معصوم امیدوں کی چھوٹی سی کہانی

کل اکتوبر کی 21 تاریخ ہے اورکل سابق وزیراعظم نوازشریف چار سال کی جلاوطنی کاٹ کر وطن واپس آرہے ہیں۔ کل ہی انہوں نے لاہور میں جلسے سے خطاب کرنا ہے۔ بیچ میں محض ایک دن رہ گیا‘ لیکن حلقہ اربابِ حقیقی آزادی بدستور پرامید ہے کہ عین آخری لمحات میں نوازشریف کی واپسی ملتوی ہو جائے گی۔ حلقے سے تعلق رکھنے والے میڈیا پرسن ”ذرائع“کا حوالے دیتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر نوازشریف آ بھی گئے تب بھی جلسے سے خطاب نہیں کر سکیں گے کیونکہ ذرائع کے مطابق جلسے میں بہت کم لوگ آئیں گے اور نوازشریف ناراض ہوکر خطاب کا ارادہ بدل دیں گے۔
................
حلقہ اربابِ حقیقی سے تعلق رکھنے والے میڈیا پرسنز کا لہجہ خاصا بدل گیا ہے۔ سال گزشتہ میں اپریل کی آمد آمد تک ان کے لہجے میں ”کسی کے باپ“ پر بہت زور ہوتا تھا۔ جیسے کہ کسی کا باب بھی تحریک عدم اعتماد کامیاب نہیں کرا سکتا۔ تحریک کی کامیابی کے بعد فقرہ یوں بدل گیا کہ دیکھ لیں‘ کسی کا باپ بھی عمران کو واپسی سے نہیں روک سکتا۔ یا یہ کہ کسی کا باپ بھی خان صاحب کو اسلام آباد‘ پنڈی پر قبضے سے نہیں روک سکتا۔ ہوتے ہوتے بات عدالتی فیصلے پر پہنچی۔ وہ فیصلہ جس میں 15 مئی کو الیکشن کرانے کا آرڈر ہتھوڑا بجا کر پاس کیا گیا تھا۔ بیرسٹر عمران احسن‘ معاف کیجئے گا اعتزاز احسن کا مولا جٹ کے انداز میں بولا گیا وہ فقرہ کانوں کو بہت بھلا لگا کہ ان کا باپ بھی اب 15 مئی کو الیکشن کرائے گا۔
الیکشن تو نہیں ہوئے البتہ خان صاحب کی گرفتاری کی خبریں گردش کرنے لگیں۔ حلقہ ارباب حقیقی آزادی کے میڈیا پرنسز کا تکیہ کلام اب یوں ہو گیا کہ کسی کا باپ بھی خان کو گرفتار نہیں کر سکتا۔ گرفتار کرنا تو دور کی بات‘ ہاتھ تک نہیں لگا سکتا‘ لیکن ہوا کچھ یوں کہ خان کوگرفتار بھی کیا گیا اورانہیں ہاتھ بھی لگا دیا گیا۔ جڑ دیا گیا‘ ایسے زور سے کہ موصوف اپنی زخمی ٹانگ کو بھول کر وہیل چیئرکو وہیں چھوڑ کر تقریباً دوڑتے ہوئے .... وین میں جا بیٹھے۔
اگرچہ یہ گرفتاری ایک دن کی تھی۔ عمر عطا بندیال نے شاہی گاڑی بھیج کر انہیں اپنی عدالت آنے کی دعوت دی اور پھر ان کی آمد پر سر تا پا ”سیاسی فائدہ“ بن کر ان کا خیرمقدم کیا اور کچھ اس طرح کے احکامات کا سلسلہ ان کی عدالت سے پھر ماتحت عدلیہ سے جاری ہوا کہ لگا‘ خان صاحب کو تاحیات ضمانت مل گئی ہے۔
................
اس تاحیات ضمانت کی عمر البتہ تھوڑی رہی۔ اس دوران حلقے کے میڈیا پرسن یہ کہتے ہوئے پائے گئے کہ گرفتاری کا انجام دیکھ لیا۔ اب کسی کا باپ بھی یہ غطی دہرانے کی جرات نہیں کرے گا اور اگر کی تو کسی کا باپ بھی دسیوں کروڑ افراد کو سڑکوں پر آنے اور انقلاب برپا کرنے سے نہیں روک سکے گا۔
خیر 5 اگست کو دوسری بار ”ہاتھ“ لگانے کی جرات کر ڈالی گئی۔ اس دوران ہلکی پھلکی ہاتھاپائی ہوئی اور بلٹ پروف شیشہ غسلخانے کا بھی ٹوٹا۔ ملک بھر میں معاملہ حسب معمول رہا۔ کوئی بطور خاص سڑکوں پر نہیں آیا۔ تب سے ان میڈیا پرنسز کا لہجہ بدل گیا۔ ان کے ”تکلم“ سے ”کسی کے باپ“ کا تکیہ کلام ایسے غائب ہوا جیسے سیاست کے میدان سے باپ پارٹی۔ تکیہ کلام کی جگہ ”ذرائع“ نے لے لی۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ معافیوں پر اتر آئی ہے۔ ذرائع کہتے ہیں کہ بالآخر‘ بالآخر اور آخرکار خان سے بات تو کرنا پڑے گی۔
