دھرنا‘ پاکستان کی سیاست کا چلن بنتاجارہا ہے

ان دنوں ہر جگہ دھرنے کا چرچا ہے۔ عام آدمی کی دلچسپی کا موضوع یہی رہ گیا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کے دھرنے کی تاریخ جوں جوں قریب آتی جا رہی ہے حکومت نروس ہوئی جا رہی ہے۔ میں نے ایک ماہ پہلے ٹی وی انٹرویو پر وزیراعظم عمران خان کو مشورہ دیا تھا۔ کہ وہ انانیت کو ایک طرف رکھ کر بلاول بھٹو زرداری، مولانا فضل الرحمن، میاں شہبازشریف اور دوسرے سیاسی لیڈروں سے ملاقات کریں اور جوش کو ٹھنڈا کرنے کیلئے سیاست اور سیاسی غیر یقینی کی صورت حال پر مذاکرات کریں۔ اگر اس مشورے پر عمل کیا گیا ہوتا، تو آج ملک کا سیاسی منظر نامہ مختلف ہوتا۔ اور مولانا فضل الرحمن کے سیاسی عزائم دھرے کے دھرے رہ جاتے ہم بحیثیت قوم بے شمار مسائل میں اُلجھ کر رہ گئے ہیں۔ جن کی وجہ سے تمام حلقے ڈپریشن سے دوچار ہیں۔ قومی احتساب بیورو کے ذریے پکڑ دھکڑ نے سیاستدانوں‘ بیوروکریٹس اور بزنس کمیونٹی میں خوف و ہراس پھیلا رکھا ہے، دوسری طرف متوسط اور غریب طبقے بڑھتی ہوئی افراطِ زر اور مہنگائی کے ہاتھوں بہت پریشان ہیں۔
اب دھرنے کی خبر نے پاکستان کے عوام کے دلوں میں یقین جانیئے بے یقینی سی پیدا کر دی ہے، مولانا کے مجوزہ دھرنے نے اسلام آباد کے شہریوں میں ’’یا د ماضی عذاب ہے یا رب‘‘ کی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ تحریک انصاف کے دھرنے کی وجہ سے، اسلام آباد میں کاروبار اور تعلیمی ادارے ٹھپ ہو گئے تھے مگر تحریک انصاف کے دھرنے نے ہمیں کئی سبق بھی دیئے تھے، جن کا اعادہ نہیں ہونا چاہیے۔ اپوزیشن دھرنوں کے ذریعے عوام کی زندگی اجیرن کرنے، سڑکیں بلاک کرنے، سکول، مارکیٹیں اور اسپتال بند کرنے کی بجائے،اگر کوئی شکایت ہے تو پارلیمنٹ سے رجوع کرے۔ لفظ دھرنا کی اصل سنسکرت ہے۔ اور یہ برصغیر کی کم و بیش تمام زبانوں بشمول پنجابی استعمال ہوتا ہے۔ مہا تما گاندھی نے تقسیم سے پہلے غیر ملکی سامراج سے مطالبات تسلیم کرنے کیلئے، اسے بڑی کامیابی سے استعمال کیا، مہاتما جی نے اسے سول نافرمانی کے طور پر بھی استعمال کیا، لیکن اب ہم آزاد ہیں، ہمیں باہمی مسائل، مذاکرات کے ذریعے پرامن طریقے اور سیاسی انداز میں حل کر لینے کی جمہوری روش اپنانی چاہیے۔ پاکستان میں 1968ئ؁ میں پہلی بار دھرنا سرحد کے وزیراعظم اعلیٰ مرحوم خان عبدالقیوم خان نے وزیراعظم فیروز خان نون کی انتظامیہ کے خلاف دھرنا دیا۔ مطالبہ تھا کہ صدر سکندر مرزا کو برطرف کیا جائے۔ یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ پی این اے کا دھرنا، جمہوری طور پر منتخب وزیراعظم، شہید ذوالفقار علی بھٹو کی برطرفی اور صدر ضیاء الحق کی آمریت کا باعث بنا۔ پی این اے نے عوام کو سڑکوں پر لانے کیلئے مذہب کا ہتھیار بھی استعمال کیا۔ بدقسمتی سے دھرنوں نے جمہوریت کو ہمیشہ نقصان پہنچایا اور جمہوری حکومتوں کے تختے اُلٹنے کا باعث بنے۔ 1993ئ؁ میں قاضی حسین احمد امیر جماعت اسلامی کا دھرنا، پیپلزپارٹی کی جمہوری حکومت کے خاتمے کا باعث بنا، مزید برآں سابق وزیر داخلہ مرحوم جنرل نصیراللہ باہر اور کمشنر راولپنڈی جعلی ایف آرز کے باعث لٹکا دیئے گئے۔
