غزہ .... انسانی المیہ

Oct 20, 2023

رابعہ رحمن

غزہ کے نہتے شہریوں پر اسرائیل کی وحشیانہ بمباری انسانی تاریخ کا ایک بہت بڑا المیہ ہے۔ پوری دنیا میں اس پر بات ہو رہی ہے مگر اسرائیل اور اس کے اتحادیوں سمیت جن میں امریکہ اور برطانیہ سرفہرست ہیں، کو اس بات کا کوئی اثر ہوتا نظر نہیں آتا۔ حماس کے گذشتہ ہفتے کے حملوں نے نیتن یاہو اور اس کی حکومت کو دنیاکے سامنے صحیح معنوں میں Exposeکیا ہے۔ اسرائیل جو اپنے آپ کو ایک بڑی دفاعی قوت سمجھتا ہے اور جس کا دفاعی نظام جدید طرز پر مشتمل ہے یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ حماس جیسی مزاحمت پسند تنظیم اتنے اچانک اور موثر حملے کرے گی کہ اسرائیل کی اینٹ سے اینٹ بج جائے گی۔ دنیا کاجدید ترین دفاعی نظام بالخصوص Surveillane یعنی کہ نگرانی کا نظام اس بری طرح سے فیل ہو گا یہ کسی نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا۔ حماس ایک مزاحمتی تحریک ہے جس کے پاس نہ تو کوئی باقاعدہ تربیت یافتہ فوج ہے، نہ ہی کوئی ایئرفورس اور نیوی کا نظام اور نہ ہی جدید ترین اسلحہ۔ مزید برآں غزہ کاعلاقہ جو کہ صرف 365 مربع کلومیٹر پر مشتمل ہے اسکی کل لمبائی 41 کلومیٹر جبکہ چوڑائی 10 کلومیٹر ہے۔ یہاں کی آبادی تقریباً 20 لاکھ افراد پر مشتمل ہے جو کہ پہلے ہی زندگی کی دنیاوی سہولتوں سے محروم ہیں۔ غزہ کے رہنے والے فلسطینی شہریوں کا ز ندگی کی بنیادی سہولتوں کیلئے بھی انحصار اسرائیل پر ہے کیونکہ غزہ کی بیشتر سرحد بھی اسرائیل کے ساتھ ہی ملتی ہے۔ غزہ کو کافی حد تک حماس کنٹرول کرتی ہے جس کی وجہ سے اسرائیل کی جانب سے تواتر کے ساتھ غزہ پر فضائی اور راکٹ حملے دیکھنے کو ملتے رہتے ہیں۔ گذشتہ کئی سالوں سے اسرائیل مختلف بہانوں سے غزہ کے شہریوں کو نشانہ بناتا چلا آ رہا ہے جس کے نتیجے میں ہزاروں بے گناہ شہری جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جبکہ پہلے سے خستہ حال انفرا سٹرکچر کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔ غربت کے مارے نہتے فلسطینی عوام اسرائیل کے روزمرہ کے مظالم سے تنگ آ چکے ہیں اور ان کیلئے زندگی ایک ڈرا?نا خواب بن چکی ہے۔
اس سارے تناظر میں حماس کی طرف سے گذشتہ ہفتے کیے جانے والے راکٹ حملے ایک قدرتی ردِعمل تھاکیونکہ جب کسی کیلئے زندگی محال کردی جائے اور تواتر کے ساتھ کی جانے والی اپیلیں بھی کام نہ کریں تو پھر اس طرح کا ردِ عمل ایک فطرتی عمل ہے۔ فلسطین کا مسئلہ گذشتہ سات دہائیوں سے زیادہ عرصہ سے حل طلب ہے اور اقوام متحدہ کے علاوہ دیگر بہت سی عالمی و علاقائی تنظیمیں بھی اس بارے میں کوئی موثر اور قابلِ ذکر کردار ادا نہیں کرسکیں۔ کہنے کو تو وہاں فلسطینی اتھارٹی کی حکومت ہے مگر اسرائیل کی حکومت وہ بھی دینے کو تیار نہیں۔ حماس کی قیادت کو تواتر کے ساتھ نشانہ بنایا جاتا رہا ہے جس کے دوران اس تنظیم کے بانی شیخ احمد یاسین سمیت بہت سے رہنما اپنی جانوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ دنیاکی سرد مہری اور اسرائیل کی مسلسل ہٹ دھرمی کو دیکھتے ہوئے یقینا حماس نے ایک حکمت عملی کے تحت اسرئیل کو نشانہ بنایاہے۔ اب اگر حماس کے ان راکٹ حملوں کو روکنے اور کسی بھی قسم کی پیشگی اطلاع دینے میں اسرائیل کی انٹیلی جنس ایجنسیز اور دوسرے اہم دفاعی ادارے بری طرح ناکام رہے ہیں تو بجائے تحقیقات کر کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی جاتی، نیتن یاہو نے غزہ کے لئے شہریوں پر اندھا دھند یلغار کر دی ہے جس کے نتیجے میں غزہ کا شہر تقریباً منہدم ہو چکا ہے۔ ہزاروں بے گناہ شہری جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں، اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ہلاکتوں کی صحیح تعداد کا اندازہ لگانا فی الحال ناممکن ہے کیونکہ اسرائیل کے فضائی حملے تسلسل سے جاری ہیں۔ مزید برآں اسرائیل غزہ کی بجلی اور پانی بھی منقطع کر چکا ہے جس سے بڑی تعداد میں ہلاکتوں کا خطرہ ہے۔غذائی اجناس کی شدید قلت پیدا ہو چکی ہے۔ کسی بھی آبادی کا اس طرح سے محاصرہ اور زندگی کی بنیادی ضروریات پرپابندی لگانا بنیادی انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزی کے زمرے میںآتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد اب تک یہ سب سے بڑا انسانی المیہ ہو سکتاہے جو غزہ میں رونما ہو رہا ہے۔ غزہ کے بے گناہ اور نہتے شہری اقوام عالم کی طرف دیکھ رہے ہیں مگر بشمول اسلامی ممالک کے کسی طرف سے کوئی قابلِ ذکر کوشش نہیں کی جا رہی کہ اسرائیل کو اس ظلم سے روکا جا سکے، صرف بیانات اور مذمتی قراردادوں سے اسرائیل کو کچھ فرق نہیں پڑنے والا۔
نیتن یاہو ایک شدت پسندفاشسٹ حکمران ہے جس کے ہر دور میں فلسطینیوں کے خلاف مظالم کی انتہا دیکھنے کو ملتی ہے۔ اسکی سیاست کی بنیاد ہی فلسطین دشمنی پر مبنی ہے۔ حالیہ انتخابات میں بھی وہ اسی نعرے کو بنیاد بنا کرووٹ لے کر آیا ہے اور دائیں بازو کی انتہاپسند جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت بنائی ہے۔ وہ فلسطینیوں کو جینے کا حق دینے کے بھی خلاف ہے۔ دو ریاستی حل میں اسرائیل نے خود بھی رضامندی ظاہر کی تھی آج بھی فلسطین کے مسئلے کا سب سے بہتر حل ہے مگر اسرائیل اب اس میں سنجیدہ نظر نہیں آتا۔ امریکہ سمیت تمام اہم یورپی ممالک کا یہ فرض ہے کہ اسرائیل کو اس مسئلے کے حل کی طرف لے کرآئیں تاکہ مشرق وسطیٰ میں بالخصوص اور دنیا میں بالعموم امن قائم ہو سکے۔ آج سات دہائیاں گزرنے کے باوجود بھی فلسطین کا مسئلہ حل طلب ہے۔ یہ مسئلہ اور اس سے جڑے ہوئے مسائل دنیا جہاں میں مسلمانوں کو مزاحمت کی ایک بڑی وجہ فراہم کرتے ہیں۔ اس مسئلے کے حل نہ ہونے سے خود اسرائیل کوبھی بہت نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ اسرائیل کے شہریوں میں عدم تحفظ کا احساس ہر وقت موجود رہتا ہے جس سے انکی معاشی اورمعاشرتی زندگی بھی بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ حماس کے کامیاب حملوں نے ایک بات ثابت کر دی ہے کہ طاقت اور ظلم کے ذریعے کبھی بھی حق پرمبنی مزاحمت کو کچلا نہیں جا سکتا اور جذبے کو شکست نہیں ہو سکتی۔ ان حملوں نے اسرائیل کیلئے جو شرمندگی پیدا کی ہے وہ کبھی بھی بھلائی نہیں جا سکے گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بجائے ہزیمت کو مٹانے کیلئے لاکھوں نہتے اور بے گناہ انسانوں کا قتل کیاجائے زمینی حقائق کو مدِنظر رکھتے ہوئے مسئلے کا حل تلاش کریں جو دو ریاستی حل کی صورت میں موجود ہے۔دنیا کو خاموش رہنے کی بجائے اس پر عملاً کچھ کرنے کی ضرورت ہے بصورت دیگر فلسطینیوں کی نسل کشی سے نہ تو ان کے جذبہ حریت کو شکست دی جا سکتی ہے اور نہ ہی اسرائیل امن و سکون میں رہ سکتا ہے۔

مزیدخبریں