1920ءمیں ہندوستان مختلف تحریکوں کی آماجگاہ بناہوا تھا۔ تحریک خلافت اپنے عروج پر تھی ۔ عوام تو عوام جید علماءبھی ہندو مسلم اتحاد کے جذباتی رجحان کا شکار تھے ،اس پر آشوب دور میں جن نفوس قدسیہ نے حق و صداقت کی شمع روشن کیے رکھی ان میں بانی دار العلوم حزب الاحناف سید دیدار علی شاہ الوری کا نام سر فہرست ہے۔آپ 1273ہجری بمطابق 1856ء پیر کے دن ریاست الور کے ایک ممتاز علمی خاندان میں پیدا ہوئے۔ آپ کا شجرہ نسب جنید زماں سید جلال الدین سرخ پوش بخاری سے ہوتا ہوا امام علی بن موسی الرضا مشہدی سے جا ملتا ہے۔آ پ کا خاندان ابتداءہی سے زہد و تقویٰ اور بزرگی میں ایک ممتاز حیثیت رکھتا تھا۔ آپ کے والد مولانا صوفی سید نجف علی رضوی جید عالم اور جامع شریعت و طریقت بزرگ تھے۔ حضرت محدث الوری اپنے عم مکرم حضرت مولانا سید نثار علی رضوی مشہدی کی دعا سے پیدا ہوئے جنہوں نے آپ کی پیدائش سے قبل آپ کی والدہ کو بشارت دی کہ " تمہارے ہاں بیٹا پیدا ہو گا دین کا چراغ ہو گا۔ دیدا ر علی نام رکھنا "۔
مولانا سید دیدار علی شاہ کا بچپن اپنے عم مکرم قطب وقت سید نثار علی رضوی مشہدی کی آغوش شفقت میں گزرا۔آپ نے صرف و نحو کی ابتدائی کتابیں الور میں مولا قمر الدین سے پڑھیں، مولا نا کرا مت اللہ خاں سے دہلی میں درسی کتابوں اور دورہ حدیث کی تکمیل کی، فقہ و منطق کی تحصیل مولانا ارشاد حسین رامپوری سے کی جو کہ تمام علوم اسلامیہ تفسیر و حدیث اور فقہ کے امام اور تقوی و طہارت میں یکتا تھے۔ اس کے بعد آپ نے مولانا عبد العلی رام پوری (جو امام منطق تھے) سے معقولات کا درس لیا۔ درس نظامی کی تکمیل کے بعد آپ نے شیخ الحدیث مولانا احمد علی محدث سہارنپوری سے کتب حدیث کی سماعت کی ان دنوں آپ کے ہم سبق پیر جماعت علی شاہ، مولانا وصی احمد محدث سورتی اور پیر سید مہر علی شاہ گولڑوی تھے۔اس کے علاوہ مولانا سید دیدار علی شاہ کو حضرت مولانا عبد الغنی مہاجر مدنی (جنہیں چالیس اکابر علماءمکہ معظمہ اور مدینہ منورہ سے حدیث و فقہ کی اجازت تھی) سے اور امام فن قرا¿ت عبد الرحمن صاحب پانی پتی سے بھی قرآن مجید و حدیث و فقہ کی روایت کی اجازت حاصل تھی۔
امام المحدثین سید دیدار علی شاہ مشہدی تکمیل علوم کے بعد سہارنپور سے الور تشریف لائے تو سید شاہ نثار علی رضوی نے آپ کو اپنے صحبت میں رکھ کر منازل سلوک طے کرائے اور علوم روحانیہ سے سرفراز کرتے ہوئے خلعت خلافت عطاءفرمائی ۔ بعد ازاں محدث الوری مزید روحانی فیوض و برکات کے حصول کے لئے انبالہ میں سائیں توکل شاہ انبالوی کی خدمت میں پہنچے اور کامل دو سال آپ کی زیر تربیت ریاضت و مجاہدہ میں مصروف رہے۔ حضرت انبالوی نے آپ کو سلاسل اولیاء کی اجازت و خلافت عطاءفرماتے ہوئے فرمایا۔ اب گنج مراد آباد جاو¿۔ وہاں تمہارا حصہ تمہارے لئے چشم براہ ہے۔ گنج مراد آبادان دنوں مولانا فضل رحمن صدیقی گنج مرا دآبادی کے وجود مسعود کی وجہ سے انوار ِ روحانی کا مرکز بنا ہوا تھا۔ خود امام اہل سنت مجدد دین امام احمد رضا محدث بریلوی نے بھی مرا دآباد میں مولانا فضل رحمن گنج مراد آبادی سے ملاقات کر کے فیض و برکت پائی۔ مولانا شاہ فضل رحمن گنج مرا دآبادی حضرت مولانا شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کے شاگرد اور قطب الاقطاب حضرت محمد آفاق دہلوی کے مرید اور خلیفہ تھے۔
امام المحدثین سائیں توکل شاہ انبالوی کی ہدایت پر گنج مراد آباد حاضر ہوئے اور قطب الاقطاب مولانا فضل رحمن گنج مرا دآبادی کی خدمت میں رہ کر سلوک کی منزلیں طے کرتے رہے۔ سلسلہ عالیہ قادریہ نقشبندیہ میں آپ سے بیعت ہوئے اور حدیث کی اس منفرد سند کے حصول کا شرف حاصل کیا جو صرف ایک واسطے سے شاہ عبد العزیز محدث دہلوی اور صرف دو واسطوں سے امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی تک پہنچتی ہے۔
محدث الوری نے سار ی عمر تبلیغ و اشاعت دین، قرآن و حدیث اور علوم اسلامیہ کی تدریس میں صرف کی۔ علوم ظاہری و باطنی کے حصول کے بعد آپ نے سب سے پہلے ریاست الور کی جامع مسجد میں درس قرآن شروع کیا۔ آپ کے درس کی خصوصیت یہ تھی کہ سننے والے پابند شریعت ہو گئے۔ حتیٰ کہ ہندو بھی مسجد کے باہر کھڑے ہو کر آپ کا درس سنتے۔ آپ اپنے استاد محترم کی ہدایت پر بسلسلہ تدریس بمبئی تشریف لے گئے وہاں آپ نے تبلیغ و اشاعت دین کا سلسلہ جاری رکھا پھر 1912ء میں آپ لاہور تشریف لے آئے اور پنجاب کی شہرہ آفاق دینی درسگاہ جامعہ نعمانیہ میں شیخ الحدیث کے منصب پر فائز ہوئے۔ لاہور میں آپ کی تبلیغی مساعی سے اسلام کو بہت تقویت پہنچی جس اجتماع میں آپ کا اعلان ہوتا، خلق کثیر آپ کی زیارت اور وعظ سننے کے لئے جمع ہو جاتی۔ حضرت محدث الوری 1916ءمیں لاہور سے آگرہ تشریف لے گئے اور جامعہ مسجد اکبر آباد(آگرہ) کے مفتی و خطیب مقرر ہوئے اور 1919 ئ تک اسی منصب پر فائز رہے۔ 1920ئ میں آپ حج بیت اللہ و زیارت روضہ اطہر کے لئے حجاز روانہ ہوئے اور واپسی پر مستقل سکونت کے ارادے سے لاہور تشریف لائے اور جامعہ مسجد وزیر خاں کے خطیب و مفتی مقرر ہوئے۔ آپ نے خطابت کے ساتھ ساتھ درس و تدریس کا سلسلہ بھی شروع فرمایا اور 1924 ءمیں آپ نے مرکزی انجمن حزب الاحناف ہند قائم کی اور اسی انجمن کے ماتحت مسجد وزیر خاں میں درس نظامی کی تعلیم وتدریس شروع کی۔بعد ازاں انجمن کے نام پر باقاعدہ دار العلوم حزب الاحناف کا آغاز کیا جس کے تحت درس و تدریس کا سلسلہ مسجد وزیر خان سے لنڈا بازار پھر یکی دروازے پھر دائی انگہ کی مسجد بعد ازاں مائی لاڈو کی مسجد میں جاری رہا۔ آخر میں اندرون دہلی دروازہ لاہور شیر شاہ سوری کے زمانے کی تین گنبدوں والی مسجد دار العلوم کے لئے منتخب کی گئی جس کی از سر نو تعمیر کے لئے امیر ملت پیر سید جماعت علی شاہ نے بھی خصوصی تعاون فرمایا اور اس قدیمی مسجد میں اب تک کئی اولیاء و مشائخ عظام قدم رنجہ فرما چکے ہیں جن میں سجادگانِ کچھوچھہ شریف سید علی حسین اشرفی الجیلانی، سید مختار اشرف اشرفی الجیلانی،محدث اعظم ہند کچھوچھوی، سید اظہار اشرف اشرفی الجیلانی سمیت مولانا حامد رضا خاں بریلوی، مولانا مصطفی رضا خاں بریلوی،صدر الافاضل سید نعیم الدین مرا آبادی، پیر سید جماعت علی شاہ قابل ذکر ہیں۔ آج پاکستان کا شاید ہی کوئی شہر یا دیہات ہو گا جہاں حزب الاحناف کے فارغ التحصیل علماءدینی خدمات انجام نہ دے رہے ہوں۔
لاہور میں آپ نے سور فاتحہ کا درس پورے ایک سال میں دیا۔آپ نے اس مرحلے میں تفسیر میزان الادیان، تقابل ادیان پر بڑی بحث کر کے اہل علم کے لئے ایک علمی یادگار چھوڑی۔رسول الکلام کے نام سے میلاد النبی پر ایک عمدہ رسالہ سپرد قلم کیا۔ جب یہ رسالہ اعلیٰ حضرت محدث بریلوی کے سامنے پڑھا گیا تو آ پ سنتے سنتے کھڑے ہو گئے اور فرط انبساط میں جھومنے لگے۔
آپ نے دو قومی نظریہ کی حمایت میں ایک جامع فتویٰ مرتب فرما کر شائع کیا جس سے کانگرس نواز علماءبڑے چراغ پا ہوئے اور پورے ہندوستان میں کھلبلی مچ گئی۔ ہندو اور کانگرس علماءنے شدید مخالفت کی مگر آپ نے سینہ سپر ہو کر ان کا مقابلہ کیا۔ مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی نے دو قومی نظریے کی تائید میں آپ کے ٹھوس دلائل سنے تو انہوں نے سر تسلیم خم کر دیا اور لاہور کی تاریخی جامع مسجد وزیر خاں میں منعقد عظیم الشان جلسہ میں اپنی غلطی کا اعتراف کر کے دو قومی نظریے کی مکمل تائید کا اعلان کیا۔
آپ نے 20 اکتوبر 1935 داعی اجل کو اس وقت لبیک کہا جب نماز عصر کے لئے نیت باندھ چکے تھے۔ اندرون دہلی دروازے پرانا حزب الاحناف میں آپ کی آرام گاہ مرجع خاص و عام ہے جہاں پر آپ کے پڑپوتے صاحبزادہ پیر سید نثار اشرف رضوی آج بھی آپ کا علمی و رحانی فیضان جاری رکھے ہوئے ہیں جو کہ علمی لحاظ سے فاضل جامعہ نظامیہ اور پی ایچ ڈی سکالر ہیں اور سلسلہ اشرفیہ اور مجددیہ کی روحانی نسبتوں کے امین ہیں۔