کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ جس بات کا امکان نہ ہو وہ بات بھی ہو جاتی ہے اور یہ بات بھی درست ہے کہ زندگی اگر ہو تو ملاقات بھی ہو جاتی ہے۔ ورجن اٹلانٹک کی فلائٹ VS364 ہیتھرو سے لاہور کیلئے تیار تھی‘ اپر کلاس مسافروں کو لائونج میں جہاز میں جانے کی آخری اطلاع دی جارہی تھی۔ یہ اعلان سنتے ہی مسافر اپنے گیٹ کی جانب روانہ ہونے لگے۔ اسے آپ میرا تجاہل عارفانہ کہہ لیں کہ اپنے کسی بھی ہوائی سفر کے دوران میں بھاگ کر جہاز میں سوار نہیں ہوتا‘ جہاں میں سوار ہونے کی آخری اطلاع کا انتظار کرتا ہوں‘ اس اچھی یا بری عادت کی بنیادی وجہ لائونجز میں متعین سٹاف کا حسن سلوک اور مفت اخبارات کا مطالعہ کرنے کا چسکا مجھے ضرور پورا کرنا ہوتا ہے۔
مسافروں کے آخری بلاوے پر میں اپنی لائونج سیٹ سے اٹھا اور جہاز میں اپنی سیٹ پر بیٹھا ہی تھا کہ سامنے سے پنجاب کے وزیراعلیٰ چودھری پرویز الٰہی مسکراتے ہوئے نظر آئے اور میری ساتھ والی نشست 2G پر براجمان ہو گئے۔ کئی برس قبل ان سے ملاقات ہو چکی تھی اس لئے انہوں نے پہچان لیا۔ چودھری صاحب کے سیکرٹری اور ایک عہدیدار اب آمنے سامنے تھے۔ مجھے لگا کہ چودھری صاحب کی طبیعت سو فیصد ٹھیک نہیں‘ انہیں ادویات دینے والی خاتون بھی سامنے تھیں۔ خیریت معلوم کی اور اس اچانک ملاقات پر ان سے ملک کی بدلتی سیاسی صورتحال پر ہلکے پھلکے سوالات کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ چودھری پرویز الٰہی صاحب نے دوبارہ مسکراتے ہوئے کہا کیوں نہیں؟ آپ سے ضرور بات چیت ہو گی کہ ڈنر کے بعد ہمارے پاس وقت ہی وقت ہے۔ اسی خواہش کا میں نے انکے سیکرٹری سے بھی اظہار کیا ۔ جہاز اب محو پرواز تھا۔ ایک گھنٹہ کا سفر مکمل کرنے کے بعد ہم آسٹریا اور جرمنی کی جانب رواں دواں تھے۔
میں نے محسوس کیا کہ چودھری صاحب وقفے وقفے کے بعد پانی کے گلاس کیساتھ اپنی ادویات کھانے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھے۔ پوچھا تو کہنے لگے معمول کا حصہ ہے۔ ان ادویات میں زیادہ پانی پینا بھی شامل ہے۔ ہیتھرو سے طیارے کو روانہ ہوئے تقریباً دو گھنٹے ہو چکے تھے۔ چودھری صاحب کو جو ٹی وی پر کوئی پروگرام دیکھنے میں اب مشغول تھے‘ میں نے پھر یاد دہانی کروائی کہ ہلکی پھلکی بات چیت کا آغاز کب کیا جائے۔ ضرور ضرور‘ بس کھانے کے بعد۔ میں مطمئن تھا کہ نشست میں ہم چونکہ ایک دوسرے کے آٹھ گھنٹے کے ہمسائے بھی ہیں اور طیارہ یوں بھی چودھری صاحب کے صوبہ کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر اتر رہا ہے اس لئے ملک کی بدلتی سیاسی صورتحال پر گفتگو اگر زیادہ نہیں تو ان عوامل پر ضرور کی جاسکے گی جن کی وجہ سے ملک میں سیاسی ٹکرائو کی صورت پیدا ہو رہی ہے۔ میں نے اپنے ذہن میں اب مختلف مگر مختصر سوالات کا ایک خاکہ تیار کرلیا تھا۔ سوچ رہا تھا کہ پہلا سوال جو غیرسیاسی بھی ہوگا‘ اپنی قومی ایئرلائن پی آئی اے کی یورپی ممالک کی بحالی سروس کے بارے میں کروں گا اورچودھری پرویز الٰہی صاحب سے یہ ضرور پوچھوں گا کہ ہم باکمال لوگوں کی اس لاجواب سروس کو آخر کس کی نظر بد لگی ہے؟ دوسرا سوال یہ پوچھوں گا کہ برطانوی دورہ کے مقاصد کیا تھے۔ علاج کی غرض سے آپ یہاں آئے یا آپکی کوئی اور غیرسیاسی مصروفیات تھیں؟ تیسرا سوال کہ ملک کی سیاسی جنگ لڑنے والے عمران خان صاحب سے آپکی کولیشن کا عرصہ آخر کب تک قائم رہے گا؟
میں یہ بھی جاننا چاہوں گا کہ مسلم لیگ (نون) کے حکومت پنجاب تبدیل کرنے کے فیصلے میں کہاں تک صداقت ہے؟ سوال یہ بھی پوچھوں گا کہ سالانہ دو اعشاریہ 8 ملین پونڈ بھجوانے والے اوورسیز پاکستانیز جنہیں بالعموم ’’بیچارے‘‘ بھی کہا جاتا ہے‘ کہاں کھڑے ہیں؟ یہاں تک سوچ پایا تھا کہ رات کے کھانے کے اعلان کے ساتھ ہی طیارے کی کیبن کی روشنیاں جلا دی گئیں۔ میں‘ چودھری صاحب اور دیگر مسافر کھانے سے اب فارغ ہو چکے تھے۔ اگلا لمحہ اب پانچ گھنٹے آرام کرنے کا تھا۔ سوچا چودھری صاحب کو پھر یاددہانی کروادوں۔ چودھری صاحب پھر مسکرائے اور اپنی دوائی لی اور کہا‘ آپ بالکل مطمئن رہیں‘ بس دوائی لے لی ہے۔ تھوڑی دیر بعد ہم بات چیت کرتے ہیں۔ میں شکریہ کے ساتھ پھر مطمئن ہو گیا مگر میری چھٹی حس نہ جانے اب کیوں میری ہم خیال نہیں ہو پا رہی تھی۔ عزت مآب چودھری صاحب مجھے کہیں سیاسی تسلی تو نہیں دے رہے؟
میرے صحافیانہ ذہن سے سوال اٹھا مگر میں نے اسے اپنا وہم تصور کیا۔ آرام کے پانچ گھنٹے بھی اب گزر چکے تھے اور جہاز کی کھڑکیوں سے صبح کی روشنی نظر آنے لگی تھی۔ 35 منٹ بعد ہم لاہور کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر اترنے والے تھے۔ موقع ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا۔ چودھری صاحب کو پھر یاددہانی کرائی۔ وہ پھر مسکرائے‘ ایئرپورٹ پر اترتے ہی بات کرلیتے ہیں۔ چودھری صاحب نے پھر مجھے سیاسی دلاسہ دیا۔ اور یوں مجھے بطور کالم نگار معلوم ہو گیا کہ کسی بھی سیاست دان سے سوال کے بجائے اس سے اگر محض مسکراہٹ پر ہی اکتفا کرلیا جائے تو سوالات پوچھنے کی نوبت ہی نہیں آتی۔
ورجن اٹلانٹک 364 لینڈ ہو چکا تھا۔ وزیراعلیٰ پنجاب اور میں یکے بعد دیگرے جہاز سے اترے‘ چودھری صاحب پھر مسکرائے اور اپنے پروٹوکول افسر کے ہمراہ اپنے مخصوص ایگزٹ سے اور میں بطور برطانوی پاکستانی‘ عوامی راستے‘‘ سے ایف آئی اے امیگریشن اور پی سی آر ٹیسٹ کے بغیر اطلاعاتی نوٹس کی جانب سٹاف کی توجہ مبذول کرواتے ہوئے اس سوچ کے ساتھ کہ برطانوی پاکستانیوں کی نئی نسل اپنے آباواجداد کے اس وطن میں آکر کیا واقعی مسکرا سکے گی؟ ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی چھ اور دو صوبائی نشستوں پر کامیابی البتہ اوورسیز پاکستانیوں کی بڑی تعدادکے چہروں پر مسکراہٹیں ضرور بکھیر رہی ہے۔