ملتان ؛
میاں غفاراحمد
ان سطور میں گزشتہ ہفتے اور اس سے قبل لکھا جاچکا تھا کہ یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی موسی گیلانی مخدوم شاہ محمود قریشی کی بیٹی مہر بانو قریشی کے مقابلے میں ہار جائیں گے کیونکہ یوسف رضا گیلانی کا بیانیہ اور ملتان میں بطور وزیراعظم کئے گئے ترقیاتی کام اہل ملتان کو یاد ہیں وہاں مخدوم شاہ محمود قریشی اور ان کے بیٹے کا ووٹرز کو نظر انداز کرنا بھی بخوبی یاد ہے اور عوام یہ بھی جانتے ہیں کہ کون ان سے رابطے میں رہتا ہے اور کس کو ملنا مشکل ہی نہیں نہ ممکن بھی ہے۔ جب سارا تقابلی جائزہ عوام کے سامنے تھا تو پھر علی موسیٰ کی جیت یقینی تھی سابق وزیر اعظم عمرا ن خان اگر اس حلقے میں خود کھڑے ہوتے یا پھر پی ٹی آئی کے کسی بھی متحرک ورکر کو ٹکٹ جاری کر دیتے تو رزلٹ خاصے مختلف ہوتے۔ ڈیرہ غازیخان میں گزشتہ ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی کے امید وار سردار سیف الدین کھوسہ نے بھاری اکثریت سے عبدالقادر کھوسہ کو شکست دی عبدالقادر مسلم لیگ ن کا امیدوار تھا اور ڈیرہ غازیخان کے امجد فاروق کھوسہ کو ہرانا ہر دور ہی میں مشکل ہوتا تھا۔ شکست کے بعد عبدالقادر کھوسہ نے کہاکہ اگر عمران خان یہاں کے کسی عام سے بندے کو بھی ٹکٹ جاری کردیتے تو وہ بھی کامیاب ہو جاتا۔ حالیہ نتائج سے یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ عبوری سیاست میں بہت سی تبدیلیاں آچکی ہیں اور عوام نے خود کو گلی سیوریج اور سڑک کے نام پر ووٹووں کی سوچ سے بہت آگے بڑھالیا ہے۔ علاقائی سوچ قومی سوچ میں تیزی سے تبدیل ہو چکی ہے اور مسلم لیگ کا بیانیہ مات کھا چکا ہے اور سیاسی شعور کے حوالے سے عوام میں بہت زیادہ تبدیلی آ چکی ہے ہاتھ باندھ کر ووٹ مانگنے کی روایت دم توڑ گئی ، ہاتھ اٹھانے اور بات کا بتنگڑ بنانے والے غالب آ رہے ہیں۔
آج تک تو یہی سن رکھا تھا کہ اسلحہ سماج دشمن عناصر یا کسی بدقماش کے ہاتھ میں امن عامہ کی تباہی ہے اور یہی اسلحہ امن پسندوں کے ہاتھ میں ہو تو قوم کا محافظ ہے۔ مگر ساہیوال میں دن دیہاڑے باوردی پولیس والوں نے چوک میں محض موٹر سائیکل ٹکرانے پر نوجوان کو گولیاں مار کر موقع پر ہی موت کے گھاٹ اتار دیا۔ یہ ساہیوال تو پرامن خطہ تھا اور یہاں تو شرافت کی حکمرانی تھی اس قسم کے سانحات ساہیوال میں کیوں جنم لے رہے ہیں پہلے لاہور سے جانے والا پورا خاندان پولیس کی گولیوں کا نشانہ بن جاتا ہے کیونکہ کہ قادر آباد ٹول پلازہ سے ہر وین کو پولیس کے وہ شیر جوان دیکھتے ہیں کہ گاڑی میں بس خواتین اور بچے سوار ہیں مگر پھر بھی چاروں طرف سے گولیوں نے گاڑی اور اس کے اندر بیٹھے شہریوں کو چھلنی کر دیا جاتا ہے۔میں نے از خود تھانہ یوسف والا میں وہ گاڑی دیکھی تو میں ساہیوال پولیس کی سفاکیت کو آج تک بھول نہ سکا اوپر سے یہ تازہ سانحہ ہوگیا۔ آخر کارکیا ہوگا، ایک نوجوان ہی تو ہلاک ہوگیا، صلح ہو جائے گی کہ اب پاکستان میں یہ رواج پڑ چکا ہے کہ ایک عام ملازم کی سنگین غلطی بلکہ جرم پر بھی سارا محکمہ اس کی پشت پناہی شروع کر دیتا ہے اور انفرادی مسئلہ ادارہ جاتی مسئلہ قرار پاجاتا ہے۔
نشتر میڈیکل یونیورسٹی کی چھت پر پر لاشوں کا معاملہ کوئی ایک دن کا نہیں بلکہ یہ سلسلہ تو سالہا سال سے بلکہ کم از کم چار دہائیوںسے جاری ہے۔ سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ ہسپتال سے ملحقہ بہت بڑے قبرستان میں لاوارث لاشوں کی تدفین کا الگ سے احاطہ موجود ہے مگر کون تردد کرے؟ لوگ اپنے انجام کو بھول چکے ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ مردہ خانہ کی انتظامیہ اور اعلی حکام کے نوٹس میں یہ بات نہ ہو۔ اب تو سوشل میڈیا کا دور ہے حالانکہ یہی معاملہ اخبارات آج سے بیس سال پہلے اجاگر کرچکے ہیں تب بھی بہت شور مچا تھا ایکشن بھی ہوا تھا اور چند سالوں کے لئے معاملہ دب گیا تھا مگر دوبارہ شروع ہوگیا کہ انسانی ہڈیوں کے پنجر سر وہیں پر بک جاتے ہیں اور میڈیکل کے طالب علم ہی ان کی خریداری کرتے ہیں۔پھر روپے پر کونسا لکھا ہوتا ہے کہ حلال ہے یا حرام۔نوٹ تو نوٹ ہے بس جیبیں بھرنی چاہئیں۔ یہ روپیہ پیسہ ظلم کی مد میں کمایا گیا یا انصاف کے کھاتے میں اور پھر سفاکیت سے حاصل کیا گیا ہے یا رحمدلی سے ، نوٹ تو نوٹ ہے بس اپنی اپنی اڑان کے مطابق میسر آنا چاہیے کسی بھی طریقے سے آئے۔ہماری کئی دہائیوں کی سیاست نے اسی سوچ کو پروان چڑھایا ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر سوچ کی کرپشن نے ہمارے ذہنوں کو بھی اس کا اسیر کر لیا ہے۔
جنوبی پنجاب میں سارے کا سارا انفراسٹرکچر تباہ ہو چکا ہے موٹروے کے علاوہ دیگر شاہرات پر کسی بھی قسم کی کوئی توجہ نہیں سڑکوں کی مرمت کی رقم کہاںخرچ ہوتی ہیں کسی کے علم میں نہیں۔ جن محکموں نے تحقیق کرنی ہے وہ اپنا اپنا حصہ لے کر خاموش ہو جاتے ہیں ملتان وہاڑی روڈ جو کہ کبھی ملتان دہلی روڈ ہوا کرتی تھی بہت ہی بری طرح ٹوٹ پھوٹ چکی ہے اور کئی سال سے اس پر مرمت کی مد میں ایک روپیہ بھی عملی طور پر خرچ نہیں ہوا البتہ کاغذوں اور سرکاری ریکارڈ میں مرمت ہوئی ہو توکچھ کہا نہیں جاسکتا کیونکہ فرضی بلوں کی ادائیگی کسی بھی دور میں کم نہ ہو سکی حتیٰ کہ تمام تر وعدوں کے باوجود عمران خان کی حکومت میں بھی یہ سلسلہ نہ رک سکا ملتان سے چوک میتلا سڑک کا اتنا برا حال ہے کہ آئے روز حادثات ہو رہے ہیں یہی صورت حال مظفر گڑھ علی پور ہیڈ پنجند روڈ کی ہے جو کہ نیشنل ہائی وے کا درجہ رکھتی ہے مگر تباہ حال ہے ملتان میانوالی ڈیرہ غازی خان تونسہ- ڈیرہ غازی خان راجن پور روڈ جو کہ انڈس ہائی وے کہلاتی تھی جگہ جگہ سے ٹوٹ چکی ہے مگر مرمت کا نام و نشان نہیں۔ حکومت کی ترجیحات کیا ہیں فی الحال تو اس بارے میں کچھ بھی کہا نہیں جا سکتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