ہفتہ ‘ 10؍ صفر المظفر1440 ھ ‘ 20اکتوبر 2018ء

بھارتی ریاست بہار میں 784اساتذہ کی ڈگریاں جعلی نکلیں
صوبہ بہار کے تمام اضلاع میں ٹیچروں کے حوالے سے ہونے والی تحقیقات کے دوران 96ہزار فولڈرز غائب پائے گئے ، اس سلسلے میں مجموعی طور پر 3لاکھ ڈگریوں کی تحقیقات کی گئی۔ برصغیر کی مٹی کی تاثیر ہی کچھ ایسی ہے کہ جعلی ڈگریوں کے ضمن میں خطے کے تینوں بڑے ملکوں ، پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش میں کوئی فرق نہیں ۔ صدر مشرف نے انتخابات کرائے تو انہوں نے ارکان اسمبلی کی اہلیت کے لئے بی اے ہونا لازمی شرط رکھی ۔ دراصل یہ شرط بعض ناپسندیدہ افراد کو سیاست سے دور رکھنے کا حربہ تھا۔ ورنہ جہاں تک اخلاق ، فراست، کردار، سوجھ بوجھ اور ہوشمندی کا تعلق ہے یہ اوصاف ڈگریوں کی کوکھ سے نہیں پیدا ہوتے ، چنانچہ اس شرط پر پورا نہ اترنے کے باعث کئی لوگ انتخابات میں حصہ نہ لے سکے ۔ ان میں نوابزادہ نصراللہ خاں‘ ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل عبدالقیوم ملک اور سیدہ عابدہ حسین خصوصاً قابل ذکر ہیں ۔ یعنی وہ شخص بی اے کی ڈگری نہ ہونے کے باعث نااہل قرارپایا جو شائستہ سیاسی اقدار کا امین اور بابائے جمہوریت کے لقب سے سرفراز ہوا تھا اور وہ قابل فخر جرنیل بھی، جس نے وطن کے دفاع کی جنگوں میں قائدانہ کردار کیا۔ وہ خاتون جو اس سے پہلے وزیر خارجہ رہ چکی تھیں اورجن کی انگریزی میں مہارت اور سفارت کاری کا سکہ سبھی مانتے ہیں وہ بھی انتخابات میں حصہ نہ لے سکیں ۔ اس شرط کے باعث الخیر یونیورسی کی شکل میںجعلی ڈگریاں بنانے کے ’’کارخانے ‘‘ معرض وجودمیں آئے ۔ جو میٹرک پاس بھی نہیں تھے جعلی ڈگری کے باعث اسمبلیوں میں جا پہنچے ۔ اسی طرح درس نظامی کے فارغ التحصیل کی ڈگری بھی بی اے کے برابر تسلیم کر لی گئی۔ چنانچہ اس راستے سے بھی کئی افرادچشمہ فیض سے سیراب ہوئے ۔
یہی پریکٹس 2008اور 2013ء کے انتخابات میں بھی بڑے پیمانے پر دہرائی گئی ۔ بعد میں کئی ایک کی ڈگریاں چیلنج ہوئیں ۔اور وہ نااہل قرار پائے ، 2018کے انتخابات میں جعلی ڈگری کی بنیاد پر سپریم کورٹ نے پی کے 30مانسہرہ سے مسلم لیگ ن کے رکن اسمبلی ’’ علامہ ‘‘ ضیاء الرحمن کو نااہل قرار دے دیا ہے ۔’’ مولانا‘‘ موصوف سندھ کے کسی مدرسے سے دینی تعلیم کی سب سے بڑی ڈگری ’’ شہادۃ العالمیہ ‘‘ کے حامل ہونے کا دعویٰ رکھتے تھے ۔ فاضل عدالت نے صداقت جانچنے کے لئے انہیں کوئی پانچ احادیث سنانے کو کہا‘’’ علامہ ‘‘ صاحب ایک بھی نہ سنا سکے ۔ ادھر ، متعلقہ مدرسے کے ناظم نے بھی کہہ دیا کہ ہمارے مدرسے کو اس نام کے کسی ’’فاضل اجل عالم بے بدل‘‘کی درسگاہ ہونے کا شرف حاصل نہیں ۔ لطف یہ کہ موصوف نے 1996میں میٹرک کیا اور اسی سال جبکہ ان کی عمر ’’مبارک‘‘ محض سولہ سال تھی شہادۃ العالمیہ جیسی سند سے بھی مشرف ہو گئے۔
٭…٭…٭…٭
جمال خشوگی کے حوالے سے امریکہ نے سعودی عرب کو ’’مزید چند دن ‘‘ کی مہلت دے دی
