باز گشت ....طارق محمود مرزا
tariqmmirza@hotmail.com
فلاحی ریاست سے مراد ریاست کا وہ تصوّر ہے جس میں ایک ریاست تمام شہریوں کو تحفظ فراہم کرتی ہے اور شہریوں کی بہتری کی ذمہ داری لیتی ہے۔ ایک فلاحی ریاست اپنے شہریوں کے جانی و مالی تحفظ کو اولین ترجیح قرار دیتی ہے اور اس کے لیے ٹھوس اقدامات کرتی ہے۔ ایک ریاست اپنے شہریوں میں کسی قسم کا امتیاز نہیں کرتی خواہ وہ لسانی، مذہبی، علاقائی امتیاز ہو یا اقتصادی و معاشرتی امتیاز ہو۔ پرانے زمانے میں ریاستیں صرف حکمرانوں کے مفاد تک محدود ہوا کرتی تھیں لیکن پھر آہستہ آہستہ وقت کے ساتھ ایسے روشن خیال انسان پیدا ہوئے جنھوں نے ریاست میں نئے تصورات پیش کیے جس سے انسانی زندگی میں بہتری آئی۔ انھوں نے ریاست کے نظام کو از سر نو ترتیب دیا اور لوگوں کے اور ریاست دونوںکے حقوق وضع کیے۔ انسان میں جمہوریت کی سوچ بڑھی ۔ ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے ریاستی نظام میں ایک نیا تصور پیش کیا گیا جسے فلاحی ریاست کہا جاتا ہے ۔طے ہوا کہ ریاست کے عمل کا دائرہ کار متعین ہونا چاہیے۔ ریاست کو بہت سے کام لازماََ کرنا ہوتے ہیں جیسے:٭اپنی سرحدوں کا دفاع٭اپنی حدود میں نظم و ضبط قائم رکھنا ٭انتظامی اور عدالتی نظام قائم کرنا٭کرنسی کا اجرا اور مالیاتی نظام کو چلانا٭ذرائع آمد و رفت اور رسل و رسائل کے نظام کو چلانا ۔ بہت سے وظائف ایسے ہیں جو ایک ریاست کے لیے لازمی تو نہیں لیکن مستحسن ہیں جب کہ وہ ایک فلاحی ریاست ہونے کا دعویٰ کرے۔ چند ایک یہ ہیں: ٭تمام شہریوں کے گزر بسر کے لیے خوراک، لباس اور رہائش کا انتظام کرنا۔٭بڑھاپے کے لیے پنشن۔٭تمام شہریوں کے لیے خواہ وہ کسی بھی گروہ سے تعلق رکھتے ہوں، لازمی اور یکساں نظام تعلیم۔٭مستحق شہریوں کے لیے مفت علاج۔یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ ایک فلاحی ریاست میں غربت تیزی سے کم ہوتی ہے، ایک فلاحی ریاست میں عوام پر پیسہ خرچ کیا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ قومیں تیزی سے غربت کے لکیر سے اوپر آئی ہیں جن کا ریاستی نظام بہتر ہے۔
٭....آسٹریلیا بھی ایک فلاحی ریاست ہے
آسٹریلیا دنیا کے ان گنے چنے ممالک میں سے ایک ہے جنھیں فلاحی مملکت کا درجہ حاصل ہے۔ آسٹریلین شہریوں کو وہ تمام بنیادی حقوق اور مراعات حاصل ہیں جو انھیں آزادی اور خوشحالی کی زندگی بسر کرنے کے مساویانہ مواقع مہیا کرتے ہیں۔ آئین میں ہر آسٹریلوی شہری کو پانچ بنیادی حقوق حاصل ہیں۔(1) حق رائے دہی (2) غیر منصفانہ شرائط پر جائیداد کے حصول کے خلاف تحفظ (3)، جیوری کے ذریعے مقدمے کی سماعت کا حق (4) مذہب کی آزادی ہے(5) امتیازی سلوک کی ممانعت ہے۔ان اصولوں کی بنیاد پر شہریوں کو مکمل مذہبی آزادی ہے۔ وہ اپنے اپنے مذاہب پر کھلے عام عمل درآمد کر سکتے ہیں اور مذہبی عبادت گاہیں بنا سکتے ہیں ۔ قانون انھیں مکمل تحفظ دیتا ہے ۔ وہ اپنے کلچر، لباس، خوراک اور زبان پرنہ صرف کاربند رہ سکتے ہیں بلکہ اس کی ترویج بھی کر سکتے ہیں۔ سرکاری سطح پر اس کی اعانت حاصل ہے جیسے سرکاری لائبریریوں میں انگریزی کے ساتھ اردو اور دیگر زبانوں میں کتابیںموجودہیں۔مذہب اور رنگ و نسل پر تعصبانہ برتاﺅ کے خلاف سخت قوانین ہیں ۔یہی سخت قوانین دیگر ہر خلاف ورزی پربھی لاگو ہیں۔ لہذاعمومی طور پر شہریوں کی جان ، مال ، جائیداد محفوظ ہیں ۔ شہری ایک ریاست میں رہتے ہوئے دوسری ریاست میں جائیداد خریدسکتا ہے اس کی جائیداد مکمل محفوظ ہے اور کرایہ وقت پر ملتا رہے گا ۔ جائیداد فروخت کرتے ہوئے بھی اسے سفر کرنے کی ضرورت نہیں ہے یہ کام اسکی غیر موجودگی میں بھی ہو سکتا ہے ۔ خواتین آدھی رات کے وقت بلا خوف خطر اکیلی سفر کر سکتی ہیں۔ آپ آسٹریلیا میں پیدا ہوئے یاکہیں اور سے آئے ہیں،بطور شہری، آسٹریلوی باشندوں کو ووٹ ڈالنے، پارلیمنٹ کے لیے الیکشن لڑنے، حکومت اور دفاعی فورس میں کام کرنے ، آسٹریلوی پاسپورٹ حاصل کرنے اور آسٹریلیا میں آزادانہ طور پر دوبارہ داخل ہونے، بیرون ملک پیدا ہونے والے بچوں کو بطور نسل آسٹریلوی شہری رجسٹر کرنے کا حق حاصل ہے۔علاوہ ازیں جو بنیادی حقوق ہر شہری کو حاصل ہیں ۔ ان میں زندگی کا تحفظ، کام کی آزادی، خوراک کی آزادی اور زندگی گزارنے کے طریقے کی آزادی شامل ہے ۔ اس کے ذیل میں سیاسی آزادی ، تحریر و تقریر کی آزادی، نقل و حرکت کی آزادی ،احتجاج اور جلسے جلوس کی آزادی کے ساتھ حکومت سازی تک کی مکمل آزادی ہے ۔ اتنی آزادی جو بعض اوقات مضحکہ خیز اور ناروا بھی ہو سکتی ہے جیسے ابھی حال ہی میں سویڈن میں قرآن مجید جلانے کی قبیح حرکت وقوع پذیر ہوئی مگر قانون چونکہ ہر فرد کو آزادی دیتا ہے لہذا بعض لوگ جمہور کی مرضی و مزاج کے برعکس ایسی ناروا حرکتیں کر دیتے ہیں جو اس آزادی سے سے ناجائز فائدہ اٹھانا ہے ۔ ایک فلاحی ریاست کی بنیاد وسائل اور مواقع کی مساوات، دولت کی منصفانہ تقسیم اور ان لوگوں کے لیے عوامی ذمہ داری کے اصولوں پر قائم ہوتی ہے لہذا آسٹریلیا کی فلا حی ریاست اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ اس کا کوئی شہری چاہے وہ بے روزگار،معذور یا ضعیف ہو، اسے باعزت اور پر سکون زندگی گزارنے کی سہولیات میسر ہوں جس میں گھر اور امدادی پنشن شامل ہے۔ لہذا اس ملک میں نہ کوئی بھوکا رہتا ہے اور نہ بغیر چھت کے ۔ اسی طریقے سے علاج معالجہ بلاتفریق مفت اور عام ہے ۔اس معاشرے میں کمزور اور ناتجربہ کار بھی کامیابی کی سیڑھیاں چڑھ سکتا ہے کیونکہ نظام حکومت اس کی پشت پناہی کرتا ہے جیسے پاکستان میں پید اہونے والا اور ایک عام سے خاندان سے تعلق رکھنے والا عثمان خواجہ آسٹریلیا کی کرکٹ ٹیم کا حصہ بن سکتا ہے اور پاکستان میں پید اہونے والی اور مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والی مہرین فاروقی آسٹریلیا کے ایوانِ بالا کی رکن بن سکتی ہے ۔ آسٹریلیا میںتعلیم مفت اور لازمی ہے ۔ حتی کہ یونیورسٹی کی سطح پر بھی فیس دیے بغیر ڈگری حاصل کی جا سکتی ہے جو مستقبل میں برسرِ روزگار ہونے کے بعد قسطوں میں ادا کی جا سکتی ہے ۔ کھیل کود، تفریح، صفائی ستھرائی، صاف پانی کی فراہمی، سیوریج سسٹم اور ماحول کی پاکیزگی اور شادابی ان کے طرز حکومت کا حصہ ہے ۔بنیادی سہولتیں جیسے پانی، بجلی، گیس ، پٹرول اور اشیائے خوردو نوش بلا تعطل فراہم کی جاتی ہیں ۔ نظام بن جائے تو ہر کام خود کار طریقے سے انجا م پاتا ہے ۔ شہری کو اس کے دروازے پر یہ وسائل ، مواقع اور انصاف مہیا ہوتا ہے ۔ پولیس،صحت و صفائی،طبی امداد، انصاف ، مقامی،ریاستی اور مرکزی حکومت کے کارندے ایک فون کال کی دوری پر موجو درہتے ہیں۔ یہ کارندے او رنمائندے ہر سطح پر جواب دہ ہیں ۔ کیونکہ کوئی شخص چاہے وہ کتنی ہی اہم سیٹ پر براجمان ہو قانون سے ماورا نہیں ہے اور قانون ہر شہری کا محافظ ہے ۔ اس کامیاب فلاحی معاشرے کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں قانون صرف کتابوں تک محدود نہیں ہے بلکہ مکمل طور پر نافذ العمل ہے ۔ یہی اس نظام کی کامیابی کا راز اور اس کا طرّہ امتیاز ہے ۔