کورکمانڈرز کانفرنس میں سٹرٹیجک اثاثوں  کے سکیورٹی انتظامات پر مکمل اعتماد کا اظہار 

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی سربراہی میں جی ایچ کیو راولپنڈی میں منعقدہ کورکمانڈرز کانفرنس میں پاکستان کے مضبوط نیوکلیئر کمانڈ اینڈ کنٹرول سٹرکچر اور ملک کے سٹرٹیجک اثاثوں سے متعلق سکیورٹی انتظامات پر گزشتہ روز مکمل اعتماد کا اظہار کیا گیا اور باور کرایا گیا کہ پاکستان جوہری ہتھیار رکھنے والی ایک ذمہ دار ریاست ہے جس نے اپنے جوہری سلامتی کے نظام کو مضبوط بنانے کیلئے بین الاقوامی بہترین طریقوں کے مطابق تمام ضروری اقدامات اٹھائے ہیں۔ آئی ایس پی آر کے مطابق 252ویں کورکمانڈرز کانفرنس میں ملک کی اندرونی و بیرونی سکیورٹی کی صورتحال اور فوج کی اپریشنل تیاریوں کا جامع جائزہ لیا گیا۔ کانفرنس کے شرکاء کو سیلاب سے متاثرہ علاقوں بالخصوص سندھ اور بلوچستان میں سیلاب کے بعد کی صورتحال‘ ریلیف اور بحالی کی کوششوں کیلئے سول انتظامیہ کو فوج کی معاونت کے حوالے سے آگاہ کیا گیا۔ آرمی چیف نے مادر وطن کیخلاف تمام خطرات کے دفاع کیلئے پاک فوج کے عزم کا اعادہ کیا اور ملک کے سٹرٹیجک اثاثوں سے متعلق سکیورٹی انتظامات پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا۔ 
دوسری جانب امریکی دفتر خارجہ کے ترجمان نے امریکہ میں تعینات پاکستانی سفیر مسعود خان اور امریکی محکمہ خارجہ کے قونصلر ڈیرک شولے کے مابین ملاقات کے بعد جاری کئے گئے اپنے بیان میں کہا ہے کہ امریکہ کو جوہری اثاثوں کی حفاظت کے حوالے سے پاکستان کے عزم اور صلاحیت پر اعتماد ہے۔ ڈیرک شولے امریکی وزیر خارجہ کے سینئر پالیسی مشیر بھی ہیں جنہوں نے پاکستانی سفیر سے ملاقات کے بعد اپنا پیغام ٹویٹ کیا اور کہا کہ پاکستان اور امریکہ کے مابین دیرینہ شراکت داری دونوں ملکوں کے عوام اور خطے کے مفاد میں ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے نائب ترجمان ویدانت پٹیل نے بھی اس حوالے سے اپنی پریس بریفنگ میں کہا کہ امریکہ ہمیشہ سے ایک محفوظ اور خوشحال پاکستان کو اپنے مفادات کیلئے اہم سمجھتا ہے۔ انکے بقول دونوں ممالک کے مابین ایک مضبوط شراکت داری پائی جاتی ہے جس کی امریکہ قدر کرتا ہے۔ 
یہ حقیقت ہے کہ 75 برس پر محیط پاک امریکہ تعلقات کے دوران پاکستان کو امریکہ کی جانب سے کبھی گرمجوش دوستی والا جذبہ امڈتا ہوا محسوس نہیں ہوا۔ پاکستان نے تو ہمیشہ امریکہ کے ساتھ دوستی کے بندھن مضبوط بنانے کی کوشش کی اور خطہ میں اسکے مفادات کی خاطر خود نقصان اٹھانے سے بھی کبھی گریز نہیں کیا مگر ہمارے ساتھ امریکہ کی دوستی ہمیشہ شکوک و شبہات کے لبادے میں ہی لپٹی رہی ہے۔ اس حوالے سے یہ کہنا بے جا نہیں کہ امریکہ کو ہمیشہ اپنے مفادات سے ہی سروکار ہوتا ہے جس کی بنیاد پر وہ دوسرے ممالک کے ساتھ دوستی یا دشمنی کے معیارات مقرر کرتا ہے۔ جس کے ساتھ اس کا جتنا مفاد وابستہ ہوگا وہ اتنا ہی اسکے قریب ہوگا جبکہ مفادات کی تکمیل کے ساتھ ہی وہ اپنے کسی بھی دوست ملک کے ساتھ طوطا چشمی میں ذرہ بھر دیر نہیں لگائے گا۔ پاکستان کے ساتھ تو امریکہ کا ہمیشہ بداعتمادی اور شکوک و شبہات والا تعلق ہی رہا ہے جس نے نہ سوویت یونین کے ساتھ اپنی سرد جنگ کے دوران پاکستان کی معاونت کی قدر کی اور نہ ہی اپنے مفادات پر مبنی افغان جنگ میں پاکستان کو اپنا فرنٹ لائن اتحادی بنانے کے باوجود اس پر کبھی اعتماد کیا۔ اسکے برعکس اس نے پاکستان سے ہمیشہ ڈومور کے تقاضے جاری رکھے جن کی تعمیل کرتے کرتے پاکستان نے اپنی سرزمین اجاڑ لی اور اپنے ہزاروں بے گناہ شہریوں بشمول سکیورٹی اہلکاروں اور افسران کی جانوں کی قربانی دیدی مگر ہمارے لئے امریکی جبینوں پر اطمینان اور سرشاری کی کبھی کوئی رمق نظر نہیں آئی۔ 
