آج سے بیس سال قبل استاد کسی دکاندار یعنی قصائی‘ حلوائی‘ نائی اور دودھ دہی کی دکان پر کوئی شے لینے گیا تو وہ دکاندار اپنی جگہ چھوڑ کر چند قدم آگے بڑھ کر اسکا پرتپاک استقبال کرتا جو لوگ یعنی گاہک کی صورت میں پہلے سے کھڑے ہوتے وہ سب کے سب استاد کی جانب متوجہ ہو کر انتہائی عاجزانہ انداز میں سلام پیش کرتے۔ استاد نے کوئی چیز خریدی ہے تو دکاندار کی کوشش ہوتی تھی کہ پیسے نہ لئے جائیں اور استاد کی کوشش ہوتی تھی کہ مفت کوئی چیز نہ لی جائے۔ سابقہ دور میں استاد سے کسی کا بچہ پڑھا ہے یا نہیں پڑھا لیکن استاد کا احترام لازم ہوتا تھا۔ استاد سفر کے دوران بس یا ویگن میں سوار ہو جاتا تو واقف کار کنڈیکٹر یا ڈرائیور استاد کو بڑے احترام کے ساتھ سیٹ پر بٹھاتے اور کرایہ لینے کی بجائے ہاتھ جوڑ کر معذرت کرتے۔ معاملہ یہاں ہی ختم نہیں ہوتا تھا جہاں پر بس رکتی تھی استاد کے لئے کوئی نہ کوئی مشروب لا کر استاد کی خدمت میں پیش کیا جاتا۔ میرے دیکھتے ہی دیکھتے استاد کی عزت و احترام کی دھجیاں بکھر چکی ہیں۔ موجودہ دور میں سب سے مشکل میں استاد ہے اور میں نئے آنے والے اساتذہ کو نصیحت کرتا رہتا ہوں کہ اگر کسی اور محکمہ میں اس سے ایک یا دو کم گریڈ کی ملازمت مل جائے تو اس کو چھوڑ دینا چونکہ استاد کی موجودہ دور میں عزت نہیں رہی۔ سیانے کہا کرتے تھے کہ اپنے بڑے کی گھر والے عزت کریں گے تو باہر والے بھی عزت کریں گے۔ سرکاری سکولوں کی گرتی ہوئی ساکھ کے ذمہ دار ہرگز اساتذہ نہیں ہیں۔ بے شمار سکول سیاستدانوں کی خوشنودی کے لئے قائم کئے گئے۔ پرائمری اور مڈل سکولوں کی بات ہی نہیں کرتا میں تو ہائی سکولوں کے بارے میں یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ تیس برس پہلے قائم کئے گئے سکولوں میں اس وقت سے لیکر آج تک تیس سے پچاس تک کل طلباءزیر تعلیم ہیں۔ 2000 سے قبل چیک اینڈ بیلنس کے لئے اس قسم کا میکانزم نہ تھا جو آج ہے۔ اب تو وزیر تعلیم‘ سیکرٹری تعلیم پنجاب اور ساری منیجمنٹ سکولوں کی چیکنگ پر لگی ہوئی ہے۔ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن مانیٹرنگ سیل کے اہلکاران کی فوج ظفر موج بھی فیلڈ میں ہے۔ اے ای اوز کو ماہانہ اعزازیہ پچیس ہزار روپے دیا جا رہا ہے لہٰذ انکی ذمہ داریاں بھی اسی تناسب سے ہیں۔ ایک جملہ عرض کرتا ہوں کہ نانی خصم کرے اور دوہتی ڈنڈ بھرے۔ اساتذہ کی صفوں میں بہت سے ایسے افراد شامل ہوئے جنہوں نے سکولوں کے اوقات میں سکولوں میں جانا بھی پسند نہیں کیا اور سکولوں میں گئے تو پڑھانا گناہ سمجھتے تھے ایسے لوگوں کے بارے میں نشاندہی کرنے کی چنداں ضرورت نہ ہے جو کچھ اب اساتذہ کو بھگتنا پڑ رہا ہے وہ ان لوگوں کی وجہ سے ہے۔ آج ایک ذمہ دار اور فرض شناس آفیسر سکولوں کا معائنہ کر کے خامیوں کی نشاندہی کرتا ہے تو اساتذہ کو برا لگتا ہے۔ آئندہ اس سے بھی زیادہ مشکلات کا سامنا رہے گا لیکن چند سال گزرنے کے بعد گورنمنٹ سکول بام عروج پر ہونگے۔ اب کوئی سربراہ سکول ایسا نہیں جو اپنے فرائض ادا نہ کر رہا ہو۔ اساتذہ بھی سمجھ چکے ہیں کہ اب حکومتی احکامات پر عمل کئے بغیر بقاءنہ ہو گی۔ سربراہان سکولز اور اساتذہ فی الحال ذہنی دبا¶ کا شکار ہیں لیکن انہیں خبر نہیں کہ میرے اور آپ کے افسران کو کس قدر زیادہ کام کرنا پڑتا ہے۔ اتوار اور تہوار کی چھٹیوں میں بھی ڈیوٹی پر ہوتے ہیں۔ تعلیمی دفاتر رات دس بجے تک عموماً اور بعض اوقات بارہ بجے تک اور کبھی کبھی ساری رات تعلیمی دفاتر میں بیٹھ کر بھرتیوں کے عمل کو مکمل کرتے ہیں۔ ایک سکول کا کمانڈنٹ آفیسر سربراہ سکول ہوتا ہے اگر کمرہ کی چھت گر جائے تو سربراہ سکول معطل ہو گا کلاس انچارج معطل نہیں ہو گا۔ کسی تھانہ کی حدود میں چوری اور ڈکیتی کی وارداتیں بڑھ جائیں تو ایس ایچ او تبدیل ہوتا ہے۔ بہت سارے واقعات ایسے ہیں جو کہ سکولوں میں وقوع پذیر ہوئے اور تبدیل ضلعی تعلیمی آفیسر ہوئے۔ دراصل ساری ذمہ داری کنٹرولنگ آفیسر پر عائد ہوتی ہے۔ سربراہ سکول کنٹرولنگ آفیسر ہے۔ اس نے اپنے ماتحت اساتذہ اور ملازمین سے تمام حکومتی احکامات منوانے ہیں۔ اگر وہ فیل ہو جائے تو اس کو اس سیٹ پر رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ ملتان جیسے شہر میں شہری چوروں اور ڈاکو¶ں کی لپیٹ میں آ جائیں تو سی پی او تبدیل ہوتا ہے۔ تھانوں میں تعینات تھانیدار تبدیل نہیں کئے جاتے اس کی وجہ یہ ہے کہ تھانیداروں سے کام نہیں لے سکا۔ اس بات کو تحریر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اساتذہ اور سربراہان اپنے حکام کے احکامات پر من و عن عمل کریں تو چار پانچ سال تک پرائیویٹ سکولوں کو پسپائی دے سکتے ہیں۔ البتہ کچھ سکول انفراسٹرکچر میں آج بھی اپ ٹو مارک نہ ہیں ان کی تباہی و بربادی کے ذمہ دار دس دس سال سے زائد عرصہ سے بیٹھے ہوئے سربراہان سکولز ہیں یا وہ سکولوں کا بیڑہ غرق کر کے کہیں اور پوسٹنگ لے چکے ہیں یا ریٹائرمنٹ لے چکے ہیں لیکن اب سکولوں میں ہوتے ہوئے ترقیاتی کام دیکھ کر یہ کہہ سکتا ہوں کہ مقابلہ کی فضا قائم ہو چکی ہے اور بے عزت ہونے سے بچنے کے لئے دن رات کوشاں ہیں۔ حکومتی اقدامات سے سکولوں کی حالت بہتر ہوئی ہے البتہ اساتذہ پر یکدم بوجھ آیا ہے لیکن یہ بوجھ اتر جائے گا اور پھر سے استاد کا کھویا ہوا وقار بحال ہو جائے گا۔ سرکاری سکولوں کے امتحانی نتائج بتدریج بہتر ہو رہے ہیں۔ اساتذہ بچوں کو پڑھائیں گے تو عزت کروائیں گے ورنہ گالیاں کھائیں گے۔