پاکستان اپنے انہوکھے تجربوں ، انہوکھے اعلانات ، انہوکھے طریقہ حکومت کیلئے مشہور ہے اس میں ایک تماشہ گزشتہ ہفتہ ہوا جو پارلیمانی تاریخ کا ایک انہوکھا مذاق تھا ، جہاں ایک شخص جس کی حکومت بدانتظامی کی بنا چلتا کردی گئی،اسمبلی کے منتخب اراکین نے پی ٹی آئی حکومت کو عدم اعتماد سے بے دخل کیا ہے۔ پی ٹی آئی کے اراکین نے جمہوری انداز میں ملک کی منتخب اسمبلی میںبیٹھنا گوارہ نہیں کیا ، متنازعہ استعفے دے دئے بقول پی ٹی آئی کے اکابرین کے وہ اس اسمبلی میں نہیں بیٹھے گے جو چورں ، غیرملکی ایجنٹوں، کرپٹ افراد کی ہے اس لئے سب ایماندار لوگ اسمبلی سے چلے گئے ، متنازعہ استعفے اس لئے تحریر کیا ہے وہ تمام مراعات ، تنخواہیں وصول کرتے ہیں مگر اسمبلی کا حصہ نہیں ،ان کا کہنا ہے کہ ہم کرپٹ لوگوں کے ساتھ نہیںبیٹھے گے ۔ عوام کے ٹیکسوںسے وہ تنخواہیں ضرور لینگے ۔ گزشتہ دنوں ہونے والا جمہوری نظام کے دعویدار ملک میں ضمنی انتخاب نہیں بلکہ ’’ضمنی تماشہ ‘‘تھا ، صرف اپنی مقبولیت کا چرچا کرنا مقصود تھا ، مقبولیت کے حوالے سابق وزیر اعظم عمران خان کی سوچ او ر انکی جیت پر مبارکباد تو دی جاسکتی مگر اسے جمہوری طرز عمل کیلئے فائدہ مند یا قابل تحسین ہرگز نہیں کہا جا سکتا۔ کروڑ عوام سیلاب سے بے گھر ہوچکے ہیں ، انکی آباد کاری کیلئے اربوںروپیہ درکارہے وہاں اس ضمنی مذاق کیلئے کروڑوں یا ارب روپیہ خرچ کیا جائے ، لگتا ہے جہاں پی ٹی آئی یا عمران خان کو اسکا خیال نہیں چونکہ وہ تو جلسوںپراس وقت بھی کروڑوں روپیہ خرچ کررہے ہیںجبکہ سیلاب سے تباہ حال لوگ کھلے میدان میں بیٹھے ہیں۔ حکومت کو فرصت نہیں کہ وہ نیب قوانین کی تبدیلی کے علاوہ کوئی قانون سازی کرے۔ چونکہ سب نیب ذدہ ہیں اور گزشتہ حکومت نے سابقہ نیب قانون کو اپنے مخالفین پر دبائو ڈالنے کیلئے استعمال کیا ۔ پی ٹی آئی کے جنرل سیکریٹری اسد عمر نے ارشاد کیا ہے کہ ’’عمران خان ان نشستوںپر جیت کر نہ ہی اسمبلی جائینگے ، نہ ہی حلف اٹھائیں گے۔ لگتا ہے مسلم لیگ ن نے اس ضمنی مذاق کو سنجیدہ نہیںلیا اور کئی نشستوںپر شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔ نقصان پی ٹی آئی کا بھی ہوا وہ اپنی دو نشستیں ہار بیٹھی یہ انتخابات دراصل ’’پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا ‘‘کی کامیابی تھی ، چونکہ دیگر جماعتوںکا سوشل میڈیا ہے ہی نہیںشنیدہے پاکستان مسلم لیگ ن کا ہے مگر پی ٹی آئی سوشل میڈیا کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔
پی ٹی آئی نے عمران خان کو مقبولیت سے فائدہ اٹھانے کیلئے میدان میں اتارا اور اب جبکہ وہ زیادہ سیٹوں پر جیت گئے ہیں تو اس کا نفسیاتی فائدہ عام انتخابات میں فتح کی صورت میں مل سکتا ہے اس لئے فوری انتخابات کا مطالبہ پارٹی کی طرف سے زور پکڑے گا۔ اس مقصد کیلئے لانگ مارچ کی تیاریاں پہلے سے جاری ہیں ، جسکی کامیابی کے کوئی آثار نہیں۔ حکومت اس کے برخلاف انتخابات مقررہ وقت پر کرانے کے موقف پر ڈٹی ہوئی ہے۔عمران خان کا کئی نشستوںپر انتخاب لڑنا شخصیت پسندی کو فروغ دینا اور گناہ بے لذت سے کم نہیں۔
ان کا انتخاب 6ماہ بعد کالعدم ہوجائینگے اور دوبارہ انتخابات کرانا پڑیں گے گویا اس ساری مشق میں قوم کا وقت اور پیسہ غارت جائے گا۔ الیکشن کمیشن نے تو آئینی تقاضے کی وجہ سے ضمنی انتخابات کرا دیئے ہیں مگر عمران کی اپنی سیاسی حکمت عملی ہے جس کی قیمت ریاست کو ادا کرنی پڑے گی۔ تحریک انصاف اس وقت ملک کی سب سے بڑی پارٹی سمجھی جاتی ہے۔ یہ اس پر لازم ہے کہ اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے قومی اسمبلی میں واپس جائے میانہ روی کا رویہ اختیار کرنے پر پی ٹی آئی کو فائدہ ہی پہنچے گا جبکہ انارکی کی طرف جانے سے نہ صرف ملک کو نقصان پہنچے گا بلکہ خود عمران خان اور پارٹی کی سیاست کو بھی زک اٹھانا پڑے گی۔ حکومت کے پاس اسحاق ڈار کی خدمات کے باوجود عوام کے مہنگائی کے مسائل حل نہ ہوسکے جس وجہ سے عمران خان کی مقبولیت میںفرق ہر گز کم نہیںہوسکتا۔ عمران خان نے ان انتخابات کو کھیل تماشہ سمجھ کر قومی خزانے کے کروڑوں روپے اور اپنے ووٹرز کے ووٹ ضائع کرائے تو پیپلز پارٹی اوربالخصوص مسلم لیگ(ن) بھی اس گناہ میں برابر کی شریک ہیں۔مسلم لیگ (ن) نے اپنے امید واروں کو صرف ٹکٹ جاری کیے اور پھر ان امیدواروں کو میدان میںچھوڑ دیا۔ عوام سے رابطہ رکھنے والی مریم نواز بھی والد سے ملنے چلی گئیں۔ مسلم لیگ(ن) کے ’’ووٹ کوعزت دو‘‘ کے بیانیے کا خود پارٹی قائدین نے حشر نشر کردیا۔ اگر ایسا ہی کرنا تھا تو پھر امیدواروں کو ٹکٹ ہی جاری نہ کرتے۔ سوائے پیپلز پارٹی کے باقی کسی کو بھی کوئی فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہی ہوا۔ یہ بھی محض غلط فہمی ہوگی کہ ان انتخابات کا پی ٹی آئی کو کچھ فائدہ ہوگا ، نوائے وقت کا اداریہ کا یہ مطالبہ کہ سیاست دانوں کو ایک سے زائد نشستوں پر انتخابات میں حصہ لے کر اپنی مقبولیت کا اعلان کرنے کا اتنا ہی شوق ہے تو پھر مذکورہ صورتحال کے تحت ضمنی انتخابات کے انعقاد پر خرچ ہونے والی تمام رقم مستعفی ہونے والے امیدوار سے لی جانی چاہیے اور تقریباً اتنی ہی مزید رقم ان سے بطور جرمانہ وصول کی جانی چاہیے بر وقت ہے ، قانون ساز ادارے پاکستان کے قانون ساز ادارے اس طرف توجہ دیں۔