آج سے چندسال پہلے وفاقی دارلحکومت کے پانچ ستارہ ہوٹل میں سرسید احمد خاں کے یوم پیدائش کی نسبت سے ایک شاندار تقریب ہوئی۔اس میں ان کے خاندان کا ایک نوجوان بھی شریک تھا، مقررین کا جوش ِ گفتار دیدنی تھا۔ تقریب کے اختتام پر چائے کے دوران میں سرسید کا پڑپوتاکہنے لگا ”ویسے کوئی مجھے بتانا پسند کریگا کہ یہ بڑے میاں کیا کہنا چاہتے تھے“۔جب راوی نے افسردہ انداز میں یہ روداد ِ غم سنائی تو مجھے ذرا بھی تعجب نہیں ہوا۔ کیوں کہ ہمارے ہاں گزشتہ چنددہائیوں سے جس حسن ِ انتظام سے مشاہیر کی کردار کشی کی جاتی رہی ہے اس سے اس طرح کے نتائج کا برآمدہونا عین فطری ہے۔البتہ سرسید کے خانوادے کا کوئی فرد ایسی بات کہے ،اس کا ضروردکھ ہوا۔ یہ کالم اسی مظلوم بزرگ کے لیے ہے ،جو غلط دورمیں زمین پر بھیجا گیا تھا، ہرکسی نے اسے تحیر سے دیکھا، وقت سے پہلے پیدا ہوجانے کی سزا اس کی قسمت میں لکھ دی گئی،اپنی علمی وفکری روشن خیالی اور دوراندیشی کی بدولت اسے ملحد،نیچری اورکرسٹان کہا گیا۔ اس کی جانب کفروارتداد کے فتوے بھی اچھالے گئے۔اس نے انکی پروا نہیں کی عرفی کاکہا مانا اوراس ”غوغائے رقیباں“ کو نظراندازکیا۔البتہ اسکے کچھ خاص مقاصدتھے جن کی تکمیل کے لیے اس نے ان تھک محنت اور مخلصانہ لگن سے کام لیا۔آج سے ڈیڑھ صدی پہلے برصغیرمیں زندگی کے ہراہم شعبے میں علوم وفنون کی کرنیں اسی کے خوش نما وجود سے پھوٹتی دکھائی دیتی ہیں۔یہ سیاست کا میدان کارزار ہو، یا علم وعمل کی دنیا۔ادب وثقافت کا شعبہ ہو یا صحافت کی مشکل زندگی، ہرطرف اسی کا طوطی بولتا ہے۔آج اس کے رقیب دور دور تک دکھائی نہیں دیتے۔اس کے کام کا جادو سر چڑھ کربول رہاہے۔
1857ءکی جنگ آزادی میں ناکامی کے بعد مسلمان بطور قوم مضمحل اوربے اطمینان تھے۔برصغیر کا اسفنج نما کلچر انھیں اپنے اندر جذب کرکے ان کی الگ شناخت کو مٹانے کے درپے تھا۔اگریہ کامیاب ہوجاتا تومسلمانوں کی شناخت ہندستان کی دلت اور شودر اقوام کی طرح معدوم ہوجاتی۔یہ سر سید احمد خان تھے جن کی جدید تعلیم کے فروغ کی تحریک رنگ لائی۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی بدولت مسلم نوجوانوں کا ایک ایسا طبقہ پیداہوگیا جس نے اپنی پہچان کو کسی نہ کسی حدتک قائم رکھا۔سرسیدکو اپنے خوابوں کی عملی جامہ پہنانے کے لیے بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔یہ وہ زمانہ تھا جب مسلمان علمی حوالے سے انتہائی پسماندہ تھے۔انھوں نے مصلحت سے کام لیتے ہوئے حکومتی اہل کاروں سے تعلقات بھی بنائے ،انگریزی حکومت کے ساتھ تعاون بھی کیا۔سیلاب کاراستہ روکنے کی بجائے اسکے ساتھ ساتھ بہتے گئے اور بپھرے ہوئے پانی کے خطرناک ریلے کارخ اپنے قومی مفادات کی طرف موڑ دیا۔ سرسید کے مخالفین میں ہرطرح کے لوگ تھے۔ان میں فتویٰ فروش ملا بھی تھے اور حکومتِ انگلشیہ کے وفادار بھی ،لیکن پورے منظرنامے میں ایک شخص بھی ایسا نہیں تھا جس نے تاریخ کی لوح پر اپنے نقوش کویوں ثبت کیاہو۔انھوں نے علی گڑھ کالج نہیں بنایا تھا، ایک قوم بنائی تھی۔ سرسید نے تعلیم ،سیاست، ادب اور صحافت کے شعبے میں جس عمارت کی داغ بیل ڈالی اس پر بعدمیں آنیوالوں نے ایک شاندار عمارت تعمیرکی۔انھیں مولانا الطاف حسین حالی، مولوی نذیر احمد،علامہ شبلی نعمانی ، نواب محسن الملک،وقارالملک، اورچراغ علی جیسے رفقاءمیسر آئے۔یہاں فرداََ فرداََ سب کی خدمات بیان کرنے کا موقع نہیں۔ ان کے ساتھی ایک سیاسی تنظیم بنانے میں معاون ہوئے ،جس نے آگے چل کر مسلمانوں کے لیے ایک الگ وطن کے قیام کا مطالبہ کیا۔سرسید کی شخصیت اپنے کرداروعمل کے ساتھ آج بھی موجود ہے۔
آج کا المیہ ہے کہ یہ نظریاتی وطن بذات خود خونخوار بھیڑیوں کے نرغے میں ہے،اس کی سلامتی کوخطرات لاحق ہیں ،تواسکے قیام کے فلسفے کے پس منظر میں روشن کرداروں کی عزت و عصمت کیسے قائم رہ سکتی ہے؟ کہیں ایسا تونہیں کہ موجودہ دور میں سرسید کے افکارکی ضرورت نہیں رہی۔ہمارے ہاں اپنے مسائل کو ہمیشہ مغربی فلسفے کی عینک لگاکردیکھنے کا چلن رہا ہے۔جب بھی مغربی استعمارکے حوالے سے بحث ہو تو سرسیداوران کے ساتھیوں کو بھی شامل تفتیش کرلیاجاتا ہے۔سچ کہیں تو ہمارے مغرب زدہ اہل علم سرسید کی فکر کو درست زاویے سے دیکھ ہی نہیں سکے۔کسی بھی فردیاقوم کے افکار کا جائزہ لینے کے لیے اس کے مروج علوم سے مدد لینی ضروری ہے۔ہمارے دانشوروں نے اپنی تاریخ اورسماج میں موجود شخصیات اوران کے نظریات کا جائزہ لینے کے لیے جو اصول مقرر کیے ہیں۔وہ یورپ کے فکری”آئی ایم ایف“سے مستعار لیے گئے ہیں۔ انھوں نے ہومی کے بھابھا،ایڈورڈ سعیداورگائتری چکورورتی سیبوک وغیرہ کے خیالات کے زیراثر کچھ ضابطے بنائے ہیں ،اب یہ لوگ بڑی بے دردی سے ان نظریات کو برصغیر کی تاریخ ومعاشرت پر تھوپ دینا چاہتے ہیں۔کاش انھوں نے غور کیا ہوتا کہ سرسیداوران کے ساتھیوں نے کس طرح علمی مباحث کے ذریعے اپنے قومی مفادات کا دفاع کیا۔
یہاں ایک مثال پراکتفا کروں گا۔سرسیدکے عہدمیں ولیم میور کی کتاب ”دی لائف آف محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم “ شائع ہوئی۔مصنف نے اپنی اس کتاب میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مقدس شخصیت پر اعتراضات کیے تھے۔ سرسیداحمدخان نے اسکے جواب میں ” خطبات احمدیہ“ کے عنوان سے ایک نہایت عمدہ کتاب لکھی ،جس میں انھوں نے ولیم میور کے جھوٹے الزامات کو بڑے مدلل انداز میں رد کیا۔ اس کتاب کوتحریر کرتے ہوئے ان پر بیماری کا شدید حملہ بھی ہوا، لیکن انھوں نے تصنیف وتالیف کا کام جاری رکھا۔اس عہد میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دفاع کے لیے سرسید اوران کے ساتھیوں کے علاوہ شاید ہی کسی نے قلم اٹھایا ہو۔ ہم اس عہدمیں ہوتے تو سڑکوں پر ٹائر جلاکراپنے ہی ماحول کو آلودہ کرتے،اے ٹی ایم مشینیں اکھاڑ لیتے، رستوں پر رکاوٹیں کھڑی کرکے مجبورمسافروں کا ناطقہ بند کردیتے۔ افسوس کہ ہم میں آج بھی سرسید جیسے لوگ بہت کم ہیں۔ سرسید کی شخصیت میں موجود آزادی ِ رائے،اجتہادی قوت اور عقل پرستی کی آج بھی ہمارے معاشرے کوشدید ضرورت ہے۔اسی لیے علامہ محمد اقبال نے اپنی نظم ”سیدکی لوح تربت “میں سرسید احمدخاں کی شخصیت کو خراج تحسین پیش کیاہے۔