عدلیہ کی بحالی کی تحریک کا مجھے بحیثیت وزیر داخلہ سامنا کرنا پڑا، 9 مارچ 2007ئ؁ کو جنرل مشرف نے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو 60 ججز سمیت برطرف کر دیا اور عدلیہ کو تحلیل کر دیا۔ جنرل مشرف کے ان اقدامات کے خلاف ملک بھر کے وکلاء اُٹھ کھڑے ہوئے، یہ اپنی نوعیت کا پہلا مارچ تھا۔ جو عدلیہ کی بحالی کی خاطر کیا گیا۔ کچھ عرصے کیلئے جج بحال کر دیئے گئے جس کے بعد مشرف نے ایمرجنسی نافذ کر دی، تاہم چیف جسٹس کو بار دیگر گھر بھیج دیا۔ بعدازاں 2009ئ؁ میں پیپلزپارٹی کی حکومت کیخلاف نوازشریف نے عمران خان اور قاضی حسین احمد کے ساتھ مل کر احتجاجی دھرنا دیا۔ میں نے فوری طور پر دھرنا کے معاملات اپنے ہاتھ میں لے لئے۔ مارچ کا اصل مقصد اسلام آباد پہنچ کر تحریک بحالئی عدلیہ کی آڑ میں حکومت کا تختہ اُلٹنا تھا، میں نے سیاسی فراست کو بلاتاخیر استعمال کرتے ہوئے مذاکرات کے ذریعے صورتحال کا رُخ موڑ دیا۔ میری سفارشات پر صدر مملکت آصف علی زرداری کے حکم سے افتخار محمد چودھری کو چیف جسٹس کے عہدے پر بحال کر دیا گیا۔ اس سارے معاملات میں صرف میں ہی نے سارے امور نبٹائے۔ اسکے بعد میرے دور میں دوسرا دھرنا، 2013ء میں دیا گیا۔ اس دھرنے میں پاکستان عوامی تحریک نے اپنے قائد طاہرالقادری کی قیادت میں لاہور سے مارچ کیا، اور پارلیمنٹ کے سامنے پیپلزپارٹی کی حکومت کے خلاف دھرنا دیا۔ جس کا رُخ بھی بڑی کامیابی سے موڑ دیا گیا۔ مذاکرات کے ذریعے عوامی تحریک کو مکالمات پر آمادہ کر لیا گیا۔ اور یوں یہ دھرنا، کسی جانی نقصان کے بغیر ختم ہو گیا۔ اس دھرنے کی منصوبہ بندی، لندن میں ایک طاقتور بزنس ہاؤس کے مالک نے کی، علاوہ ازیں تحریک کے پیچھے کچھ طاقتور حلقے بھی تھے۔ میں کسی وقت اس پر تفصیل سے لکھوں گا۔ اور دھرنے کے کرتا دھرتا لوگوں کو بے نقاب کروں گا۔ دوسری طرف، مسلم لیگ کے دور میں 7 اکتوبر 2014ء کو عوامی تحریک کے دھرنے سے غیر سیاسی طور پر نبٹنے کا نتیجہ جانی نقصان کی صورت میں نکلا۔ یہ ایک ایسا سبق ہے، کہ جسے کبھی فراموش نہیں کیا جانا چاہئے۔ جارحانہ طرز عمل، پرامن سمجھوتے کے مواقع ضائع کر دیتا ہے۔ اور یوں کئی قیمتی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں، اشتعال پھیلتا ہے اور ہجوم بے قابو ہو جاتا ہے۔
جب عمران خان کی قیادت میں تحریک انصاف نے مسلم لیگ ن کی حکومت کے خلاف دھرنا دیا، تو مجھے، سیاسی جرگے کا سربراہ نامزد کیا گیا جب حکومت تعطل دور کرنے میں ناکام ہو گئی تو میں نے ذمہ داری سنبھال لی اور اللہ کے فضل و کرم سے میں اور جرگہ کے دوسرے ارکان، دن رات کی کوششوں سے دھرنے کو پرامن طور پر ختم کرانے میں کامیاب ہو گئے۔ جرگے کی کوششیں، ریکارڈ پر ہیں اور دیکھی جا سکتی ہیں۔ جرگہ میں جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق، سینیٹر اسحاق ڈار، جہانگیر ترین، سینٹر حاصل بزنجو اور سینیٹر کلثوم پروین شامل تھے۔ مقصد کے حصول کیلئے میں نے کئی بار، عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری سے بھی ملاقاتیں کیں۔ اس جرگے کی سربراہی پر بجا طورپر نازاںہوں، اور مجھے اپنی پارٹی کے صدر آصف علی زرداری کا مکمل اعتماد حاصل تھا۔ تحریک انصاف کے عمران خان اور عوامی تحریک کے قائد طاہرالقادری کی قیادت میں ہونے والے 126 روزہ اس دھرنے نے ملکی معیشت کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا۔ اسی دھرنے کی وجہ سے دو اہم غیر ملکی شخصیتیں سری لنکا کے صدرمہنداراجہ پکیسا، اور چین کے صدر ژی جن پنگ پاکستان کے سرکاری دورے نہ کر سکے، چینی صدر کا 2014ء میں یہ پہلا دورہ تھا۔عوام، نومبر 2017ء میں فیض آباد میں تحریک لبیک یا رسول اللہ کے دھرنے کے منفی نتائج کو بھی نہیں بھولے۔ اس دھرنے نے کئی دنوں تک جڑواں شہروں، راولپنڈی اور اسلام آباد میں زندگی معطل کئے رکھی بلکہ، ان دونوں شہروں کا پورے ملک سے رابطہ کٹ گیا۔ اب بعض دوسرے سیاسی اور مذہبی رہنماء اپنے مقاصد کے حصول کیلئے دھرنا حکمت عملی اختیار کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں دھرنوں اور لاک ڈاؤنز کی تاریخ میں اگرچہ سیاستدان فتح مند بھی ہوتے رہے، لیکن جمہوریت ناکام ہوئی۔ملک افواہوں کی لپیٹ میں آیا ہوا ہے، پچھے چند برسوں سے بدانتظامی، کرپٹ سسٹم، احتجاجات، دھرنے اور سب سے بڑھ کر حکومت اور اداروں کے درمیان آویزش دیکھ کر اب توں یوں محسوس ہوتا ہے،کہ پاکستان کی سیاست ہے ہی دھرنا۔
یہ دھرنا بھی خوش اسلوبی سے ٹل سکتا ہے۔ بشرطیکہ حکومت سیاسی مخالفین کیلئے، زندگی اجیرن بنانے اور اُنہیں نیب کے ذریعے مزہ چکھانے کی بجائے سیاسی ماحول کو مفاہمانہ پیمانے بنائے رکھا۔ دھرنے سیاسی عدم استحکام کا باعث ہونے کے ساتھ ساتھ معیشت کی نشوونما میں رکاوٹ بنتے ہیں اور اس کے اثرات بدسماجی و اقتصادی اور سیاسی ماحول کر پرا گندہ کرتے ہیں، نتیجہ کیا ہوتا ہے، سیاسی عدم استحکام، معاشی نشوونما میں کمی، افراطِ زر اور مہنگائی میں بے تحاشا اضافہ!!
عوام سوچنے لگے ہیں، کہ دھرنا ہی ہمارا سیاسی مستقبل بننے جا رہا ہے۔ یا حکومت کو حدود میں رکھنے کا یہی واحد راستہ رہ گیا ہے۔ ماضی کے دھرنوں سے میں نے یہی اخذ کیا ہے کہ دھرنے یا تو حکومتیں گرانے کا باعث بنے اور اگر ان سے ہوشمندی کے ساتھ نبٹنے کی کوشش کی گئی اور سیاسی مذاکرات کو مہارت کے ساتھ استعمال کرنے سے فریقین ’’جیت‘‘ جاتے ہیں۔ یعنی دونوں کی ’’عزت‘‘ رہ جاتی ہے۔ دیکھتے ہیں اس دفعہ مذاکرات کامیاب ہوتے ہیں یا پھر ناکامی کی صورت میں امن و امان کے حالات مزید بدتر ہو جاتے ہیں، اگر ایسا ہوا تو معیشت کی حالت اور خراب ہو جائے گی۔ عوام معیشت کی ابتری کے نتائج پہلے ہی بھگت رہے ہیں۔ مجھے اُمید ہے، کہ سیاسی قیادت حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے، اُن مشکل اور حساس حالات کو پیش نظر رکھے گی، جو پیارے پاکستان کو بھارت افغانستان اور امریکہ کی وجہ سے بھگتنے پڑ رہے ہیں۔
نوٹ: کالم میں ظاہر کی گئی رائے اور خیالات میرے اپنے ہیں، ضروری نہیں، کہ یہ میری جماعت کے نقطہ نظر اور خیالات کی عکاسی بھی کرتے ہوں۔
(ترجمہ: حفیظ الرحمن قریشی)
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن