دنیا جیسے جیسے ترقی کے منازل طے کر رہی ہے ، اسی رفتار سے معاشرتی بگاڑ پیدا ہو رہے ہیں ، جن میں جنسی ہرص و حوس نے انسان کو حیوان بنا دیا ہے ، اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں انجیر، زیتون، طور سینا اور شہر مکہ کی قسم کھا کر فرمایا کہ ’’ بیشک ہم نے انسان کو سب سے اچھی صورت میں تخلیق کیا ہے ، اس کے اعضاء میں مناسبت رکھی ، اسے جانوروں کی طرح جھکا ہوا نہیں بلکہ سیدھی قامت والا بنایا ، اسے جانوروں کی طرح منہ سے پکڑ کر نہیں بلکہ ہاتھ سے پکڑ کر کھانے والا بنایا ، اور اسے علم و فہم عقل ، تمیز اور باتیں کرنے کی صلاحیت سے نواز ، (سورۃ التین)۔
دور حاضر میں چند عناصر اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ صفات سے محروم ہو چکے ہیں اور عفریت کے لباس میں یہ ننگ انسانیت افراد تعلیمی اداروں میںجنسی ہراسانی میں ملوث ہو کر معاشرے کو حوس زدہ کرنے کے مرتکب ہیں ، ملک کے طول وعرض میں اعلیٰ درجے کی درسگاہوں میں آئے روز جنسی ہراسانی اور ریپ کے واقعات میڈیا کی زینت بنتے ہیں ، جن میں کراچی کے ایک معروف اسکول کا واقعہ ، شعبہ علوم اسلامی کے صدرگومل یونیورسٹی ڈیرہ اسماعیل خان میں رنگے ہاتھوں پکڑے گئے ، ملتان کی یونیورسٹی بہائوالدین کے اساتذہ کا کردار بھی میڈیا کے ذریعے منظر عام پر آیا ، جنسی ہراسانی کی ابتداء سب سے پہلے لاہور گرامرسکول کی ایک طالبہ نے اپنی شکایت درج کر وا کر کی ، جس کے بعد دیگر تعلیمی اداروں کی طالبات نے اپنے ساتھ پیش آنے والے ہراسانی کے واقعات کی نشان دہی کی، لیکن طالبات کے ساتھ ہونے والے جنسی ہراسانی کے معاملات پر کوئی قانون سازی نہیں کی گئی اور نہ ہی تعلیمی اداروں میں ہراسانی سے متعلق شکایات کا کوئی نظام موجود ہے ۔
لاہور کے ایک نجی تعلیمی ادارے کے تقریباً ایک درجن سے زائد طالبات نے اپنے اساتذہ پر سوشل میڈیا کے ذریعے جنسی ہراسانی کے الزامات عائد کئے ، ان الزامات کی تحقیق بھی ایک مسئلہ ہوتا ہے ، 2016 ء میں ہاورڈ بزنس ریویوکی ایک تحقیق کے مطابق جنسی ہراسانی کے متاثرین ان معاملات کو انتقامی کاروائی کے خوف سے رپورٹ ہی نہیں کرواتے ، کیونکہ معاشرے میںرائج تھانہ کلچرکا خوف بھی ان متاثرین کو روکتا ہے، اول جنسی زیادتی اور پھر انصاف کے لئے اعصاب شکن اور روح کو جلسا دینے والی دوڑ دھوپ ، ایسے واقعات کے بعد عورت کی شخصیت پہلے جیسی نہیں رہتی ، اور اکثر خواتین ڈپریشن میں مبتلا ہو جاتی ہیں ۔