اسی طرح جوہری ٹیکنالوجی کے حوالے سے بھی پاکستان کے ساتھ امریکہ کا رویہ ہمیشہ مناقشانہ رہا ہے اور باوجود اسکے کہ پاکستان بھارتی جارحانہ کارروائیوں اور عزائم کے پیش نظر محض اپنے دفاع کیلئے جوہری ٹیکنالوجی حاصل کرنے پر مجبور ہوا تھا۔ امریکہ نے ہمیشہ بھارت کی ہی حوصلہ افزائی اور سرپرستی کی اور اسکے ساتھ جدید ایٹمی ہتھیاروں کے معاہدے کرکے اسکے ہاتھوں علاقائی اور عالمی امن کیلئے بھی خود ہی خطرات پیدا کئے۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ اس خطے میں صرف بھارت کی ایٹمی ٹیکنالوجی غیرمحفوظ ہے جہاں ایٹمی یورینیم عام آدمی کے ہاتھوں تک پہنچ کر باقاعدہ فروخت بھی ہوتا رہا ہے جبکہ بھارت کے متعدد ایٹمی پلانٹس میں آتشزدگی کے واقعات بھی رونما ہوچکے ہیں۔ بھارتی ایٹمی ٹیکنالوجی سے علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کے برباد ہونے کے خطرات کا اس سے بڑا عندیہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ رواں سال کے آغاز میں بھارت کا ایک ایٹمی میزائل پاکستان میں آگرا تھا جو بھارت کے بقول راستہ بھول گیا تھا مگر امریکہ کو کبھی بھارت کی جانب سے ایٹمی پھیلائو اور تباہی کا کوئی خطرہ محسوس نہیں ہوا کیونکہ امریکہ اس خطے سے وابستہ اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے خود بھارت کو علاقے کی تھانیداری سونپنے کی فضا ہموار کررہا ہے۔ اسکے برعکس پاکستان نے بھارتی ایٹمی دھماکوں کے جواب میں ایٹمی دھماکے کرکے دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت ہونے کا اعلان کیا تو امریکہ نے اسے دنیا میں تنہاء کرنے اور اس پر اقوام متحدہ کے ذریعے عالمی اقتصادی پابندیاں لگوانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ 
ایٹمی ٹیکنالوجی کے حوالے سے ایسا ہی معاندانہ رویہ امریکہ نے ایران کے ساتھ بھی اختیار کیا جسے آج بھی عالمی اقتصادی پابندیوں کا سامنا ہے۔ اسکے برعکس امریکہ ایٹمی ٹیکنالوجی کے حصول و توسیع کیلئے بھارت اور اسرائیل کی کھلے عام سرپرستی کرتا ہے تو یہ اسکی مسلم اور غیرمسلم دنیا کیلئے الگ الگ ترجیحات کا ہی عکاس ہے۔ 
اس وقت جبکہ پاکستان کی جانب سے امریکہ کے ساتھ اعتماد کی بحالی کی کوششیں جاری تھیں اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کے دورۂ امریکہ سے پاک امریکہ سازگار تعلقات کیلئے پیش رفت ہو رہی تھی‘ امریکی صدر جوبائیڈن نے پاکستان کی ایٹمی ٹیکنالوجی کے حوالے سے بے سروپا تحفظات کا اظہار کرکے پاک امریکہ تعلقات میں خود ہی مزید دراڑیں پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ امریکی صدر کے اس بیان پر پاکستان کے فوری اور سخت ردعمل کے باعث اگرچہ اب امریکی دفتر خارجہ کی جانب سے متذکرہ بیان کے منفی اثرات کو زائل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے تاہم امریکی صدر نے بذات خود کسی قسم کی وضاحت کی ضرورت محسوس نہیں کی اور اسکے برعکس امریکی دفتر خارجہ کی جانب سے باور کرایا جارہا ہے کہ امریکی صدر کا بیان درحقیقت امریکی عمومی پالیسیوں کا ہی تسلسل ہے۔ اس سے آئندہ کیلئے بھی امریکہ سے پاکستان کے معاملہ میں کسی خیر کی توقع نہیں کی جاسکتی اس لئے اب امریکی رویہ اس امر کا متقاضی ہے کہ پاکستان ایک آزاد اور خودمختار ریاست کی حیثیت سے اپنی قومی خارجہ پالیسی پر نظرثانی کرے اور اسے ملکی سلامتی اور قومی مفادات کے تقاضوں کے ہم آہنگ بنائے۔ اگر امریکہ اور دوسرے ممالک کو اپنی سلامتی کیلئے کوئی بھی پالیسی متعین کرنے کا حق حاصل ہے تو ہمیں کیوں نہیں۔ اس تناظر میں اپنی قومی پالیسیوں کی سمت درست کرنے کا یہی وقت ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن