اتوار‘ 20؍ صفرالمظفر 1441ھ ‘ 20 ؍ اکتوبر 2019 ء

شیخ رشید نے بلی پال لی
ویسے تو ہمارے سیاستدانوں میں گھوڑے اور کتے پالنے کا رواج ہے مگر شیخ جی نے بلی پال لی۔ لگتا ہے ان کا دل انسانوں سے اچاٹ ہو گیا۔ اس لئے اب دل بہلانے کے لئے بلی گود لے لی ہے۔ کیا معلوم اب لوگ ان کی باتیں سن سن کر بور ہونے لگے ہوں اور ان کی تقریر یا گفتگو شروع ہوتے ہی اِدھر اُدھر کھسک جاتے ہوں۔ اسلئے اب وہ اپنا بیان اپنی پیاری نئی رفیق یعنی بلی کو سنا سنا کر اپنا غصہ نکالتے ہوں۔ بلی بے چاری نے کون سا سمجھ لینا ہے کہ شیخ جی کیا ارشاد کر رہے ہیں۔ وہ تو اپنی گول مٹول آنکھیں گھما گھما کر انہیں حیرانگی سے دیکھتی ہو گی کہ اس آدم زاد کو کیا ہو گیا۔ یہ لمحہ بہ لمحہ چہرے کے خدوخال بگاڑ بگاڑ کر کبھی اونچی اور کبھی دھیمی آواز میں کیا کہتا ہے۔ اب بلی سے چاہے شیخ جی ہندی بولیں یا پنجابی یا انگریزی اس جانور کو کیا خاک پلے پڑے گا۔ اب معلوم نہیں یہ عام سڑکوں گلیوں میں بھاگنے پھرنے والی بلی ہے یا شیخ جی نے گرہ ڈھیلی کرتے ہوئے کوئی خاص، سیامی مصری یایورپی بلی پالی ہے۔ اگر ایسا ہے تو چلو شیخ جی کو اب اس کے نخرے برداشت کرنے ہوں گے۔ اسکی ہر ادا پر اسے پیار کرنا ہو گا غصہ میں ہو یا ناراض اسے منانا ہو گا۔ گویا شیخ جی زندگی کی بھر جس کام سے دور بھاگتے تھے اب وہی سب کچھ یہ بلی ان سے کرائے گی۔ اور سارے گھر پر مالکن بن کر راج بھی کرے گی۔ شیخ جی خود بھی خوش خوراک ہیں اب یہ بلی بھی انکے ساتھ فاسٹ فوڈ کے علاوہ دیسی کھابوں یعنی مغز، بونگ، پائے، نہاری، مٹن، بیف اور چکن کے مزے بھی اڑائے گی۔ اور لال حویلی کے اردگرد منڈلانے والی بلیاں اور بلے اس بلی کی قسمت پر رشک کریں گی۔
٭…٭…٭
دنیا بھر میں ہڈیوں کا عالمی دن منایا گیا
دنیا بھر میں ہڈیوں کا عالمی دن گذشتہ روز منایا گیا۔ اس موقع پر ہڈیوں کی بہتر نشونما اور ہڈیوں کو بیماریوں سے محفوظ رکھنے کیلئے دنیا بھر میں جاری کوششوں اور سائنسی طور طریقہ کے ساتھ اسکے علاج کے نت نئے انکشافات اور طریقے سامنے آئے۔ ہمارے ہاں بھی اس موقع پر سیمینار اور پروگرام ہوئے ہوں گے جن کی عوام تک رسائی بہت کم رہی۔ البتہ حکومتی اداروں کی طرف سے مولانا فضل الرحمن کے مارچ کے حوالے سے ایسے احکامات اور ہدایات ضروری جاری ہوئی ہیں جن کا مطلب ہڈیوں کے کڑاکے نکالنا ہے۔ جب پولیس کو بزور طاقت مظاہرین یا شرکائے مارچ کو اسلام جانے سے اور وہاں داخل ہونے سے روکا جائے گا تو پھر کڑاکے تو نکلیں گے ہی۔ ظاہر ہے جب متحارب قوتیں ایک دوسرے سے الجھیں گی ایک دوسرے کے گلے پڑیں گی تو ہاتھ، پاؤں، کاندھے، کمر اور سر کی نازک ہڈیوں کا امتحان ہو گا۔ پھر ’’جس ہڈی میں جان باقی ہے وہی رہ جائے گی‘‘ اسلئے کمزور ہڈی والے یعنی ہڈیوں کی کمزوریوں کا شکار حضرات خاص طور پر اختیاط کریں اور ایسی کسی دھینگا مشتی میں شمولیت سے پرہیز کریں جس میں ہڈیوں کا امتحان ہو۔ اب تو پولیس کو خاص طور پر امریکن ڈنڈے جو کافی لوہا دار ہوتے ہیں اور یتکھی آنسو گیس سے لیس کر دیا گیا ہے۔ اسلئے احتیاط لازم ہے۔ کبھی وہ وقت بھی تھا جب حکمران کہتے تھے کہ ہماری حکومت میں دھرنے دینے والوں کو احتجاج کرنے والوں کو ہم کنٹینر اور کھانا فراہم کریں گے۔ شاید مولانا اسی کو سچ مان کر مارچ کیلئے نکلے۔آج یہ حالت ہے کہ ان کو گھروں سے نکالنے کی بھی اجازت دینے کو کوئی تیار نہیں۔ اب یہ تو سراسر طاقتور،ڈنڈوں، لاٹھیوں اور کمزور ہڈیوں کا معرکہ ہو گا۔ ۔ دعا ہے کہ معاملہ ففٹی ففٹیٔ یعنی برابر اور پرامن ہی رہے۔
