شنگھائی تعاون تنظیم اور پاکستان

انسان کی تخلیق کے وقت خالقِ کائنات نے اْس کی سرشت میں انتشار پسندی اور خود غرضی کی خصلتیں کوٹ کوٹ کر بھر دی تھیں۔ یہ عادات ہر دور میں انفرادی اور اجتماعی طور پر قتل و غارت، دنگا فساد، جنگ و جدل، مکر و فریب، چغلی بخیلی، بغض و حسد، غرضیکہ ہر برائی کا پیش خیمہ ثابت ہوتی رہیں۔ اِس منفی پہلو کے ساتھ ساتھ انسانی مثبت سوچ سے انکار یا فرار بھی کسی طور ممکن نہیں جس کی وجہ سے انسانوں کے درمیان مقابلہ بازی اور رشک کے جذبات جنم لیتے رہے۔ اِس مسابقتی سوچ کی وجہ سے رفتہ رفتہ انسانی ذہن علم، ادب، تحقیق اور جستجو کے میدان میں زینہ بہ زینہ مختلف مدارج طے کرتے ہوئے رموزِ کائنات جانتا، تسخیرِ ارض کرتا اور ستاروں پہ کمندیں ڈالتا ہوا موجودہ اعلیٰ و ارفع مقام پر پہنچا جس کو انتہائی ترقی یافتہ دور کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا۔ دنیا میں آئندہ چند دہائیوں میں مزید کیا ترقی اور خرابیاں جنم لے سکتی ہیں، مَاضی اور حال کی تاریخ کھنگال کر اِس کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ منفی رویوں میں کابیل کے ہاتھوں ہابیل کا قتل، فرعون کا دریا برد ہونا، برطانیہ کا اپنی بحری طاقت کے ذریعے دنیا کے وسیع خطے پر حکمرانی کرنا، اتحادیوں اور نازیوں کے مابین دو عظیم جنگوں کا برپا ہونا، امریکہ کا نیٹو ممالک کو ساتھ ملا کر افغانستان، عراق اور لیبیا کی اینٹ سے اینٹ بجا دینا، اسرائیل کا غزہ میں قیامت برپا کرنا اور بھارت کا کشمیریوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنا شامل ہیں۔ 
دوسری طرف طب کے شعبے میں ترقی سے انسانوں کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا ہوئیں۔ انجینئرنگ کے شعبے میں اہرام مصر، تاج محل، دیوارِ چین، ایفل ٹاور، برج خلیفہ، وغیرہ کو دیکھ کر آنکھیں خیرہ ہو جاتی ہیں۔ دریاؤں، سمندروں اور خلا کو تسخیر نے انسانی زندگیوں کو سہل اور آسان تر کر دیا ہے۔ ذرائع رَسل و رسائل اور آمدورفت اتنے آرام دہ اور سبک رفتار ہو چکے ہیں کہ مہینوں اور سالوں پر محیط سفر چند گھنٹوں کی مار ہو گیا ہے۔ ذرائع رَسل و رسائل میں رہی سہی کسر آئی ٹی کی ترقی نے نکال دی ہے۔ اب تو جس فرد، قوم یا ملک کے پاس دولت اور ٹیکنالوجی ہے، وہ جنت میں رہ رہا ہے۔ مختلف اقوام میں مقابلے کی دوڑ مزید ترقی کا باعث بن رہی ہے۔ یوں ترقی کا یہ سفر انفرادی اور اجتماعی طور پر جاری و ساری ہے۔ مختلف اقوام یا ممالک اپنے قومی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے دوسرے ممالک کے ساتھ اتحاد کرکے اپنی طاقت کی دھاک بٹھانے اور ترقی کی موجودہ رفتار کو تیز تر کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔ 
اس وقت اقوامِ عالم میں معیشت، تحفظ اور دفاعی ضروریات کے نام پر بہت سے تشکیل شدہ اتحاد موجود ہیں جن میں جی سیون، جی ٹوئنٹی، یورپی یونین، کواڈ، وغیرہ نمایاں ہیں۔ جی سیون اور جی ٹوئنٹی تو اقتصادی و معاشی و معاشرتی امور پر بننے والے اتحاد ہیں۔ اِن اتحادوں کا بنیادی مقصد اتحاد میں موجود ممالک کی معیشت و معاشرت کی بہتری، ترقی اور استحکام کے علاوہ سیاسی ہم آہنگی کا فروغ بھی شامل ہے۔ یورپ میں بننے والے اتحادوں نے برطانیہ کے علاوہ باقی تمام ممالک کی کرنسیوں کو یورو میں تبدیل کر دیا۔ دیوار برلن گرا دی گئی اور اتحاد میں شامل ممالک کے درمیان تجارتی رعائتیں دی گئیں۔ نیٹو امریکی و برطانوی سرپرستی میں بتیس ممالک پر محیط ایک مضبوط فوجی اتحاد ہے جس کا بنیادی مقصد رکن ممالک کے دفاع اور سلامتی کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے۔ اتحاد میں شامل ممالک میں سے کسی ایک ملک پر حملہ، تمام رکن ممالک پر حملے کے برابر تصور کیا جاتا ہے۔ اِس وقت یہ دنیا کا سب سے بڑا اور مضبوط اتحاد ہے جس نے دنیا کے بہت سے ممالک، خاص طور پر اسلامی ممالک پر لنکا ڈھانے کا فریضہ بڑی ڈھٹائی کے ساتھ سر انجام دیا ہے۔ 
