میڈیا پالیسی ‘ سوچنے کی ضرورت

منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
 کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ
سامنے کی بات ہے۔ شنگھائی تعاون کانفرنس جیسا اہم ترین ایونٹ کامیابی سے مکمل ہوا ۔ چین ، روس ،بیلاروس ،قازقستان، کرغستان، ازبکستان ، تاجکستان، اور منگولیا کے وزیر اعظموں کے ساتھ ساتھ ایران کے اول نائب صدر اور بھارت اور ترکمانستان کے وزرائے خارجہ کی پاکستان آمد معمولی بات نہ تھی ۔ اس کانفرنس کے بعد تو کئی ہفتے اس کے اجلاسوں میں ہونے والی بات چیت زیر بحث رہتی لیکن ہوا کیا ادھر کانفرنس ختم ہوئی اور ادھر احتجاج کی مختلف صورتوں نے تھڑوںں اور سوشل میڈیا کی بحثوں میں جگہ بنا لی ۔سب سے اہم موضوع لاہورکے نجی کالج میں ایک بچی کے حوالے سے جڑا افسوس ناک واقعہ بن گیا ۔ احتجاج اور محاز آرائی کے موضاعات میں آئینی ترمیم اور تحریک انصاف کی قیادت سے ملاقات اور عدالتوں کی اندرونی کشمکش شامل تھے ۔ پنجاب بھر میں چھوٹے بڑے طالبعلموں کے مظاہرے حیران کن تھے کیونکہ جس حوالے سے یہ مظاہرے ہو رہے تھے وہ انتہائی پر اسرار تھا اور حکومت اس بارے میں مسلسل وضاحت کر رہی تھی کہ ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا لیکن سوشل میڈیا کی یلغار ایسی تھی کہ چھوٹے چھوٹے طالب علموں میں سے کوئی ان وضاحتوں پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں تھا ۔میں نے اسی پس منظر میں کئی بار لکھا ہے کہ جب مین سٹریم میڈیا کو مکمل آزادی نہ رہے یا لوگوں میں یا تاثر عام ہو جائے کہ میڈیا آزاد نہیں رہا تو پھر افواہیں بھی خبریں بن جاتی ہیں اور سوشل میڈیا کا جھوٹ سچ سب کچھ د لوں میں گھر کرنے لگتا ہے۔ اس سارے معاملے کا تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ احتجاج میں قیمتی املاک کو نقصان پہنچا اگرچہ وہ ایک نجی ادارے کی تھیں لیکن کسی نہ کسی حوالے سے پاکستان کی ہی تھیں ۔ اگرچہ اس احتجاج میں کمی ہو رہی ہے لیکن اس معاملے کو بہتر طریقے سے ہینڈل کیا جا سکتا تھا اور اب یہ جو احتجاج کرنے کا ٹرینڈ سکول اورکالج کے ابتدائی مرحلے کی کم عمر نسل کے مزاج کا حصہ بن گیا ہے وہ نہ بنتا ۔ ایک نقصان یہ بھی ہوا کہ حکومت نے بچوں کے تعلیم سے صحت تک کے جو متعدد اقدامات اب تک کئے ہیں وہ سب دب کررہ گئے ۔ مجھے گزشتہ دنوں چلڈرن ہسپتال میں جانے کا اتفاق ہوا ۔ ایک بڑے وسیع کیمپس کی نئی عمارت میں بچوں کے علاج معالجے کے لئے بہترین انتظامات دیکھ کر دل خوش ہوا ۔ البتہ گیٹ پر کھڑے پہریداروں کی طرف سے ہر آنے والے کے لئے یہ نوید کہ اندر پارکنگ نہیں بلکہ باہر کہیں جا کر پارکنگ کرنا ہو گی اور اندر والدین کے لئے واش رومز کی تنگی اصلاح طلب تھی ۔پھر بھی یہا ں دل کے مریض بچوں کیلئے پہلے سے کہیں زیادہ بہتر انتظامات سے خوشی ہوئی ۔ اسی طرح لاہور جنرل ہسپتال میں بچوں کے پھیپھڑوں اور امراض تنفس کے بروقت علاج و تشخص کیلئے برونکو سکوپی جیسی جدید سہولت کا آغاز کیا گیا ہے ا۔ افتتاحی تقریب کے مہمان خصوصی پرنسپل امیر الدین میڈیکل کالج پروفیسر الفرید ظفر تھیجن کا کہنا تھاکہ یہ پروسیجر پلمو نالوجی اور بچوں کے ماہرین مل کر کریں گے پروفیسر آغا شبیر علی، پروفیسر میاں حنیف، پروفیسر فہیم افضل، ایم ایس ڈاکٹر فریاد حسین، ڈاکٹر جاوید مگسی، ڈاکٹر نعیم اختر، ڈاکٹر سفیان اکرم اور ہیلتھ پروفیشنلز کی کثیر تعداد بھی افتتاحی تقریب میں موجود تھی ۔پروفیسر ڈاکٹر الفرید ظفر کا کہنا تھا کہ ایل جی ایچ میں معیاری طبی سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں اور وزیر اعلٰی مریم نوازشریف کی ہدایت کے مطابق بچوں کے علاج پر خصوصی توجہ دے رہے ہیں، جس سے  مستقبل قریب میں مریضوں کو بہترین طبی سہولیات اور آسانیاں میسر آئیں گی۔میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر فریاد حسین جو بچوں کے امراض کے ماہر ڈاکٹر بھی ہیں نے بتایا کہ برونکو سکوپی سے بچوں کے پھیپھڑوں کی پیچیدہ بیماریوں کی تشخیص ہوگی، جس سے بلا تاخیر علاج ممکن ہو سکے گا جبکہ برونکو سکوپی سنٹر ٹیسٹ کی سہولت مفت دستیاب ہوگی۔ پروفیسر الفرید ظفر نے بچوں کے لئے برونکو سکوپی یونٹ بنانے پر ایم ایس ڈاکٹر فریاد حسین کی کاوشوں کو سراہا ان کا کہنا تھا کہ برونکوسکوپی پروسیجر کیلئے ڈاکٹرز کو تربیت فراہم کی جائے گی۔ اس سلسلے میں ہیڈ آف دی ڈیپارٹمنٹ پلمانولوجی ڈاکٹر جاوید مگسی اور ایم ایس ڈاکٹر فریاد حسین کو خصوصی ٹاسک دے دیا ہے کہ وہ نوجوان ڈاکٹرز کی تربیت کیلئے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کریں۔ یہ صرف دوتین ہسپتالوں کی بات نہیں ہے بلکہ صحت کے لئے پنجاب بھرمیں ایسے ہی اقدامات کئے جا رہے ہیں اور تعلیم کے شعبے میں طالب علموں کو آئی ٹی کی سہولتیں دینے لیپ ٹاپ سکیموں کے اجرا ، مختلف قسم کے وظائف، الیکٹرک موٹر سائیکلوں اور حوصلہ افزائی کی دوسری باتوں کے باوجود جب مین سٹریم میڈیا کے حوالے سے اعتبار ختم ہوا تو سوشل میڈیا کے راستے سب کچھ دریا برد ہوتا محسوس ہوا ۔ اس وقت ملک بھر میں ایک ہیجان کی کیفیت ہے۔ ایسے میں تمام اہل اختیار کو تمام اپوزیشن رہنمائوں کو ٹھنڈے دل سے تمام حالات کا جائزہ لینا چاہئیے ۔ ضد میری مجبوری جیسے ٹرکوں کے پیچھے لکھے جملوں کی پالیسی چھو ڑ کر ایک ایسی لائن اختیار کرنی چاہئیے جو ملک وقوم کے لئے نیک شگون ثابت ہو۔ آج کے بچے کل کے شہری اور ملک کے وارث ہیں ۔ ان کے سامنے اچھی مثالیں ہمارے بہتر مستقبل کی ضمانت بن سکتی ہیں ۔ سوشل میڈیا پر سیاسی حوالے سے جو بیانات جو پر تشدد واقعات جو روئیے جو سیاست اور طاقت کے مظاہروں کی جھلکیاں دکھائی جارہی ہیں ان کے اثرات کچھ تو لاہور کے کالج کے پس منظر میں ہمارے سامنے آ چکے ہیں اور مستقبل میں بھی اس کا منفی پہلو سامنے آ سکتا ہے ۔ ایسے میں تعلیمی میدان میں پنجاب حکومت کے فلاحی اقدامات یا ہسپتالوں میں ڈاکٹرو ں کی رات دن خدمات بے اثر ہوتی جائیں گی ۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہماری حکومت اوراپوزیشن میں موجود قیادت ملک و قو م اور مستقبل کے وارثوں کی خاطر اپنے دلوں کو حب الوطنی کے نور سے منورکرے۔ ڈاکٹر فقیر محمد فقیر نے کہا تھا
دنیا دے وچ رکھ فقیرا ایسا بہن کھلون
کول ہویں تے ہسن لوکی ، نہ ہویں تے رون

ای پیپر دی نیشن