”قوم کے مسائل حل ہوتے نظر آرہے ہیں“

کمال ہو گیا۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ اتنی نمایاں کمی ہوتی دیکھی۔ جی بات پٹرول قیمت میں ”40 روپے“ فی لٹر کمی۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں معتدبہ کمی کا مطالبہ (2014 سے بعذریعہ کالمز) پورا ہو گیا۔ بجا طور پر پزیرائی کا سہرا ”پاک فوج“ کے سر بندھتا ہے۔ اب ذمہ داری ا±ٹھانے کا بوجھ عوام پر آگیاہے۔ 
ماضی میں چند پیسوں کے اضافہ کا اعلان ہوتے ہی کرائے۔ قیمتوں میں اضافہ کر دینے کا رواج رہا ہے اور وہ بھی محض ”ٹکر“ چلنے پر۔ اب عوام خود بھی فرض شناسی کا مظاہرہ کریں۔ دوکاندار ہے یا بڑا صنعت کار۔ سرکاری اہلکار ہے یا نجی ادارے کا ملازم۔ متذکرہ اشخاص خود بھی صارف ہیں۔ ہر فرد خریدار ہے اس لئے اپنے آپ کو ریلیف دینے کا اپنی ذات سے آغاز کریں۔ 
”15ویں قومی اسمبلی“ نے جمہورت کو کمزور کیا ”پلڈاٹ“۔بہتری آرہی ہے۔ مہنگائی کم ہوگی۔ اکتوبر کے بعد کمی کا سلسلہ برقرار رہے گا۔” سٹیٹ بینک 14ستمبر“۔ مہنگائی کم ہونا شروع۔ نگران وزیر خزانہ کی سینٹ کمیٹی کو بریفینگ۔" 28ستمبر“۔ مہنگائی برقرار رہے گی۔ وزارت خزانہ نے آنے ولے مہینوں میں مہنگائی بلند سطح پر برقرار رہنے کی پیشگوئی کر دی۔ آخری دو خبریں ایک ہی صفحہ پر اور ساتھ ج±ڑی ہوئیں۔ اشاعت کی تاریخ بھی ایک ہی۔دونوں ادارے سرکاری بیانیہ باہم متصادم۔ آج ”اکتوبر“ اپنا نصف سے زیادہ حصہ پ±ورا کر چکا ہے۔ کئی مرتبہ خریداری کے باوجود بجٹ کا سائز کم نہیں ہوا۔ ا±لٹا بٹوہ س±کڑ گیا ہے حالت یہ ہو گئی ہے کہ اپنے وقت کے جدی پ±شتی دکھائی دیتے ”رئیس۔ سیٹھ“ جاننے والے ہمدرد۔ رشتہ داروں کو راز داری برتنے کی ہدایات کے ساتھ بڑھتی مشکلات سے آگاہ کرنے پر مجبور ہیں۔ سرکار۔سرکاری ادارے۔ کارکردگی۔ بیانات ”پوتے۔پوتیاں۔ نواسے۔ نواسیاں“ پیسوں میں ڈنڈی مارتے ہیں۔ انڈیا میں 92سالہ پریشان” دادی “نے حساب سیکھنے کے لیے سکول میں داخلہ لے لیا۔قارئین ہمارے پاس تو اتنے سکولز ہی نہیں کہ 25کروڑ آبادی۔ 75سالہ ڈنڈی مارکہ تاریخ سیکھنے اور مزید ڈنڈیوں سے بچنے کے واسطے داخلہ حاصل کر لے۔
250 ملین سال میں انسان صفحہ ہستی سے مٹ جائینگے۔ قارئین نہ وجہ باہم جنگیں، نہ آپسی بارود کی بارشیں۔” ٹمپریچر“ وجہ بنے گی۔ عالمی ا±فق پر حد درجہ گرمی بڑھنے سے ایسا ہوگا۔ براعظم ختم ہو کر ایک ہو جائیں گے۔
 ”سائنسی محققین کا ایک اہم مطالعاتی جائزہ“۔ موسمیاتی صورتحال کا بگاڑ۔ شدت کا تو عام دنیا ایک عرصہ سے مشاہدہ کر رہی ہے۔ دنیا ایک معلوم سفر کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اِس دنیا کا اختتامی دورانیہ کِسی کے علم میں نہیں سوائے ”رب رحمان“ کے۔ فطرت سے چھیڑ چھاڑ۔ ظلم و تشدد کے نہ دیکھے جانے والے ہلاکت خیز جنگی مناظر۔ خوفناک اسلحہ۔ ہتھیاروں کا بے دریخ استعمال۔ ماحولیاتی نظم کی خرابیوں کا زیادہ ذمہ دار ”انسان“ ہے۔
”75سالوں“ کو ا±ٹھا کر دیکھ لیں نہ متواتر کامیاب دورے کام آئے نہ عظیم الشان تقاریب میں دستخط ہوے۔ نہ انقلاب کی نوید بنا کر پیش کرنیوالے معاہدے نفع بخش صورت اختیار کر سکے۔ وجہ ؟؟ ہماری ”نیت کا فتور۔ نیت میں فنی خرابی“۔اِس عنوان سے برسوں پہلے ”کالم“ چھپ چکا ہے تو قارئین دیکھ لیں۔ 
حالات میں ذرہ بھر بھی تبدیلی نہیں آئی۔ اس لئے کہ متفقہ بیانیہ تھا نہ متحدہ قوت کی کوئی تصویر۔ بہت اچھا ہے کہ غیر قانونی مقیم لوگوں کو نکالنے اور ا±ن کی جائیدادیں قرق کرنے کا فیصلہ ہوا۔ خوشی ہے کہ اس پر عملدرآمد جاری ہے۔ سب متفق ہیں تو کوئی دباو بھی نہیں آئے گا۔ ناسور کی جتنی بھی اشکال ہیں مٹا کر رکھ دینے سے ہی پاکستان اپنے قیام کے مقاصد کی طرف بڑھے گا۔
 ایک وقت کہ نعوذ باللہ ”مالک حقیقی “ کے وجود سے ہی م±نکر۔دنیا کی ایک بڑی طاقت۔ وسائل اور زمینی رقبہ کے لحاظ سے سب سے بڑے ملک نے ”اسلامی بینکنگ“ کا ”یکم ستمبر“ سے آغاز کر دیا۔ ابتدائی طور پر چار علاقوں میں کامیابی کے بعد دائرہ کار پورے ملک میں متعارف کروایا جائیگا۔ جی ہاں 25ملین مسلمانوں کی آبادی والا ملک ”ر±وس“ اسلامی بینکاری کو اپنانے کا فیصلہ۔ جنگ کے باعث معیشت پر دباو تھا یا کچھ بھی نام دے ڈالیں۔ بہرحال ”اسلام“ کا نام تو آیا۔یہ الگ بحث ہے کہ ”اسلامی بینکاری“ کِس حد تک درست ہے ؟ ہمارے نزدیک تو ؟؟۔
بظاہر کسی کے لیے بند ہونے یا ختم ہونیوالے آپشن دیکھنے۔ س±ننے والے ضرور ذہن میں رکھیں کہ ”The End“ کی طرف جانے والی گاڑیاں واپسی کا بٹن رکھتی ہیں۔ 
تجزیہ ہے کہ بہت بڑی بڑی سیاسی تبدیلیاں ممکن ہیں۔ سورج گرمیوں میں ا±بلتے پانی کی طرح اپنی شعائیں زمین پر نہ پھینکے تو کیا کرے؟ وہ تو پابند ہے ایک مقررہ نظام کا۔ ا±س ضابطہ کا جو صرف ”حکم ربی ذی شان“ کے تابع ہے اس سےسرِمو انحراف کی جرا¿ت نہیں پاتا اور انسان ؟ کائنات کی ساری نعمتیں۔ سہولیات۔ تفریحات ا±سی کی خاطر بنائیں۔ نتائج شکر گزاری کی بجائے ”بے مثال اعلیٰ حاکم۔حقیقی مالک“ کی نافرمانی پر ت±ل گیا۔ ہر ا±س کام میں حصہ ڈالا جس کو واضح طور پر منع فرمایا گیا۔ حتیٰ کہ ”اللہ رحمان“ اور ”پیارے نبی “ کے خلاف جنگ سے بھی گریز نہ کیا۔ یعنی سود خور اور سود سر پرست بھی بن گیا۔ حیثیت مٹی جتنی بھی نہیں پر اعمال۔ افعال ”شیطانوں“ کو بھی شرمندہ کر دینے والے۔ انکے باوجود توبہ کا دروازہ کھلا رہنا ”رحمت خاص“ ہے۔
پاکستان کی مہنگائی سے متاثرہ ممالک کی لسٹ میں نمایاں ترقی۔ ”18ویں نمبر“ پر آگیا۔ عالمی اقتصادی جریدے ٹریڈنگ اکنامکس۔ ”عالمی بینک“ نے پاکستان کو غریب اور مفلوج ممالک میں شامل کر دیا۔ ”دنیا بھی ہم سے تنگ۔ کوئی قرض یا امداد دینے کو تیار نہیں۔ عوامی مسائل پر کوئی توجہ نہیں۔ ریاست مہنگائی۔ معیشت پر کوئی بات نہیں کرتا“۔ پذیرائی کی آخری حد تک سراہے جانے والے الفاظ۔ وائے بدقسمتی یہ وہ بیانیہ ہے جو ہر وہ شخص زبان مبارک سے تب نکالتا ہے جب ”ک±رسی“ سے ہٹ جاتا ہے۔ اپنے وقت کے فیصلہ سازی کے ک±لی مالک کے منہ سے دانشوری اقتدار کی گدی سے ہٹتے ہی ا±گلنا شروع ہو جاتی ہے۔
 جناب عالیٰ یہ ”21 صدی “کا اختتام ہے۔عوامی شعور اب بڑھک بازی۔ ڈراموں کی ساری حدیں پار کر چکا ہے۔ عوام کو نہیں چاہیے ایسی سیاست اور جمہوریت جو قوم کے 76سال کھا گئی۔ قوم کو صرف اپنے مسائل کا حل چاہیے جو اب حل ہوتے نظر آ رہے ہیں۔”پاک فوج“ کو سلام۔ پاکستان زندہ باد۔

ای پیپر دی نیشن