چار سال کے طویل وقفے کے بعد میں نے ٹی وی کے لئے بھی ٹاک شو شروع کردیا ہے۔ اب اس کالم کے علاوہ اس شو کا مواد ڈھونڈنے کے لئے بھی روایتی اور سوشل میڈیا پر مزید توجہ سے نظررکھنا ضروری ہوگیا ہے۔ یوں کرتے ہوئے اپنی ”صحافت“ کے بارے میں کئی برسوں سے دل ودماغ میں پلتی پریشانی میں لیکن اضافہ ہورہا ہے۔
چند دن قبل اس کالم میں ”نیوز سائیکل“ کی اصطلاع کا ذکر ہوا تھا۔ اس کا اردو متبادل اب بھی ڈھونڈ نہیں پایا۔سادہ الفاظ میں یوں کہہ لیں کہ وہ ”خبر“ یا موضوع جو دن کے 24گھنٹے روایتی اور سوشل میڈیا پر حاوی رہتے ہیں۔ اس تناظر میں جائزہ لیتے ہوئے کھلے دل سے تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ مذکورہ سائیکل پر عمران خان صاحب چھائے ہوئے ہیں۔کئی بار تو یہ گماں ہوتا ہے کہ میڈیا کے لئے دن کا ایجنڈا وہ ہی طے کرتے ہیں۔ جو مطالبہ یا سوال وہ اٹھائیں اس کی حمایت یا مخالفت ہی میں سنجیدہ نہیں بلکہ یاوہ گوئی کی تکرار شروع ہوجاتی ہے۔
اپنی توجہ عمران خان صاحب کے من پسند موضوع یاسوال پر مرکوز رکھتے ہوئے ہم یہ حقیقت قطعاَََ فراموش کئے ہوئے ہیں کہ رحیم یار خان اور ڈیرہ غازی خان کے بعد ہم سندھ اور بلوچستان میں داخل ہوجاتے ہیں۔حالیہ سیلاب نے وہاں کے لاکھوں نہیں کروڑوں باسیوں کو زندہ رہنے کے لئے لازمی شمار ہوتی بنیادی ضرورتوں سے قطعاََ محروم کردیا ہے۔سرکاری طورپر سندھ حکومت نے تسلیم کیا ہے کہ اس کے ہاں کم از کم 73لاکھ گھر پانی کی نذر ہوچکے ہیں۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہماری ٹی وی سکرینوں کا مناسب وقت اس سوال کا جواب ڈھونڈنے میں صرف ہورہاہوتا کہ منہدم ہوئے مکانات کی بحالی کے لئے وفاقی اور صوبائی حکومت کے پاس کماحقہ وسائل اور حکمت عملی موجود ہے یا نہیں۔ اب تک جو اطلاعات میں گھر تک محدود ہوا محض آفت زدہ علاقوں میں موجود لوگوں کے ذریعے ٹیلی فون پر ہوئی گفتگو کے ذریعے جمع کرسکا ہوںتاہم یہ تاثر اجاگر کررہی ہیں کہ بے گھر ہوئے افراد کو ”اللہ کے حوالے“ کردیا گیا ہے۔بے تحاشہ لوگ اب بھی کھلے آسمان تلے لکڑی کے سہارے کھڑی ہوئی ترپال کی ”چھت“ تلے پناہ لئے ہوئے ہیں۔حکومت اپنے وسائل سے اب تک ہر مقام پر ایسے خیمے فراہم نہیں کر پائی ہے جو ان کو موسم کی شدت ہی نہیں مچھروں اور دیگر حشرت الارض سے بھی محفوظ رکھ پائے۔اس کے علاوہ وبائی امراض کی شدت میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔
سندھ کے مختلف مقامات پر اب بھی ایسے کئی گاﺅں ہیں جہاں پانی کی نکاسی کا مناسب بندوبست نہیں ہوپایا۔وہاں محصور ہوئی حاملہ خواتین کشتیوں میں بیٹھ کر قریبی ہسپتال جانے کو مجبور ہیں۔بلاتعصب یہ حقیقت تسلیم کرنا ہوگی کہ ”سرکار“ اپنے تئیں کشتیوں کی کماحقہ تعداد فراہم نہیں کرسکتی۔اس کی بدولت جو خلاپیدا ہوا ہے اسے کئی ”موجد“ افراد ”دھندے“ کی صورت پورا کرنا چاہ رہے ہیں۔منافع خوری کی ہوس انسانی جبلت میں شامل ہے۔قدرتی آفات اور جنگوں کی نذرہوئے معاشروں میں ”ذہین“ لوگ عام انسانوں پر نازل ہوئی آفتوں سے اپنا ”سیزن“ لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔ نیک دل اور فیاض افراد کی معاونت ہی سے ایسے معاشروں کی ”سرکار“منافع خوروں کے اجارے کا تدارک ڈھونڈتی ہیں۔
