فرانس کے دارالحکومت پیرس میں گزرے جمعہ کو ایک بارہ سالہ بچی لولا قتل کر دی گئی جس پر پورے ملک میں کہرام مچ گیا، بی بی سی نے اسکی خبر دی تو سرخی یوں جمائی کہ پورا پیرس سکتے میں آ گیا۔ دو روز بعد پولیس نے قتل کی ملزمہ، ایک الجزائری خاتون کو گرفتار کر لیا۔ اخبارات اور ٹی وی پر اس دوران یہی خبر چھائی رہی۔
دوسرے ملکوں میں یہی ہوتا ہے۔ کوئی بچہ قتل ہو جائے اور ایسے واقعات کم ہی ہوا کرتے ہیں تو پورا ملک ہل کر رہ جاتا ہے، میڈیا طوفان کھڑا کر دیتا ہے اور تمام ریاستی ادارے حرکت میں آ جاتے ہیں۔ بالعموم قاتل بہت جلد پکڑا جاتا ہے جیسا کہ لولا کے کیس میں ہوا، جمعہ کو قتل ہوا، سنیچر کو قاتل پکڑا گیا۔ یورپ امریکہ کی تو بات ہی کیا، اگر آپ بھارتی میڈیا پر نظر رکھتے ہیں تو جانتے ہوں گے کہ وہاں کوئی بچہ قتل ہو جائے تو میڈیا کیسے اس کیس کو اٹھاتا ہے۔ یہاں یہ بحث الگ ہے کہ قتل ہونے والا بچہ مسلماں ہو تو خبر دبا دی جاتی ہے۔
اب اس کا موازنہ پاکستان سے کیجئے۔ نوائے وقت نے /14 اکتوبر کو رپورٹ دی کہ اس سال صرف پنجاب میں 21 بچے زیادتی کے بعد قتل کر دئیے گئے۔ یہ رپورٹ صرف زیادتی کے کیس کے حوالے سے ہے۔ بے شمار بچے دوسری وجوہات کی بنا پر قتل ہوتے ہیں۔ استاد یا قاری نے مار مار کر مار ڈالا، سوتیلے باپ یا ماں نے مار دیا۔ معمولی جھگڑے پر پڑوس نے مار دیا، اغوا برائے تاوان والوں نے مار دیا۔ پرانی دشمنی کا بدلہ بچے کو مار کر اتارا۔ چائلڈ لیبر کی اموات الگ ہیں۔ گھروں میں کام کرنے والے کتنے بچے مار دئیے جاتے ہیں اس کے علاوہ دوسرے مالکان کے ہاتھوں بھی یہ قتل ہوتے ہیں۔ چوری کے شبہ میں محلے والے پکڑ کر مار دیتے ہیں یہاں تک کہ سگے ماں باپ بھی مار دیتے ہیں۔ تھوڑے ہی دن گزرے، پے درپے تین واقعات تین روز میں ہوئے۔ ایک میں سگے باپ نے تین سالہ بچی، دوسرے میں سگے باپ نے تین سالہ بیٹے کو زمین پر پٹخ کر مار ڈالا۔ ایک واقعے میں باپ نے یہ کہہ کر اپنی چھ سالہ بچی پانی میں ڈبو کر مار دی کہ اس کی شکل مجھ سے نہیں ملتی ہے۔
پاکستان میں ایسی کسی خبر پر کبھی کوئی کہرام نہیں مچا، سوائے ایک واقعے کے۔ کہرام کیا، اکثر کو خبر ہی نہیں ہوتی۔ ٹی وی پر چند لمحے کو ایک ٹِکر چلتا ہے اور اخبارات میں یہ کلچر ہے کہ ایسی خبر، آخری صفحے کے نچلے ہاف میں سنگل کالم اور چند سطروں میں نمٹا دی جاتی ہے۔ بیشتر قارئین بڑی بڑی سیاسی خبروں کی محض سرخیاں پڑھ کر اخبار کا مطالعہ مکمل کر لیتے ہیں۔
حکومت اور سیاسی و سماجی ادارے، جماعتیں اور رہنما ایسی خبروں کو غیر متعلقہ سمجھتے ہیں۔
جس واحد واقعے پر کہرام مچا تھا وہ قصور کی معصوم بچی زینب کا قتل تھا لیکن یہ کہرام زینب کی ہمدردی میں نہیں مچا تھا، یہ سب آپریشن گیٹ نواز شریف کا حصہ تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ قاتل کا تعلق دھرنے والی دو جماعتوں میں سے ایک کے ساتھ نکلا۔ اس واقعے میں ریاست، ریاستی ادارے، سیاسی جماعتیں سب انگڑائی لے کر جاگ اٹھی تھیں اور ایسا رقصِ وحشت کیا کہ دھرتی ہلا کے رکھ دی۔ پھر اسی قصور میں پے درپے بچے قتل ہوتے رہے۔ تمام جاگنے والے لمبی تان کر سوئے رہے اور سوئے ہی رہیں گے۔
خبروں کے مطابق بچوں کے قتل میں پختونخواہ سب سے آگے ہے۔ آبادی کے تناسب سے وہاں پنجاب سے چار گنا زیادہ قتل ہوتے ہیں۔ سندھ پیچھے ہے اور بلوچستان بہت ہی پیچھے۔
