فیصل واوڈ کا ایک اور جھو ٹ سامنے آگیا ، معاملہ بہت سنجیدہ ، عدالت کو بھی دھو کہ دیا 


اسلام آباد (خصوصی رپورٹر ) سپریم کورٹ میں تاحیات نااہلی کیخلاف اپیل پر سماعت کے دوران چیف  جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ یہ معاملہ تو بہت سنجیدہ ہوگیا ہے فیصل واوڈا نے نہ صرف ریٹرنگ افسر بلکہ سپریم کورٹ کو بھی دھوکہ دیا، فیصل واوڈا کا ایک اور جھوٹ سامنے آ گیا ہے،فیصل واوڈا نے تو آئین سے انحراف کیا،اب تو صرف سوال یہ رہ گیا ہے کہ نااہلی تاحیات ہوگی یا وقتی۔جسٹس عمر عطا بندیال نے فیصل واوڈا کی جانب سے وکیل وسیم سجاد سے کہاکہ عدالت میں آپ پانچ سوالات پر دلائل دے رہے ہیں کہ ایک یہ کہ آپ کے بیان حلفی کو غلط پڑھا گیا ، دوسرا آپ یہ کہتے ہیں کہ الیکشن کمشن کے پاس تاحیات نااہل کرنے کا اختیار نہیں ہے ۔ فیصل واوڈا پرآئین کے آرٹیکل62ون ایف کا اطلا ق نہیں ہوتا، چوتھا آپ یہ کہتے ہیں کہ فیصل واوڈا پر نااہلی عائد نہیں کی جاسکتی جبکہ پانچوں نمبر پر آپ یہ کہتے ہیں فیصل واوڈا کی تاحیات نااہلی نہیں ہوسکتی کیونکہ دوہری شہریت پر آئین کے آرٹیکل162ون سی کا اطلاق ہوتا ہے ،یہاں صورتحال یہ ہے کہ فیصل واوڈا نے قومی اسمبلی سے استعفی دیا اس کے بعد سینیٹ کا الیکشن لڑا ،تین مارچ 2021ء کو ہونے والے سینیٹ انتخابات کے وقت ایسا کوئی جھگڑا نہیں تھا۔ چیف جسٹس نے وکیل سے سوال کیا کہ وہ عدالتی فیصلے بتائیں جن میں کہا گیا ہے کہ ایسی صورتحال میں آئین کے آرٹیکل62ون ایف کا اطلاق نہیں ہوگا ،آئین اور قانون جھوٹے بیان حلفی پر کیا کہتا ہے کچھ سینیٹرز کے مقدمات عدالت میں آئے تھے سینیٹر سعدیہ عباسی اور دیگر کے مقدمات میں آئین کے آرٹیکل 62ون سی کا اطلاق کیا گیا تھا۔ جسٹس عائشہ ملک  نے کہا کہ جھوٹے بیان حلفی کے دوررس نتائج ہونگے کیونکہ جھوٹا بیان حلفی عوام کے ساتھ دھوکے کے مترادف ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ فیصل واوڈا کی طرف سے بتائی گئی کہانی میں حقائق ایک دوسرے کے منافی ہیں جو تاریخیں بتائی گئیں وہ آپس میں میچ نہیں کرتیں ، آپ کے بیان حلفی کی تاریخ 4جون 2018 ء ہے اس پر وسیم سجاد نے کہاکہ 29مئی 2018 ء کو نادرا سے شناختی کارڈ کی تجدیدکروائی تو نادرا کو دکھایا گیا کہ امریکی پاسپورٹ منسوخ کردیا گیا ہے 18جون2018ء کو ریٹرننگ افسر کو منسوخ شدہ پاسپورٹ دکھایا۔ جسٹس عائشہ ملک نے وکیل سے کہاکہ فیصل واوڈا نے بیان حلفی میں کہا کہ انہوں نے 22جون کو شہریت چھوڑی۔ فیصل واوڈا کے وکیل نے موقف اپنایا کہ ڈسٹرکٹ جج ریٹرننگ افسر نے منسوخ امریکی پاسپورٹ دیکھ کر تسلی کی،اسی بنیاد پر ان کے کاغذات نامزدگی منظور کرنے کا فیصلہ لکھا ،کاغذات نامزدگی منظور کرنے کے اس فیصلے کو کہیں چیلنج نہیں کیا گیا اس کے بعد الیکشن کمشن نے امریکی سفارتخانے کو خط لکھا۔ جسٹس عائشہ ملک نے دستاویزات کا جائزہ لیتے ہوئے کہاکہ فیصل واوڈا جس منسوخ شدہ پاسپورٹ پر انحصار کر رہے ہیں وہ زائدالمعیاد( ایکسپائر تھا)ریٹرننگ افسر کو پاسپورٹ 2018ء میں دکھایا گیا تھا، آر او کو دکھایا جانے والا پاسپورٹ16اگست 2015ء  کو ایکسپائر ہوچکا تھا،فیصل واوڈا نے ریٹرنگ آفیسر کے سامنے زائد المیعاد پاسپورٹ کو منسوخ شدہ پاسپورٹ ظاہر کیا، نیا پاسپورٹ بنوائیں تو ہی پرانے پر منسوخی کی مہر لگتی ہے، جسٹس عائشہ ملک نے کہاکہ منسوخ شدہ پاسپورٹ شہریت چھوڑنے کاثبوت کیسے ہو سکتا ہے؟ فیصل واوڈا نے نہ صرف ریٹرنگ افسر بلکہ سپریم کورٹ کو بھی دھوکہ دیا، اس پر چیف جسٹس عمر عطابندیال نے کہاکہ یہ معاملہ تو بہت سنجیدہ ہوگیا ہے۔ وسیم سجاد نے موقف اپنایا کہ بیان حلفی کا متن تھا کہ کسی دوسرے ملک کا پاسپورٹ نہیں ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہ بیان حلفی میں پاسپورٹ کا مطلب دوسرے ملک کی شہریت ہونا تھا،جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ جو پاسپورٹ ریکارڈ پر ہے اس کے اور منسوخ شدہ پاسپورٹس کے نمبر مختلف ہیں، مختلف نمبرزسے واضح ہے کہ زائد المعیاد ہونے کے بعد نیا پاسپورٹ بھی جاری ہوا،اس دوران وسیم سجاد نے کہاکہ الیکشن کمشن کو آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کا اختیار نہیں ہے،جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کو تحقیقات کرنے کا کہا،ہائیکورٹ کے فیصلے کو چیلنج بھی نہیں کیا گیا، فیصل واوڈا نے اعتراض اٹھائے بغیر تحقیقات کے عمل میں حصہ لیا، آئین کے آرٹیکل199ے تحت ہائیکورٹ کے پاس تاحیات نااہل کرنے کا اختیار موجود ہے۔فیصل واوڈا کے وکیل وسیم سجاد نے تیاری کیلئے وقت مانگا توجسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ ان سولات کے جوابات آپکو آئندہ ہفتے بھی نہیں ۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...