سندھ اور بلوچستان کے تین کروڑ پاکستانیوں کی بحالی یقینا ہمارا ”مسئلہ نمبر ون“ ہونا چاہیے تھا۔اپنے گھر آئے اخبارات کے پلندے کو کھول کر شہ سرخیوں کا جائزہ لوں تو ”سوال نمبر ون“یہ گونجتا محسوس ہوتا ہے کہ آئندہ ماہ کے اواخر میں ”تعیناتی“ کے حوالے سے ہما کس کے سر بٹھائی جائے گی۔اس تناظر میں سوال یہ بھی اُٹھ رہا ہے کہ وہ ”ہما“ جسے کسی کے سرپر بٹھانا ہے فی الوقت کس کی گرفت میں ہے۔پاکستان ”اسلامی جمہوری“ ملک ہونے کا دعوے دار ہے۔دعویٰ یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں ریاستی بندوبست کو منظم انداز میں چلانے کے لئے ایک ”تحریری آئین“ بھی موجود ہے۔وہ ”تحریری آئین“ اگر واقعتا کوئی وقعت رکھتا ہے تو جس ”ہما“ کا میں ذکر کررہا ہوں فی الوقت ان دنوں وزارت عظمیٰ کی کرسی پر بیٹھے شہباز شریف صاحب کی گرفت میں ہے۔ عمران خان صاحب مگر اصرار کئے چلے جارہے ہیں کہ مذکورہ ”ہما“ آصف علی زرداری اور نواز شریف جیسے ”چور،لٹیرے اور بھگوڑے“ کی گرفت میں ہے۔وہ ان کی جانب سے مذکورہ ”ہما“ کسی کے سرپر بٹھانا گوارہ نہیں کریں گے۔”تعیناتی“ میرٹ کی بنیاد پر ہوئی دیکھنا چاہ رہے ہیں۔”میرٹ“ کی مگر وضاحت نہیں کرتے۔
مجھ جیسے سادہ لوح یہ تصور کرتے ہیں کہ ہزاروں چھلنیوں سے گزرنے کے بعد لیفٹیننٹ جنرل ہوئے افراد ”میرٹ“کی وجہ ہی سے اس مقام پر پہنچتے ہیں۔شہباز شریف ان تین سے پانچ سینئر ترین افراد ہی میں سے کسی ایک کی تعیناتی کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ یقینا کوئی دوسری راہ وہ اپنا نہیں سکتے۔ اس تناظر میں روایتی اور سوشل میڈیا پر نگاہ ڈالتا ہوں تو ”غالب“ کی طرح یہ سوال اٹھانے کو مجبور ہوجاتا ہوں کہ ”پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے“۔
فرض کرلیتے ہیں کہ ”تعیناتی“ اسی انداز میں ہو جائے جس کا تقاضہ عمران خان صاحب کئے چلے جارہے ہیں۔ ان کی تسکین ہو گئی تب بھی بے گھر ہوئے پاکستانیوں کی تیز رفتار بحالی کیسے ممکن ہوگی۔ اس ضمن میں برپا ہوا شوروغوغا میرے جھکی مزاج کو قطعاََ فروعی ہی نہیں بلکہ سفاک چسکہ فروشی بھی محسوس ہورہا ہے۔ اسی باعث یہ جان کر ہرگز حیران نہیں ہوا کہ حال ہی میں آبادی کے اعتبار سے ہمارے سب سے بڑے شہر کراچی میں قومی اسمبلی کی دو نشستوں کے لئے جو انتخاب ہوئے ان کے دوران ووٹر ٹرن آﺅٹ حیران کن حد تک کم ترین رہا۔ حالانکہ ان دو حلقوں سے عمران خان صاحب خود بھی امیدوار تھے۔ایک نشست ہار گئے۔کورنگی والی جیت لی۔اس نشست پر لیکن ملیر سے بھی کم ترین ٹرن آﺅٹ ہوا۔ کم تر ٹرن آﺅٹ کی حقیقت ان کی فکر مندی کا تقاضہ کررہی تھی۔عمران خان صاحب نے 7میں سے 6نشستیں جن پر وہ خود مقامی امیدواروں کے خلاف کھڑے ہوئے تھے جیت کر اتوار کے دن ہوئے ضمنی انتخاب کو نہایت فخر سے ”ریفرنڈم“ ٹھہرادیا ہے۔حیران ہوں کہ روﺅں....