یہ سب ماجرا اور یہ موازنہ ایک آئینہ ہے جس میں ریاست اور سماج کے تمام اجزا اور یونٹ ایک ہی تصویر بن کر نظر آتے ہیں۔ تمام کرداروں کی تصویریں ایک دوسرے کو اوورلیپ کر رہی ہیں اور اوورلیپنگ کے عمل میں سب کے چہرے مل کر جو شکل واحد بنتی ہے، وہ کسی انسان کی نہیں، عفریت کی لگتی ہے اور عفریت کبھی آئینہ نہیں دیکھا کرتے۔
_______________________
ایک اور خبر سندھ کے شہر نواب شاہ سے ملاحظہ ہو۔ ایک غریب عورت کا بچہ بیمار تھا، وہ اسے سرکاری ہسپتال لے کر آئی۔ بچے کو بھوک لگی، فاقہ زدہ ماں کی چھاتیوں میں دودھ نہیں تھا، وہ باہر گئی، بھیک مانگی، دودھ خریدا اور واپس آئی تو ہسپتال کے عملے نے اندر جانے سے روک دیا۔ شور کیا تو بچے اورماں دونوں کو اٹھا کر ہسپتال سے باہر پھینک دیا۔ خاتون کا نام فیروزہ ہے ہسپتال کا نام زچہ بچہ ہسپتال ہے، بچے کی حالت نازک ہے اور سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے جبکہ نواب شاہ آصف زرداری کا شہر ہے۔
اس معاملے میں پورا ملک ہی نواب شاہ ہے۔
_______________________
معاشرے کی ذرا مختلف قسم کی تصویر دیکھئے۔ کراچی میں کسی ”انسان“ کو ”انسانیت“ نے زیادہ تنگ کیا تو اس نے تیزاب کی بوتل اٹھائی اور گلی میں کھڑے کمہار کے گدھے کا منہ کھول کر اس میں انڈیل دی۔ گدھا بہت تڑپا۔ کمہار نے بہرحال اس سے کام لینا تھا، اس نے گدھے کو ریڑے میں جوتا اور بس جوت دیا۔
کراچی میں جانوروں کی بہبود کیلئے قائم عائشہ چندریگر فاﺅنڈیشن (اے سی ایف) اینمل ریسکیو والوں کو کسی نے خبر دی تو انہوں نے گدھا اپنے قبضے میں لیا۔ گدھے کا مالک مانتا نہیں تھا، مشکل سے منوایا اور اب گدھے کا علاج ہو رہاہے، پتہ نہیں، بچ پاتا ہے یا نہیں۔ یہ وہی کراچی ہے جہاں کئی ماہ پہلے کتا مار مہم اس طرح چلائی گئی تھی کہ فی کتا ایک گولی کے حساب سے فائرنگ سکواڈ نے کام کیا اور تمام کتے فوری موت مرنے کے بجائے گھنٹوں تڑپ تڑپ کر مرے، بعض کی جان تو اگلے روز نکلی۔
یہ ہمارے سماج کا ایک اور آئینہ ہے۔ یہاں سیاسی جلوس نکلتے ہیں تو ان میں بھی بے زبان کتے یا گدھے کو پکڑ کر اس پر مخالف کا نام لکھ کر اسے مارنے کی سورمائی دکھاتے ہیں۔
_______________________
پاکستان کا شمار دنیا میں عمومی انڈکس کے علاوہ ذہنی طور پر بھی پسماندہ اقوام میں کیا جاتا ہے۔ ہم چاہیں تو اسے دوسری طاقتوں کی خباثت یا عالمی سازش کا نام دے سکتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں آئینہ دیکھنے کی ضرورت بھی تو ہے۔
بچے، جانور اور عورتیں....ہمارے سماج میں یہ ایک ہی صف میں شامل سمجھے جاتے ہیں۔ یہاں چائے میں چینی کم ڈالنے پربہن اور روٹی دیر سے پکانے پر بیوی قتل کر دی جاتی ہے۔
پیپلز پارٹی ہو یا مسلم لیگ ن ، کوئی سیاسی جماعت اس مسئلے پر کبھی بولتی ہے نہ اصلاحات لانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ علما ایسے واقعات پر سکوت فرماتے ہیں۔ حد یہ ہے کہ اجتہاد کو اہمیت دینے اور ”الخدمت“ جیسا عظیم ادارہ چلانے والی جماعت اسلامی بھی روایتی ”مولویت“ میں رنگی گئی ہے۔ خواجہ سراﺅں کو یہاں کوئی مذہبی یا سماجی طبقہ انسان نہیں سمجھتا۔ ٹرانس جینڈر بل سے انہیں ”ذرا“ سا انسان سمجھ لیا گیا ہے تو جماعت اسلامی سخت ناراض ہو گئی ہے، دوسرے علما سخت سے کچھ کم ناراض ہیں، خوش البتہ کوئی نہیں۔
یہ چوتھا آئینہ ہے۔
_______________________