اپوزیشن کے جلسے،سیاست میں گرما گرمی

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے گوجرانوالہ کے جلسے کے بارے میں بہت کچھ کہا جا رہا ہے۔ 11 اپوزیشن پارٹیوں کا یہ پہلا پاور شو تھا۔ اس پر ماضی کی طرح متضاد گوئیاں ہو رہی ہیں۔ اپوزیشن اسے کامیاب اور تاریخی جلسہ قرار دے رہی ہے۔ حکومت اسے تاریخ کا ناکام جلسہ باور کرا رہی ہے۔ البتہ اس جلسے میں میاں نوازشریف کی متنازعہ اور پاک فوج کے خلاف تقریر کے بعد جلسے کی تعداد پر بحث لاحاصل ہوکر رہ گئی ہے۔ میاں صاحب نے آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کا نام لیکر جو کچھ کہا نہایت افسوسناک ہے جسے لیگی حلقوں میں بھی پذیرائی نہیں مل رہی۔ میاں نوازشریف  پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ لوئر رینکس کے افسر قابل احترام ہیں مگر جرنیل اور سیاست میں مداخلت کرنے والے افسر ناقابل برداشت ہیں، وہ جوابدہ ہیں۔ اب تو نوازشریف صاحب نام لیکر جرنیلوں اور افسر کے خلاف جو ممکن ہے کہہ رہے ہیں۔  ان کے ایسے بیانات جہاں عوام میں فوج کے خلاف نفرت پھیلانے  کے زمرے میں آتے ہیں‘ وہیں فوج کو بھی بغاوت پر آمادہ کرتے نظر آتے ہیں۔ شاید اس حوالے سے آئین اور قانون میں کوئی قدغن بھی ہے۔ ہوگی، جس کی میاں نواز شریف کو کوئی پروا اس لیے نہیں ہے کہ لندن میں وہ راحت و استراحت کی زندگی گزار رہے ہیں اور اس زعم میں کہ ان کو پاکستان لانا ناممکن نہیں ، جہاں  وہ علاج کے لئے گئے تھے۔ گوجرانوالہ کا جلسہ اُس روز رکھا گیا جب قائد ملت لیاقت علی خان کا یومِ شہادت تھا اور اسی روز دہشتگردی کا نشانہ بننے والے 24 پاک فوج کے شہید ہونے والے سپوتوں کی نماز جنازہ بھی تھی۔ یہ وہی لوئر رینک کے لوگ ہیں جن کی قربانیوں کو میاں نواز شریف کے بقول وہ احترام  سے دیکھتے ہیں مگر جلسے کے دوران ان کے سمیت کسی نے بھی ان شہادتوں پر افسوس کا اظہار نہیں کیا، جلسے کا التوا تو دور کی بات تھی۔ عمران خان نے اے پی ایس سانحہ کے بعد اپنا دھرنا سمیٹ دیا تھا۔ گوجرانوالہ کے جلسے میں بلاول بھی بولے مگر فوج کے خلاف ایک لفظ تک نہ کہا اور حکومت کو بخشا نہیں۔ اگلے روز کراچی میں ان کی میزبانی میں ہی پی ڈی ایم کا جلسہ تھا اس  میں بھی بلاول مریم اور مولانا خوب گرجے برسے مگر اس جلسے سے نواز شریف کو خطاب کرایا گیا نہ ان کے بیانیے کو کسی نے دُہرایا۔مریم نواز نے بڑی اہم بات دُہرائی کہ "بلاول وعدہ کر آپس میں نہیں لڑیں گے" یہی کچھ مریم کے پاپا اور بلاول کی مما نے میثاق جمہوریت پر دستخط کرتے ہوئے عہد کیا تھا۔ میاں نواز شریف کو کراچی کے جلسے میں تقریر کیوں نہیں کرنے دی گئی اس کا فیصلہ پہلے ہوچکا تھا۔بلاول نے  واضح کر دیا تھاکہ پاک فوج کے خلاف جلسوں میں بات نہیںچاہیے اور پھر اس کا اثر کراچی میں جلسے میں نظر بھی آگیا۔  جہاں تھوڑی سی مکافات عمل کی بھی بات کر لی جائے۔ مولانا فضل الرحمن نے عمران خان کے جلسوںکو ہدف تنقید بنایا تھا۔  دھرنے میں اور انتخابی مہم کے دوران تحریک انصاف نے رات کو جلسے ہوتے تھے اس پر مولانا جلے بھنے رہتے ،انکا کہنا تھا کہ جلسے دن کو ہوتے ہیں رات کو مجرے ہوتے ہیں۔ اب وہ خود رات کو جلسوں سے خطاب کرتے ہیں۔ میاں صاحب کا کہنا تھاکہ جلسوں میں عورتوں کا کیا کام ہے۔ اب گوجرانوالہ اور کراچی کے جلسے کے بعد یہی سوال لیگیوں سے پوچھا جا سکتاہے۔عمران خان کا فوج کے خلاف میاں نواز شریف کے بیانیے کا شدید ردعمل آیا ہے۔ وہ کہتے ہیں۔"نواز شریف کی تقریر سن کر نیا عمران خان بھی بن گیا ہے، اب کسی ڈاکوکا پروڈکشن آرڈر جاری نہیں ہو گا،کسی کو وی آئی پی جیل نہیں ملے گی۔گیڈر دم دبا کر بھاگ گیا، وہاں بیٹھ کر اداروں کے خلاف باتیں کررہا ہے نواز شریف کا حملہ آرمی چیف پر نہیں بلکہ فوج پر ہے۔ یہی بیانیہ نریندرمودی نے دیا جب مودی نے متعدد مرتبہ بیان دیا کہ نواز شریف پسند ہے لیکن پاکستان کا آرمی چیف نہیں، مودی بار بار ایسا کہتا لیکن نواز شریف خاموش تھا۔ حدیبیہ پیپر ملز کا مقدمہ بند ہوتا ہے تو عدلیہ اچھی ہے، 5 رکنی بینچ نواز شریف کو سزا دیتا ہے تو 'کیوں نکالا' کہہ کر عدلیہ کو بدنام کرتا ہے۔آصف علی زرداری نے نواز شریف کے خلاف حدیبیہ پیپر ملز کا مقدمہ دائر کرایا تھا، جنرل باجوہ نے مقدمہ نہیں کیا تھا۔" اداروں اور انکے وابستگاں کا تحفظ حکومت کی ذمہ داری ہے۔وزیراعظم معاملات کو تحمل و بردباری سے دیکھیں آئین اور قانون کو مدنظر رکھیں۔ کسی بھی طور پر ان کے ایکشن سے اشتعال ،جارحانہ پن انتقام کا شائبہ تک نہیں ہوناچاہیے۔وہ عدالتوں کی طرف سے مفرور اور اشتہاری قرار دئے گئے لوگوں کو پاکستان لانے کی کوشش کرتے ہیں تو اسے انتقام نہیں قانون کی بالادستی کی خواہش کاوش اور کوشش ہی قرار دیا جائے گا۔ 

ای پیپر دی نیشن