بطور کرکٹر عالمی سطح پر شہرت حاصل کرنے کے بعد خان نے سیاست کے میدان میں قدم رکھا تو اس وقت پاکستان میں رشوت ، لوٹ کھسوٹ ، بدانتظامی اور کرپشن جڑ پکڑ چکی تھی۔ عام آدمی کی زندگی اجیرن اور سیاست مخصوص خاندانوں تک محدود ہوکر رہ گئی تھی۔ صرف وفاقی اور صوبائی انتظامیہ ہی نہیں عدالتی نظام بھی سیاسی خانوادوں کا خدمت گزار سمجھا جانے لگا تھا۔ خان احتساب کا نعرہ لے کر سیاست میں وارد ہوا۔ سیاسی جماعت کا نام بھی تحریک انصاف رکھا گیا۔ یہ بیانیہ بتدریج ناانصافی کا شکار پاکستانی معاشرے میں مقبول ہوتا چلا گیا۔
بیانات اور نعروں کی حدتک خان کاسیاسی موقف ہر پاکستانی کی دل کی آواز تھا۔ کرکٹ کی وجہ سے نوجوان طبقے میں ہر دلعزیز ہونے کی وجہ سے احتساب اور انصاف سے متعلق خان کے بیانیے کو نوجوانوں میں بھرپور پذیرائی ملی۔ معاشرے میں فرسودہ نظام سے نجات کے خواہشمند دیگر طبقات بھی خان کے بیانیے سے متاثر ہوتے چلے گئے۔ ان کی مقبولیت میں ملک میں رائج کرپشن پر مبنی نظام نے بھی اہم کردار ادا کیا۔جس کے زیراثر غیر سیاسی لوگ بھی جوق درجوق خان کی جماعت تحریک انصاف میں شامل ہونے لگے یوں تھانے کچہری کی سیاست سے تنگ لوگوں نے نظام میں تبدیلی کیلئے اپنی تمام امیدیں تحریک انصاف سے وابستہ کرلیں۔
پاکستان میں رائج نظام سے مایوسی کا انداز ہ اس امر سے بھی لگایاجاسکتا ہے کہ ایران میں شہنشاہ کے خلاف کامیاب اسلامی انقلاب کے بعد وہاں بدعنوان عناصر پر ٹوٹنے والی افتاد کے بعد پاکستان میں ہر شخص امام خمیمی جیسے لیڈر کی آمد کیلئے دعائیں مانگتا دکھائی دیتا۔ لوگ خوش تھے کہ اقتدار ملتے ہی ایران کی انقلابی اسلامی حکومت نے وہاں جس طرح لوگوں کو الٹا لٹکاکران سے قومی خزانے سے لوٹ کا مال واپس لینے کے ساتھ ہی ناجائز ذرائع سے حاصل کی گئی دولت کا حساب مانگا ہے اور حساب دینے میں ناکام رہنے والوں کو عبرت ناک سزاﺅں سے نوازا ہے۔ پاکستان میں عوام سمجھتے تھے کہ ان کے ملک میں ایران جیسے سخت گیر نظام حکومت کے بغیر احتساب اور انصاف کا ہونا ممکن نہیں۔
افغانستان میں سویت سرخ افواج کی شکست کے بعد وہاں افغان طالبان حکومت کا قیام عمل میں آیا تو اس وقت بھی پاکستان کے عوام ملک میں کرپشن کے خاتمہ اور لوٹ مار کے رائج کلچر کے خاتمہ کیلئے یہاں افغان سربراہ ملا عمر جیسے حاکم کی ضرورت محسوس کی جانے لگی۔ جس نے افغانستان کو صرف منشیات کی پیداوار سے ہی پاک نہیں کیا تھابلکہ اپنے ملک کے اندر ایسا نظام لاگو کیا جس کے تحت چوری ڈکیتی یاکسی بھی طرح کی بدعنوانی کا تصور بھی محال تھا۔
پاکستان میں عام آدمی کی یہی مشکلات ہی تھیں جس نے لوگوں کو خان کے سیاسی بیانیے کی طرف متوجہ کیا۔ ان کی محبت خان سے نہیں بلکہ ملک میں نظام کی تبدیلی کے بیانیے سے تھی جس کا امتحان ابھی باقی تھا۔