جمال خشوگی، سعودی نژاد امریکی صحافی ہیں ، امریکہ کے چوٹی کے اخبارات واشنگٹن پوسٹ ، نیویارک ٹائمز وغیرہ میں گاہ گاہے لکھتے رہتے تھے ۔چند دن پہلے ترکی گئے ، جہاں وہ مبینہ طور پر کسی کام سے استنبول کے سعودی سفارت خانے بھی گئے۔ لیکن اس کے بعد وہ لاپتہ ہوگئے۔ آسمان کھا گیا یا زمین نگل گئی کسی کو کچھ پتہ نہیں ۔ ترکی نے اس پر اسرار گم شدگی پر شور مچایا تو معاملہ امریکہ تک پہنچ گیا ، جس کے بعد ایک طوفان آگیا ۔ اس ’’رولے گولے ‘‘ کا ترکی کو یہ فائدہ ہوا کہ اس نے محبوس امریکی پادری کو رہا کرکے لیرے کو بالکل ہی بے قیمت ہونے سے بچا لیا۔ امریکہ وہ بھی ٹرمپ کا امریکہ ، خدا کی پناہ! اور امریکہ پر انحصار کرنے والی کمزور قوتوں کو اللہ تعالیٰ اس کے غضب سے بچائے۔
ترکی نے امریکی پادری کو ملک کی سالمیت کے خلاف سرگرمیوں کی بناء پر پابند سلاسل کیا تھا۔ ترکی لاکھ چیختا رہا کہ پادری مذکور کو جائز وجوہ کی بناء پرگرفتار کیاگیا ہے لیکن امریکہ نے سن کر نہ دیا۔ حتیٰ کہ ترکی پر اتنا دبائو ڈالا کہ ترکی لیرا گرتے گرتے پاکستانی روپے سے بھی نیچے چلا گیا۔ بہرحال ترکی نے تو کسی طرح جان چھڑا لی لیکن اب جمال خشوگی (صحیح تلفظ ’’خشوجی‘‘ ) کے معاملے پر سعودی عرب مخمصے سے دوچار ہو گیا ہے۔ نئی نئی کہانیاں تراشی جا رہی ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ خشوگی سعودی شاہی خاندان پرسخت تنقید کیا کرتے تھے۔ چنانچہ انہیں دھوکے سے ترکی کے سعودی سفارت خانے میں بلا کر ٹھکانے لگا دیا گیا، واللہ اعلم باالصواب! ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان (MBS) کی ٹرمپ کے داماد سے بڑی دوستی ہے اور اس کی وساطت سے صدر ٹرمپ سے بھی اچھی سلام دعا ہے، لیکن صدر ٹرمپ کی متلون مزاجی سے سبھی پناہ مانگتے ہیں۔ خاتون اول میلانیا کی برداشت کو داد دینا پڑتی ہے جو ایک مشرقی بیوی کی طرح ’’گزارا‘‘ کر رہی ہے۔
ٹرمپ چند دن پہلے، سعودی شاہی خاندان کو سنا چکے ہیںکہ اگر ہم آپ کی حفاظت پرمامور لوگ واپس بلا لیں، تو آپ چند دن بھی نہیں نکال سکتے۔ بہرکیف، خشوگی کیس دوست ملک سعودی کے لئے مشکلات پیدا کر رہا ہے جس پر ان کے دوستوں کو بجا طور پر تشویش ہے۔ واشنگٹن پوسٹ نے جلتی پر تیل ڈالا،جمال خشوگی کا ایڈیٹر کے نوٹ کے ساتھ ایک کالم بعنوان WHAT THE ARAB WORLD NEEDS MOST IS FREE EXPRESSION آسان اردو میں اس کا ترجمہ ہو گا ’’عالم عرب کواظہار خیال کی آزادی کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔‘‘ گلوبل اوپینین ایڈیٹر کیرن عطیہ لکھتی ہیں :یہ ان کے اسسٹنٹ اور مترجم کی طرف سے مجھے موصول ہونے والا آخری کالم ہے۔ میں نے کالم کو روک لیا کہ وہ اور میں مل کر اسے ایڈٹ کریں گے، لیکن اس کے اگلے دن وہ استنبول میں لاپتہ ہو گئے۔ چنانچہ ان کی واپسی سے مایوس ہو کر میں خود ہی اسے پوسٹ کے لئے ایڈٹ کر رہی ہوں۔ لگتا ہے کہ یہ ان کی آخری تحریر ہے۔‘‘ اور بھی بہت کچھ لکھا ہے جسے ہم قلمزد کرتے ہیں۔ دراصل یہ بنیادی انسانی حقوق کا مسئلہ نہیں۔ امریکہ کو سعودی عرب کو دبائو میں لانے کا کوئی بہانہ چاہئے تھا، جو بعض افراد کی عاقبت نااندیشی کے باعث ٹرمپ کو مل گیا ہے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...