ہیومن رائٹس واچ جیسے بین الاقوامی اداروں نے پاکستان میں خواتین کے خلاف ہونے والے جرائم کی نشان دہی اپنی رپورٹس میں متعدد مرتبہ کی ہے، آل پاکستان پرائیویٹ سکولز فیڈریشن طالبات کی جانب سے شکایات کے حوالے سے جانبدارانہ موقف رکھتے ہیں ان کے مطابق ’’ یہ بظاہر ایک سازش ہے جو تعلیمی اداروں کو بدنام کرنے اور ’’ می ٹو‘‘ مہم جیسی بین الاقوامی مہم کے پس پردہ مقاصد کی تکمیل کے لئے کی جا رہی ہے، سینکڑوں طالبات کی شکایات کا منظر عام پر آنے سے معاشرے میں اس مسئلے کی سنگینی ظاہر ہوتی ہے، سازشی پہلو کے حوالے سے قانون دانوں کی رائے میں ایسے مقدمات کو لڑنے کیلئے وکلاء اور مقدمہ چلانے والوں میں جو تعلم و تربیت درکار ہوتی ہے ، اس کا بے حد فقدان ہے ، کیونکہ ہمارے معاشرے میں اس نوعیت کے الزامات کو غلط سمجھا جاتا ہے۔
2018 ء میں تھامس روئٹرز فائونڈیشن جو کہ ایک بین الاقوامی خیراتی ادارہ ہے اس نے خواتین کے لئے خطرناک ممالک کی ایک فہرست شائع کی تھی جس میں پاکستان چھٹے نمبر پر تھا ۔
حصول انصاف میں جنسی استحصال کی شکار خواتین کے لئے شکایت درج کروانا ایک گھمبیر مسئلہ ہے ، جس کے اثرات کو پوری طرح نہ سمجھنا اور ایسے واقعات کو باہمی رضا مندی کا نتیجہ اخذ کرلینا ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا المیہ ہے جب کہ ملک میں جنسی ہراسانی سے متعلق کوئی قانون ہی نہیں ہے ، 2010 ء میں خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لئے قانون وومن پروٹیکشن ایکٹ اور موقع واردات پر پیش آنے والی ہراسانی کی شکایت کے لئے ایک خصوصی محتسب کے دفتر کا قیام تجویز کیا گیا ہے، لیکن تعلیمی اداروں میں ہونے والی جنسی زیادتی یا ہراسانی کے سدباب کے لئے کوئی قانون موجود نہیں ہے ۔
مقدمے یا شکایت درج کرانے سے پہلے اس بات کا بھی تعین پہلے کیا جاتا ہے کہ طالبہ کے ساتھ ہونے والا واقعہ ہراسانی کے زمرے میں آتا ہے کہ جنسی زیادتی ہے ، خواتین سے جنسی استحصال اور ریپ کا نتیجہ کسی بھی صورت میں نکلے اس کی ذمہ دار ی لینے والا کوئی نہیں جب کہ معاشرے میںجنسی زیادتی کی شکار خواتین کو شک و شبہہ کی نظر سے دیکھا جاتا ہے،لوگوں کو اس طرزعمل کے نتائج کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا چاہئے ، ایسے واقعات میں صرف عورت ہی متاثر نہیں ہوتی بلکہ اس کے اردگرد رہنے والے لوگ اور اس کا اپنا خاندان بھی شدید متاثر ہوتا ہے ، خواتین اور کم عمر بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات نے ایک تسلسل سے منظر عام پر آنے سے معاشرے کی شکل بگاڑ دی ہے ، اس مسئلے کے حل کے لئے پائیدار وسائل کی فراہمی اور دوراندیش قیادت کا ہونا ضروری ہے، جو کہ انسانیت کے مفہوم کی سمجھ رکھتا ہو، کیونکہ یہ مردوں کا معاشرہ ہے جو بنت حواء کو آواز اٹھانے سے کچل دیتا ہے۔
بس کہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو میسر نہیں انساں ہونا
حکومت کو ایسے واقعات کے سدباب کیلئے سخت قانون سازی کرنی چاہیے اور تعلیمی اداروں کو پابند کیا جائے کہ طلباء کی شکایت کیلئے ایک مربوط نظام وضع کرے۔
٭…٭…٭