کہاوت ہے کہ اگر کسی انسان کو جاننا ہے تو اس کے گرد موجود وافراد کے کردار سے ا±سے پہنچانیے۔ خان کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ وہ اپنے امتحان کی کسوٹی میں اسی وقت ناکام ثابت ہوا۔جب اپنی سیاسی شہرت کے بامِ عروج پر اس نے 2018کے انتخابات سے قبل اپنے دیرینہ سیاسی ساتھیوں کو چھوڑ کر علاقائی سطح پر معروف اسے سیاستدانوں کو ٹکٹ دینے کا فیصلہ کیا جن کی انتخابات میں جیت یقینی تصور کی جاتی تھی۔ یہ سیاستدان ہر صورت اقتدار میں رہنے کیلئے پارٹیاں بدلنے میں دیر نہیں لگاتے تھے۔ خان سے عوام کو پہلی مایوسی اس کی طرف سے دیگر جماعتوں سے وارد ہونے والوں کو ٹکٹ دینے سے ہوئی۔ یہ ویہی عناصر تھے جنہوں نے ملک کے قومی خزانے سے لوٹ مار کو اپنا حق سمجھ رکھا تھا۔ ان سب کی شمولیت کے بعد انتخابات میں تحریک انصاف کی جیت تو یقینی تھی ہی لیکن خان کے ملک میں نظام کی تبدیلی کے نعروں پر سوالیہ نشان اسی وقت لگ گیا تھا۔
اقتدار میں آنے کے بعد لوگوں کیلئے پہلا جھٹکا خان کا اپنے ان مختلف ، بیانات سے رجوع تھا۔ جس میں عوام کی تقدیر بدلنے کے دعوے شامل تھے۔ خان کے مختلف مواقع پرلیے گئے ”یوٹرن“ مذاق بن کر رہ گئے بہت سے دعوے بھی جس میں 10لاکھ لوگوں کیلئے گھروں کی تعمیر اور ایک کروڑ لوگوں کو نوکریاں دینا سب ہوا میں تحلیل ہوگئے۔ رشوت اور بدعنوانی جس کے خلاف جنگ کا اعلان کر کے خان نے سیاست کا آغاز کیا تھااقتدار میں آنے کے بعد وہ سارے اعلانات بھی دھرے رہ گئے۔ خاص طورپر ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں بطور وزیراعلیٰ عثمان بزدار کی تعیناتی خان کے دوستوں ، حامیوں اور مخالفین تک کیلئے حیران کن فیصلہ تھا۔ وہ شخص جو یونیورسٹی سے ماسٹر کی ڈگری حاصل کرنے کے باوجود معقول بات چیت کرنے کا اہل نہیں تھا۔ اس کے ہاتھ میں پنجاب کی باگ دوڑ دینا آج تک لوگوں میں حل طلب معمہ بناہوا ہے۔
پنجاب میں عثمان بزدار کے دور میں صرف بدعنوانی اوراقربا پروری میں ہی اضافہ نہیں ہوا بلکہ یہاں تک کہانیاں سامنے آئیں کہ پنجاب پر اصل حکومت فرح گوگی کے نام سے معروف خاتون کی ہے۔ جس کی مرضی کے بغیر پنجاب کے انتظامی امور سرانجام نہیں دیے جاسکتے۔ خان کے وہ ساتھی جو اچانک نمودار ہوئے اور ان کے دور اقتدار میں حکومت کرتے نظر آئے ان کے بہت سے کارہا ئے نمایاں خان کے دور اقتدار میں ہی خبروں کی زینت بنتے رہے۔
یہی نہیں خان کے بہت سے فیصلوں پر ان نوواردسیاستدانوں کی چھاپ واضح دکھائی دیتی رہی جو تحریک انصاف کی شہرت کو دیکھتے ہوئے۔2018کے انتخابات سے قبل اس میں شامل ہوئے تھے لیکن ان کا حقیقی مقصد خود کو اقتدار میں رکھتے ہوئے اپنااور اپنے جیسے دیگر سیاستدانوں کے مفادات کو تحفظ فراہم کرناتھا۔اس حوالے سے میڈیا میں کی جانے والی نشاندہی پر اپنی غلطی یا کوتاہی تسلیم کرنے کی بجائے خان نے خود کو بے بس ظاہر کرتے ہوئے اقتدار پر کسی اور کی گرفت کا عذر پیش کیا۔ خان اپنے بیانیے اور ماضی کے دعووں سے مخلص تھے تواس طرح کے حیلے بہانوں کی بجائے وہ اگر وزارت عظمیٰ سے مستعفیٰ ہوکر ااپنا مقدمہ عوام کے سامنے رکھتے تو بات مختلف ہوتی اور القادرٹرسٹ و توشہ خانہ جیسے اسکینڈل بھی سامنے نہ آتے۔ لیکن اس کے برعکس انہوں نے پارلیمنٹ کو ہی بے توقیر کر کے رکھ دیا۔
9مئی 2023کو جس طرح کے واقعات پیش آئے اس کے متعلق اب جس طرح کی مرضی آئے تو جیہات پیش کی گئی جائیں اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ 9مئی کو شہدا کی یادگاروں اور فوج کی تنصیبات پر حملوں کی بنیادی وجہ خان کا وہ جنگجوانہ رویہ تھا جو انہوں نے ملک کے تمام اداروں کے خلاف اقتدار سے باہر آنے کے بعد اختیار کر رکھا تھا۔
یہ کیسی سیاست تھی !
Oct 20, 2023