٭…٭…٭
امریکہ اور اٹلی قدیم رومن دور کے اتحادی ہیں‘ صدر ٹرمپ
صدر امریکہ کو حق ہے کہ وہ جو چاہیں کہیں، کس کی مجال ہے کہ وہ ان کو ٹوک کر اپنا دشمن بنا لے۔ ہمارے بڑے بڑے پھنے خان قسم کے ناقدین بھول رہے ہیں کہ خود ہمارے مشرقی دانشور بھی بادشاہوں کے دربار میں بیٹھنے کے جو آداب ہمیں سکھاتے آئے ہیں وہ صرف نشت و برخاست تک محدود نہیں۔ انہوں نے یہ بھی لکھا ہے۔ کبھی بھی ظل الہٰی کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھنا۔ اسکی کسی بات سے اختلاف نہیںکرنا نہ انکی کسی بات کو کاٹنا۔ نہ بلاوجہ ہنسنا نہ بولنا۔ ان کے قریب نہ ہونا۔ نہ انکی طرف دیکھناجو صاحبان قدردان اصولوں پر عمل کرتے رہے وہ چوری کھاتے رہے۔ جنہوں نے اس کے برعکس عمل کیا وہ خجل خوار ہوتے رہے۔ اب امریکی صدر کی اس یا وہ گوئی پر کہ امریکہ اور اٹلی رومن دور سے ہی ایک دوسرے کے اتحادی ہیں اطالوی مترجم خاتون بے چینی سے چاہے پہلو بدلیں یا کسمسائیں یا روئیں ان کی مرضی ٹرمپ جی نے کونسا کسی کی بات سننی ہے۔ انہیں کون سمجھائے کہ جناب اس دور میں تو امریکہ کی پیدائش ہی نہیں ہوئی تھی۔ یعنی امریکہ دریافت نہیں ہو ا تھا۔ اس وقت جو لوگ امریکن تھے وہ ریڈ انڈین کہلاتے تھے جنہیں بعدازاں یورپ سے آئے بدقماش آبادکاروں نے جدید اسلحہ کے زور اور سیاسی چالبازیوں کی طاقت سے مات دی انہیں مار مار کر ختم کر دیا۔ اب یہی ریڈ انڈین اپنے ملک میں اقلیت کے طور پر ہیں۔ اب معلوم نہیں ٹرمپ جی رومن کا عہد کا کونسا امریکہ دریافت کرنے کے چکر میں ہیں۔ جو اٹلی کا بھی دوست تھا۔ ورنہ سچ کہیں تو امریکہ بھی کسی کا دوست رہا ہی نہیں وہ صرف اپنا دوست تھا اور ہے۔
٭…٭…٭
سرفراز کی چھٹی‘ اظہر علی ٹیسٹ اور بابر اعظم ٹی 20کے کپتان مقرر
لیجئے سری لنکا سے شکست پر شورو غوغا کے بلند ہونے کے بعد بالآخر پاکستان کرکٹ ٹیم میں تبدیلی کر دی گئی۔ وہ بھی دو شعبوں میں ایک ٹیسٹ سریز کا کپتان بدلا گیا تو دوسرا ٹی ٹونٹی کی بھی کپتانی تبدیلی ہوئی۔ گویا سری لنکا کے خلاف شکست کی ساری ذمہ داری کپتانوں کے سر تھی۔ یوں نااہل اور سفارشی میرٹ کا قتل عام کرنے من مرضی کے متظور نظر کھلاڑیوں کو ٹیم میں شامل کرنے والے تیسرے شعبہ یعنی پی سی بی کرکٹ بورڈ کا تو پتہ نہیں ہلا۔ نجانے کیسے دوسروں کے پتے ہلانے والے خود کو تبدیلی کے عمل سے بچا لیتے ہیں۔جب جھاڑو پھیرنی ہی ضروری تھی تو سارے گھر کی صفائی کی جاتی۔ ایک کمرے میں سے گند صاف بھی کیا مگر اسے بھی قالین تلے چھپا دیا۔ اس طرح تو کبھی اچھا رزلٹ نہیں ملے گا۔ آج ہی دیکھ لیں سینٹ کے ممبر سے لے کر کرکٹ کے ماہرین اور کھلاڑی تک اس طرح تبدیلی پر انگلی اٹھا رہے ہیں۔ ویسے بھی اگر کپتان مسلسل پی سی بی کے دباؤ میں رہے گا۔ اسے اپنی کپتانی کی فکر لگی رہے گی تو وہ کیا خاک کھل کر کھیلے گا۔ اب دیکھتے ہیں بابر اعظم جیسا اچھا کھلاڑی اور اظہر علی اس دباؤ سے محفوظ رہ پاتے ہیں۔ کہیں یہ ریکارڈ بنانے والے بابراعظم کیخلاف کوئی سازش تو نہیں۔ اسے ریکارڈ بنانے سے روکنے کی۔ یہ دونوں کپتان بے چارے تو ابھی پی سی بی کی سیاست سے ہی نابلد ہیں۔ اس کے لیے انہیں مصباح الحق یا احسان مانی سے ٹریننگ لینا ہو گی…

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...