گورا دو دہائی آگے کی سوچتا ہے


یہ کوئی اٹھارہ بیس سال پہلے یعنی 2004کے قریب کی بات ہے کہ راولپنڈی میں ایک معروف غیر سرکاری ادارہ کی جانب سے فیوچر آف ڈیجیٹل اینڈ وائرلیس آپریٹنگ سسٹمزو ماڈیولز کے موضوع پرایک کانفرنس یا یوں کہہ لیں ورکشاپ کا اہتمام کیا گیا۔ انتظامیہ کیجانب سے ہمیں بھی کانفرنس میں مدعو کیا گیا جبکہ شرکت کی رضامندی مانگنے کیلئے جو لیٹر ارسال کیا گیا تھااس پر درج موضوع دیکھ کر پہلا ہی خیال جو سنسنی خیزی پھیلانے میں کامیاب ہوا وہ مستقبل کی جدت اور تغیرپزیری کے بارے میں آگاہی کا تھا۔ ْاس وقت ہم یہ سوچ رہے تھے کہ مستقبل میں کیا کچھ تبدیلیاں رونما ہونیوالی ہیں اس فورم پر انکے بارے میں سیر حاصل معلومات فراہم ہو سکیں گی۔ یہ سوچتے ہی جھٹ سے کانفرنس میں شمولیت کی حامی بھر لی۔ پھر کیا تھا چند روز بعد ہم کانفرنس کا حصہ تھے اور مختلف ٹیکنالوجی ایکسپرٹس کے لیکچر سن رہے تھے۔ کانفرنس میں مستقبل کی ٹیکنالوجی کے حوالہ سے بہت سی حیرت انگیزپیشن گوئیاں کی گئیں ان میں موبائل فون ٹیکنالوجی اور ایل سی ڈی یعنی سمارٹ ٹی وی کے حوالہ سے چند حقائق انتہائی اہم محسوس ہوئے۔ جس دور میں کانفرنس کا انعقاد کیا گیااس وقت موبائل فونز پاکستان میں محدود سطح پردستیاب تھے۔موبائل سروس فراہم کرنیوالی کمپنیاں بھی محدود تھیں۔ جیسے جیسے وقت بدلتا گیا اس کانفرنس میں بولا گیا ایک ایک لفظ صحیح ثابت ہونا شروع ہوا۔ آئیے ان تمام پہلوؤں کا ذکر کرتے ہیں جن کا تصور گورا بیس سال قبل کر چکا تھا۔ ہمیں بتایا گیا کہ مستقبل قریب میں آپ اپنے ہاتھ میں موجود موبائل فون کے ذریعے گھر سے کہیں دور بیٹھے چاہے کسی دوسرے شہر میں ہی کیوں نہ ہوں اپنے گھر کا ایئر کنڈیشن، پانی کی موٹر یا گھر کا داخلی دروازہ کھول اور بند کر سکیں گے۔ بات یہاں ہی بس نہیں ہوئی بلکہ بتایا گیا کہ آپ اپنے موبائل فون سے اپنے انٹرنیشنل بینک اکاؤنٹ کو بھی آپریٹ کرینگے۔ بچوں کے سکول کی فیس سے لے کر ریل کار اور جہاز کے ٹکٹ تک بْک کرسکیں گے۔ یہ سب باتیں اور دعوے اس وقت آئیں بائیں شائیں ہی محسوس کئے جا سکتے تھے لیکن اندر ہی اندر دل اس جدت کو تسلیم کرنے پر بھی تْلا ہوا تھا کہ جتنی برق رفتاری سے دنیا ترقی کے مراحل سے گزر رہی ہے اِن گیجٹس نے بھی ضرور مارکیٹ میں آ ہی جانا ہے۔وقت آج وہ سب دعوے سچ ثابت کر رہا ہے جن کا خواب بیس سال قبل دیکھا جارہا تھا۔در حقیقت اِس وقت بھی ہم ترقی یافتہ ممالک سے لگ بھگ پندرہ سے بیس سال پیچھے چل رہے ہیں۔ ورکشاپ کے آخری روز ٹیم لیڈر گورے کا لیکچر تھا جس کا نام تو اب یاد نہیں لیکن انہوں نے ٹیلی ویڑن کی نئی اشکال اور اس میں متعارف ہونیوالی ٹیکنالوجی کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ مستقبل میں کسی کے بھی گھر میں موجود ٹیلی ویڑن یعنی سمارٹ ٹی وی کے ذریعے اس کے ڈرائینگ روم، ٹی وی لاؤنج یابیڈ روم کے visuals کو براہِ راست کسی اور جگہ بیٹھ کر بھی دیکھا جا سکے گا۔ انکے کہنے کا مطلب تھا کہ گھر کے سمارٹ ٹی وی بھی ہیک ہو سکیں گے۔ سمارٹ ٹی وی کیساتھ لگا کیمرہ مکمل ویڈیوز بنا سکے گا جبکہ بالکل اسی طرح کا دعوی موبائل کے حوالہ سے بھی کیا گیا تھا کہ مستقبل میں ہمارا سمارٹ فون ہماری ہی جاسوسی کیلئے استعمال ہوسکے گا۔ اگر ہم اپنا سیل فون بند (Switch off) بھی کر دیں تب بھی موبائل آپکی لوکیشن بتا رہا ہوگا کہ آپ کہاں بیٹھے ہیں، کس کے ساتھ بیٹھے ہیں اور کیا گفتگو چل رہی ہے لیکن یہ اس صورت ممکن ہو گا جب آپ دونوں کے پاس موبائل فونز ہوں۔ خان صاحب کی حالیہ تقریر اور بیان سننے کے بعد میرے ذہن میں حرف بحرف وہ تمام الفاظ گونج رہے تھے جو ہم نے بیس سال قبل اس کانفرنس میں سن رکھے تھے۔ خان صاحب کیا کہتے ہیں کہ ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کے زریعے انکی آڈیوز اور ویڈیوز کو ایڈٹ کیا جا رہا ہے لیکن اس ضمن میں میرا خیال زرا مختلف ہے یا یوں کہہ لیں میں ان کے دعویٰ سے مطمئن نہیں کیونکہ آپ ایک وقت آواز کی ایڈیٹنگ تو کر سکتے ہیں لیکن آپ کیلئے یہ ممکن نہیں ہے کہ آپ چہرے اس طرح ایڈٹ کریں کہ اس میں اصل کیرکٹرز کو ہی تبدیل کر دیا جائے۔ ایسی بھونڈی حرکت ہمیشہ پکڑی گئی۔ ٹیکنالوجی کی ترقی کا عالم تو یہ ہے کہ پولی گرافک ٹیسٹ کے زریعے سچ و جھوٹ کی نشاندہی ممکن ہوچکی ہے۔ چلیں خیر ہم اپنے موضوع پر آگے بڑھتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ مختلف الیکٹرانک گیجٹس کی طاقت کو یکجا کرکے وزیراعظم ہاؤس و دیگر اہم مقامات کی آڈیوز اور ویڈیوز ممکنہ طور پر حاصل کی گئی ہوں گی جو کہ انتہائی شرمناک عمل ہے۔کافی دنوں سے اس حوالہ سے مختلف افواہیں مارکیٹ میں موجود ہیں جبکہ مبینہ طورپرجن ہیکرز نے یہ سازش کی تھی ان تک حساس ادارے پہنچ بھی چکے ہیں اور انہیں گرفتار بھی کیا جا چگا ہے۔   ان لِیک ہونیوالی آڈیو کالزاور ممکنہ ویڈیوز نے ہماری سیاست پر بہت بدنما داغ چھوڑے ہیں۔ ان حالات میں تمام سٹیک ہولڈرز کوسر جوڑکربیٹھنا ہوگاتاکہ پاکستان کو سری لنکا جیسے حالات سے روکا جا سکے۔ یہی پیغام ڈیپ سٹیٹ کیلئے بھی اہم ہوگا۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...