یہ بالآخر اور آخر کار تو نہ جانے کب آئے گا‘ لیکن اس دوران خان صاحب کی طرف سے چھ سات بار سلسلہ ہائے جنبانی شروع کئے گئے کہ ”کوئی مجھ سے بات کر لو“ تازہ اپیل دو روز قبل کی گئی اور چوروں، ڈاکوﺅں تک یہ التجا پہنچائی گئی کہ خان صاحب چاہتے ہیں کہ آپ ان سے بات کر لیں۔ 
یہ تمام سلسلہ ہائے جنبانی 50 فیصد کامیابی سے ہمکنار ہوئے ہیں۔ یعنی خان صاحب تو مان گئے، وہ نہیں مان رہے۔ اتفاق سے اسی مفہوم کی سرخی والی خبر اسی سلسلہ ہائے جنبانی سے متعلق ایک اخبار میں کل ہی شائع ہوئی ہے۔ 
______
حلقہ اربابِ حقیقی آزادی کا دوسرا تکیہ کلام ”ٹرمپ کا پتہ“ ہے۔ ان کے مطابق خان صاحب ہر دوسرے روز ٹرمپ کا پتہ یا ماسٹر کارڈ کھیلتے ہیں جس سے اسٹیبلشمنٹ میں کھلبلی مچ جاتی ہے۔ 
تادمِ تحریر آخری یا تازہ ترین ٹرمپ کا پتہ انہوں نے تین روز قبل کھیلا جب انہوں نے جیل حکام سے بوساطت عدلیہ اپنے لئے ورزش کی سائیکل مانگ لی۔ ذرائع کے مطابق اس ٹرمپ کارڈ پر اسٹیبلشمنٹ میں پہلے سے کہیں زیادہ کھلبلی مچی اور پے درپے اعلیٰ سطح کے اجلاسوں کے بعد ہار مان لی گئی اور خان صاحب کو سائیکل مل گئی۔ حلقہ ارباب حقیقی آزادی اب تین دن ہو گئے، خوشی سے پھولے ہی نہیں سما رہے، کہا تھا ناں، خان کو کوئی نہیں ہرا سکتا۔ 
______
بہرحال ، نواز شریف اب آ رہے ہیں اور اس حالت میں آ رہے ہیں کہ چار دوست ممالک کی آشیرباد انہیں حاصل ہے۔ چوتھا ان میں ترکی ہے جس سے ہمارا بیشتر خیرسگالی کا رشتہ ہے‘ لیکن باقی تین ممالک سے معاملہ خیرسگالی سے آگے کا ہے یعنی مالیاتی تعاون کا۔ 
پاکستان کو ان تینوں ممالک سے ان دنوں بھاری بھرکم مالیاتی تعاون بڑی شدّت کے ساتھ نیک مطلوب ہے اور ان تین ممالک نے کہا ہے کہ ہمیں اتنی ہی شدّت سے نواز شریف کی واپسی نیک مطلوب ہے۔ چار سال ہمارے اقتصادی تعاون کا ”ھلواڑہ“ کیا گیا، اب مزید مدد تبھی ملے گی جب آپ پکّی ضمانت دیں گے۔ پکّی ضمانت کا ترجمہ فی زمانہ نواز حکومت کہا جاتا ہے۔ 
دریں اثنا حلقہ ارباب ذوق کے امید پرستوں نے یہ امید باندھ لی ہے کہ وزیر اعظم کوئی اور ہو گا۔ یعنی: 
اوّل تو نواز شریف آئیں گے نہیں، آخری وقت میں واپسی منسوخ ہو جائے گی۔ آ گئے تو جلسے سے خطاب نہیں کریں گے۔ خطاب کر بھی دیا تو فائدہ کچھ نہیں ہونا کہ الیکشن تو سرے سے ہونے ہی نہیں ہیں اور ہو گئے تو نواز شریف جیت نہیں سکیں گے، ترین کی پارٹی جیتے گی اور اگر نواز شریف جیت بھی گئے تو بھی وزیر اعظم نہیں بن سکیں گے۔ اسٹیبلشمنٹ شہباز شریف کو وزیر اعظم بنا دے گی
معصوم امیدوں کی 
اتنی سی کہانی ہے۔
______
وفاق اور تین صوبوں کی حکومتیں انتخابات کی تیاریوں میں اور چوتھے صوبے کی حکومت کسی اور ہی کام میں مصروف ہے کام کیا، مشن ہی سمجھئے اور مشن کون سا، تعلیم مکاﺅ مشن۔ صوبے بھر کی پولیس صوبے بھر کے ٹیچروں کے پیچھے پڑی ہے۔ راتوں کو چھاپے مار کر اساتذہ کو گرفتار کیا جا رہا ہے۔ اس دوران پولیس کے ”حسن سلوک“ سے بعض گھریلو خواتین بے ہوش بھی ہو گئیں۔ کوئی بات نہیں، بے ہوش ہی ہوئی ہیں، کون سا مر گئیں۔ 
مطلوب اس مشن کا یہ ہے کہ سرکاری تعلیمی ادارے بند کر کے رکھیں۔ انہیں ”پرائیویٹ تعلیمی مافیا“ کے سپرد کیا جائے تاکہ ان کی اربوں روپے ماہانہ کی حقیر آمدنی میں مزید اربوں روپے کا حقیر اضافہ ہو سکے۔ غریب اور مڈل کلاس بچے تعلیم حاصل کرنے کا خواب تک نہ دیکھ سکیں۔ اللہ پنجاب حکومت کا بھلا کرے۔

ای پیپر دی نیشن