اسلامی ممالک میں بننے والا اتحاد او آئی سی کہلاتا ہے مگر اِن دنوں یہ امریکہ اور برطانیہ کے لے پالک اسرائیل کے سامنے عضو معطل بنا ہوا ہے۔ سارک بھی بھارتی بالا دستی اور ہٹ دھرمی کے سامنے تہی دامن کھڑا دکھائی دیتا ہے۔ پاکستان کی سینٹو، سیٹو اور آر سی سی ڈی میں شمولیت بھولے بسرے نغموں سے بھی زیادہ گمنامی میں چلی گئی ہے۔ 2002ء میں پاکستان نے عارضی طور امریکی اتحادی بن کر فوائد بہت کم اور نقصانات کہیں زیادہ حاصل کئے۔ سارک کی ناکامی اور اس چین کے علاوہ دیگر ہمسایہ ممالک سے تعلقات بہتر نہ ہونے کے باعث پاکستان کیلئے ضروری ہو گیا تھا کہ وہ کسی علاقائی فورم کا حصہ بنے۔ 2001ء روس اور چین نے شنگھائی تعاون تنظیم کی بنیاد نے رکھی اور اس میں قازقستان، کرغزستان، تاجکستان اور ازبکستان کو شامل کیا۔ پاکستان کافی عرصہ اس کا مبصر ممبر رہا۔ جولائی 2017ء میں بھارت اور پاکستان کو باضابطہ طور پر ایس سی او میں شامل کر لیا گیا۔ گزشتہ سال ایران بھی اِس تنظیم کا ممبر بنا۔ رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا ملک روس، آبادی کے لحاظ سے دو بڑے ممالک انڈیا اور چین اور ایٹمی قوت کے لحاظ چار ممالک، اس تنظیم کے رکن ہیں۔ اِس کی اہمیت اِس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ یہ فورم دنیا کی کل آبادی کے 40 فیصد پر محیط ہے۔ 
15 اور 16 اکتوبر 2024ء کو شنگھائی تعاون تنظیم کے 23ویں اجلاس کی میزبانی کا شرف پاکستان کو حاصل ہوا۔ اسلام آباد میں اس کا دو روزہ اجلاس نا مساعد سیاسی فضا اور مختلف گروہوں کی طرف سے کسی ناخوشگوار واقعہ سے بچنے کیلئے انتہائی سخت سکیورٹی میں منعقد ہوا۔ اِسکی کامیابی کا کریڈٹ تمام تر سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے موجودہ حکومت کو دیا جانا چاہئے۔ تنظیم کا اگلا اجلاس آئندہ برس روس کی میزبانی میں ہوگا۔ بھارت کی جانب سے وزیر خارجہ ڈاکٹر ایس جے شنکر نے اس اجلاس میں شرکت کی۔ 
گذشتہ دس سالوں میں کسی اعلیٰ بھارتی عہدیدار کا پاکستان کا پہلا دورہ تھا۔ اجلاس سے قبل بھارتی وزیر خارجہ نے اپنی روایتی سوچ کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ واضح کر دیا تھا کہ وہ پاکستان صرف ایس سی او کے اجلاس میں شرکت کے لیے آ رہے ہیں اور اس دورے کا مقصد دو طرفہ تعلقات کی بحالی نہیں مکر سارک کے برعکس روس اور چین کی موجودگی کی وجہ سے بھارت کو من مانیاں کرنے کا موقع نہیں مل سکے گا۔ ایس سی او کا ہدف دہشت گردی، انتہا پسندی، منشیات کی سمگلنگ اور بنیاد پرستی جیسے مشترکہ مسائل پر قابو پانا ظاہر کیا گیا ہے۔
اجلاس کے خاتمے پر جو مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا اسکے مطابق تنظیم نے غیر امتیازی اور شفاف تجارتی نظام کے قیام کی ضرورت پر زور دیا جب کہ یکطرفہ تجارتی پابندیوں کو ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (WTO ) کے قوانین کے خلاف قرار دیتے ہوئے اس طرح کی پابندیوں کی مخالفت کی۔ تنظیم کے دو روزہ اجلاس کے کامیاب انعقاد پر پاکستان کی ساکھ میں اضافہ ہوا ہے اور پاکستان کو معاشی چیلنجز سے نمٹنے کیلئے ایک موثر یلیٹ فارم بھی میسر ہو گیا ہے۔ 
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن