ڈاکٹر سبیل اکرام
فلسطین کی سرزمین ہزاروںانبیاءؑ کا مسکن اور مدفن ہے ۔ اس اعتبار سے یہ بہت ہی مقدس سرزمین ہے لیکن یہ مقدس سرزمین ایک بار پھر یہودیوں کے ہاتھوں لہولہان ہے ۔ وہ یہودی جن کے ہاتھ انبیاءؑ کے خون سے رنگے ہوئے ہیں ۔گویا نیک ، پاکباز اور معصوم لوگوں کا خون بہانا قوم یہود کی فطرت ہے ۔ ارض فلسطین مسلمانوں کے نزدیک بہت ہی مقدس ومحترم ہے اس لیے کہ یہاں مسلمانوں کا قبلہ اول ہے ۔مسلمانوں کے نزدیک مکہ مکرّمہ اور مدینہ منوّرہ کے بعدیہ تیسرا مقدس شہر ہے۔ رسول اللہ کو معراج کی رات میں یہیں لایا گیا۔ اسی شہر میں آپ نے سارے انبیاءعلیہم السلام کی امامت کی اور یہیں سے آپ کا سفر معراج شروع ہوا۔
یہ پاک اور مقدس شہر خلیفہ ثانی عمربن خطاب ؓکے دورِ خلافت میں بمطابق 637 ءسیدنا عمرو بن العاص اور ابوعبیدہ ؓ کی قیادت میں فتح ہوا۔ اس وقت کے حکمرانوں اور پادریوں کی بے توجہی اور بے ادبی کی وجہ سے یہ ساری جگہ ویران تھی اور مقدس چٹان پر کوڑا کرکٹ پڑا تھا۔خلیفہ ثانی سیدنا عمر ؓ نے اس کی صفائی کا حکم دیا اور خود بھی صحابہ کرامؓکے ساتھ مل کر صفائی کی۔ پھر سیدنا عمر فاروقؓ نے براق باندھنے کی جگہ کے قریب نماز ادا کی اور یہاں مسجد کی تعمیر کا بھی حکم دیا۔ا±موی دورِ خلافت میںجب مرکز ِخلافت ملک شام میں تھا تو بیت المقدس کو بہت اہمیت حاصل ہوئی۔مسلم حکمرانوں نے اس شہر کو امن وامان کا گہوارہ بنا یا اور اپنی ریاستوں کے بہترین وسائل اس کی تعمیر وترقی کے لیے وقف کیے ۔اس شہر میں مسلمان کے ساتھ ساتھ عیسائی بھی آباد تھے ۔جنہیں اپنے رسم ورواج کے مطابق زندگی بسر کرنے اور عبادات بجالانے کی پوری آزادی تھی ۔
بدقسمتی سے سے 1099ءمیں بلاد اسلامیہ پر حملے شروع ہو گئے۔ یہ وہ وقت تھا جب خلافت بغداد نزع کے عالم میں تھی عیسائی حملہ آوروں کا راستہ روکنے والا کوئی بھی نہ تھا چنانچہ15/جولائی 1099ءمیں عیسائی بیت المقدس پر قابض ہوگئے ۔اس موقع پر مسجد اقصی اور بیت المقدس میں آگ اور خون کا ایسا بھیانک کھیل کھیلا گیا کہ جس پر انسانیت آج بھی شرمسار ہے ۔مسلمانوں کا قتل عام کرکے فلسطین کا امن تباہ کر دیا گیااور وہ یہاں صلیب کی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے۔
اس کے بعد اللہ کی رضا سے فلسطین میں بسنے والے مظلوم بندوں اور بیت المقدس کی آزادی کے لیے صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں معرکہ ہوا جوعراق کے "تکریت" شہرکے ایک عسکری اور جہادی گھرانے میں 1137ءمیں پیدا ہوئے۔ اس مشہور فاتح کی بحیثیت سلطان 1174 ءمیں مصر کے دارالسلطنت قاہرہ میں تاجپوشی ہوئی۔ صلاح الدین ایوبی کی سب سے بڑی خواہش بیت المقدس اور مسجد اقصی کی فتح تھی۔ عیسائی حکمرانوں کے ساتھ کئی طویل اور خونریز جنگوں کے بعد بیت المقدس اور مسجد اقصی آپ کے ہاتھوں فتح ہوا اور آپ کوفاتح بیت المقدس کا نام دیا گیا ۔یہ بات تاریخ میں ہمیشہ کے لیے لکھی جاچکی ہے کہ صلاح الدین نے بیت المقدس میں داخل ہوکر عیسائیوں کے ساتھ نہایت ہی مشفقانہ سلوک کیا ۔ انھوں نے وہ مظالم نہیں ڈھائے جو اس شہر پر قبضے کے وقت عیسائی افواج نے برپا کیے تھے بلکہ خود برادر حقیقی کے ذریعے زر ِفدیہ ادا کر کے ہر عیسائی کو امان دے دی۔
ایوبی سلطنت کے خاتمہ کے بعد ایک وقت آیا جب خلافت عثمانیہ قائم ہوئی اس دوران مسجد اقصی کا انتظام و انصرام بھی خلافت عثمانیہ کے تحت تھا۔ یہودیوں نے خلافتِ عثمانیہ کے34ویں فرمانروا سلطان عبد الحمید ثانی (1918-1842) کو مختلف طریقے سے لالچ دیکر اپنے دامِ تزویر میں پھنساکر فلسطین میں یہودی ریاست قائم کرنے کی بے انتہا کوشش کی مگر خلیفہ کسی بھی صورت میں تیار نہ ہوئے۔اس دوران دنیا کو پہلی جنگ عظیم کاسامنا کرنا پڑا جنگ عظیم کے شروع ہونے کے اسباب کچھ اور تھے لیکن بدقسمتی سے اس جنگ کی سزا خلافت عثمانیہ کو ملی اور یورپ نے خلافت عثمانیہ کی بندبانٹ کردی ۔1917ءمیں برطانیہ نے فلسطین اور بیت المقدس پر قبضہ کرکے "بالفور" معاہدہ کے تحت فلسطین میں یہودی ریاست قائم کرنے کا ارادہ کرلیا اس طرح سے یہودیوں کو فلسطین میں آباد ہونے کی اجازت مل گئی۔ پھروہ فلسطین میں آباد ہوتے چلے گئے اور دن بدن ان کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتاچلا گیا ۔ فلسطینی مسلمانوں نے ان کے خلاف بھر پور مظاہرے کیے مگر یہ مظاہرے صدا بصحرا ثابت ہوئے اور یہودیوں کی آمد کا سلسلہ جاری رہا۔
1947ءمیں برطانیہ، امریکہ اور فرانس کی ملی بھگت کے نتیجے میں جنرل اسمبلی نے فلسطین کو تقسیم کرکے اس کی 54 فی صد اراضی پر غاصب صہیونی ریاست کے قیام کا اعلان کردیا۔پھر اس غاصب ریاست نے اپنے آقاو¿ں کی مدد سے فلسطینی مسلمانوں پر زبردستی کی کئی جنگیں تھوپ کر لاکھوں معصوم فلسطینی مرد و خواتین اور بچوں کا قتل عام کیااور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے یہاں تک کہ آج فلسطین کا تقریبا 87 فی صد حصّہ صہیونی ریاست کے قبضے میں ہے ۔
غزہ پر اسرائیلی حملہ بھی اسی سلسلہ کی کڑی ہے ۔ اس وقت حماس اور اسرائیل کے درمیان جو جنگ جاری ہے اس کی مثال ایسے ہے کہ جیسے چوروں اور ڈاکوﺅں کا کوئی گروہ کسی کے گھر میں داخل ہوجائے گھر پر قبضہ کرلے اور گھر کے جو اصل مالکان کوکسی جگہ بندکرکے ، ان کو بھوک ، پیاس و بیماریوں میں چھوڑ دیا جائے ان حالات میںمرنے والے فلسطینی ” تنگ آمد بجنگ آمد “ کے مصداق۔اپنی جانوں ہی پر کھیل سکتے ہیں ۔آج حماس کو بھی ” تنگ آمد بنجنگ آمد “ کے مصداق یہی کچھ کرنے پر مجبور کردیا گیا ہے ۔ ان حالات میں سوال یہ نہیں کہ فلسطینی مسلمانوں نے بے سروسامانی کی حالت میں اسرائیل پر حملہ کیوں کیا ۔۔۔۔۔۔؟ اصل سوال یہ ہے کہ فلسطینی مسلمانوں کو اس حملے پر مجبور کس نے کیا ۔۔۔؟ وہ کون سی طاقتیں ہیں جو فلسطینی مسلمانوں کو ان کاحق نہیں دے رہی ہیں اور مظلوموں کی مدد کی بجائے خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہیں اور غاصب اسرائیلی ریاست کی پیٹھ ٹھونک رہی ہیں ۔ فلسطینی مسلمانوں پر مظالم کی تاریخ دہائیوں پر محیط ہے ۔۔۔افسوس یہ ہے کہ ان مظالم پر عالم اسلام بھی خاموش ہے کسی طرف سے کوئی عملی اقدام نہیں اٹھایا جارہا ۔غزہ پر یہ بمباری فلسطینی مسلمانوں پر نہیں بلکہ 57اسلامی ممالک کے حکمرانوں کی غیرت ایمانی پر ہے بشرطیکہ یہ غیرت ان میں زندہ ہو تو ۔۔۔۔۔! کاش ! 57اسلامی ممالک کے سربراہ یہ جان لیں کہ مسئلہ صرف فلسطینی مسلمانوں کا نہیں بلکہ بیت المقدس اور قبلہ اول مسجد اقصی کا ہے۔