمانداری کی نوعیت کیا ہوگی۔ بے ایمانی کی ایک صورت کرپشن بھی ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ ہم آرٹیکل 62کے تحت ایمانداری کے معیار اورسکوپ کوسمجھناچاہتے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 184 تین کے تحت بھی ٹرائل ہی ہورہا ہے،ہم کوئی ہارڈ اینڈ فاسٹ رولز نہیں بنا سکتے، عدالت میں بیٹھے چند دوستوں کے پاس میرا موبائل نمبر ہے، وہ دوست بھی مجھے مقدمات سے متعلق چیزیں وٹس ایپ کردیتے ہیں، وہ ایسی چیزیں ہوتی ہیں جو ان کے موقف کو سپورٹ کررہی ہوتی ہیں، عدالت نے ایس ای سی پی کے قانون کے معاملے پر اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت پیر تک ملتوی کردی۔

ای پیپر دی نیشن