سرگودھا میں وفاق کی اشاعت کے چند ماہ بعد ہی ایک بڑا سانحہ پیش آیا۔ یہ سانحہ تھا ممتاز اہل حدیث عالم دین مولانا ثناء اللہ امرتسری مرحوم کے دو پوتوں مولانا بہاء اللہ ثنائی اور جناب ذکاء اللہ ثنائی کا بہیمانہ قتل۔ یہ وہی اصحاب تھے جنہوں نے سرگودھا سے وفاق کے اجراء کی بہت حوصلہ افزائی کی تھی اور انہی کے ثنائی پریس میں وفاق چھپتا تھا۔ یہ قتل ایک سب انسپکٹر پولیس احسان اللہ صابر نے کئے تھے جو سیٹلائٹ ٹائون میں ثنائی برادران کا کرایہ دار تھا۔ احسان اللہ صابر سرگودھاکے ایک سینئر پولیس افسر کا قریبی عزیز تھا اور انہی کی مدد سے وہ سرگودھا سے فرار ہو کر علاقہ غیر میں چلا گیا۔شہید ثنائی برادران کا جنازہ سرگودھا کی تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ تھا۔ مولانا ثناء اللہ امرتسری علماء کرام کی اس اولین فہرست میں سب سے سرکردہ شمار ہوتے تھے جنہوں نے مرزا غلام احمد قادیانی کی جعلی نبوت کا پردہ چاک کیا تھا۔ انہوں نے بے شمار رسائل لکھے، کتابیں تصنیف کیںاور جعلی نبی کومناظرے کے چیلنج دیئے۔ اہل حدیث علماء میںتو ان کی عزت و تکریم تھی ہی دیگر مسالک کے لوگ بھی ان کے خاندان کو بہت تعظیم دیتے تھے۔ ذکاء اللہ ثنائی سرگودھا کی بلدیاتی سیاست کا بھی اہم کردار تھے اور ان کا شمار سرگودھا کے سنجیدہ سیاست دانوں میں ہوتا تھا۔ یہ چار بھائی تھے۔ دو جام شہادت نوش کرگئے، ایک خالص اللہ والے تھے اور ثنائی پریس پر صرف حاضری ہی ان کا فریضہ تھا۔ البتہ نوجوان ضیاء اللہ ثنائی نے سیاست میں اپنے بھائی کی جانشینی کی، پھر وہ سرگودھا میں ثنائی پریس کا کاروبار اپنے بھتیجوں کو منتقل کرکے خود سرگودھا سے لاہور آگئے اور یہاں ثنائی پریس قائم کیا۔ ان کی موت بھی ایک عجیب واقعہ تھا۔ وہ اپنے دوست سے ٹیلی فون پر محوگفتگو تھے۔ گفتگو ختم کی رسیور رکھا اس کے ساتھ ہی انہیں دل کا شدید دورہ پڑا اور چند لمحوں میں ہی کوئی طبی امداد ملے بغیر خالق حقیقی سے جا ملے۔
وفاق چونکہ سرگودھا کا اکلوتا روزنامہ تھا۔ اس نے ثنائی برادران کی شہادت کے سانحے کو بڑی اہمیت دی اورکئی ماہ تک واویلا کرتا رہا کہ احسان اللہ صابر کو علاقہ غیر سے گرفتار کرکے سرگودھا لایا جائے اور کیفر کردار تک پہنچایا جائے ۔ سرگودھا میں وفاق کی اشاعت کے بعد ایک اور بڑا واقعہ ری مونٹ ڈپو سرگودھا کے سربراہ میجر یعقوب کی اہلیہ لیڈی لیکچرار نسیم یعقوب کی پر اسرار گمشدگی کا تھا۔ میجر یعقوب کی یہ دوسری شادی تھی۔ نسیم یعقوب راولپنڈی کے ایک کالج میں پڑھاتی تھیں۔ وہ اپنے شوہر سے ملنے پنڈی سے سرگودھا آئیں اور چند روز بعد ریل کے ذریعے پنڈی جانے کے لئے روانہ ہوگئیں لیکن وہ پنڈی نہ پہنچ پائیں۔ اس واقعہ کا اخبارات میں خصوصی چرچا ہوا۔ وفاق اس مہم میں پیش پیش تھا کہ نسیم یعقوب کاسراغ ملے۔ ہمارے سٹاف رپورٹر زیڈ یو خان ایک زبردست صحافی تھے۔ وہ یہ سراغ لگانے میں کامیاب ہوئے کہ نسیم یعقوب منڈی بہائوالدین تک پہنچ پائیں۔ وہاں میجر یعقوب کے بھائی مسعود احمد انہیں اپنے ساتھ لے گئے جہاںسے ان کا کوئی سراغ نہ مل سکا۔ بعد میں یہ حقیقت سامنے آئی کہ نسیم یعقوب کو ان کے شوہر میجر یعقوب نے قتل کرایا ہے۔ میجر یعقوب اور ان کے بھائی مسعود گرفتار ہوئے ، ان کے خلاف ایک خصوصی جرگہ میں مقدمہ چلایا گیا۔ زیڈ یو خان نے نہایت بہادری سے اس جرگہ میں پیش ہو کر اپنی گواہی ریکارڈ کرائی۔ ادارہ وفاق نے زیڈیو خان کو سٹاف رپورٹر سے ترقی دے کر ریذیڈنٹ ایڈیٹر بنادیا۔1965 ء میں ہم نے لاہور سے وفاق کا اجراء کیا اور مصطفی صادق صاحب اور یہ خاکسار سرگودھا چھوڑ کر لاہور آگئے ۔ اور وفاق کا انتظام و انصرام زیڈیو خان کو سونپ دیا۔ زیڈ یو خان نے بعد میں اپنا اخبار سرگودھا ٹائمز نکالا۔ وہ چل نہ سکا تو ڈپٹی کمشنر سرگودھا مسعود الرئوف جو تبدیل ہو کر صوبائی سیکرٹری اطلاعات مقرر ہو چکے تھے کی سفارش پر گوجرانوالہ جنگ کے بیورو چیف اور کچھ عرصہ گوجرانوالہ رہنے کے بعد انہیں جنگ راولپنڈی کا چیف رپورٹر بنادیا گیا۔ چندسال وہ اس منصب پر فائز رہے اوران کا شمار دارالحکومت کے اچھے صحافیوں میں ہونے لگا۔ پھر جب جنگ نے لندن سے ایک ایڈیشن کا اجراء کیا تو ان کو ترقی دے کر جنگ لندن بھیج دیا گیا۔ وہاں بھی انہوں نے صحافتی معرکوں کا بازار گرم کئے رکھا۔ اس دوران وہ ایک دو مرتبہ پاکستان واپس آئے لیکن اپنے پیشہ وارانہ امور کی انجام دہی کے لئے۔ میں اسلام آباد ہوٹل ٹھہرا ہوا تھا کہ ایک روز زیڈ یو خان کا ٹیلی فون موصول ہوا کہ وہ جنرل ضیاء الحق کا انٹرویو کرنے کے لئے پاکستان آئے ہوئے ہیں۔وہ ان سے ملاقات کے خواہش مند ہیںمگر مصروفیت کی وجہ سے ان سے ملاقات نہ ہوسکی جس کے کچھ عرصہ بعد ہی یہ افسوس ناک خبر آئی کہ وہ لندن میں دل کا دورہ پڑنے سے اللہ کو پیارے ہوگئے ہیں۔ سرگودھا میں ہماری صحافتی کامیابیوں کے پیچھے زیڈ یو خان (ذکر اللہ خان) کی محنت شاقہ کو بہت دخل تھا۔
زیڈ یو خان کے سرگودھا سے چلے جانے کے بعد جناب اثر چوہان کو روزنامہ وفاق سرگودھا کا ریذیڈنٹ ایڈیٹر مقرر کیا گیا۔ اس وقت اثر چوہان گھنگھریالے بالوں والے ایک دبلے پتلے نوجوان تھے۔ لکھنے کی بے پناہ صلاحیت کے مالک تھے۔ پریس کلب کی سیاست میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ ایک عرصہ وفاق کا دفتر کچہری بازار میں مقصود میڈیکل ہال کے سامنے واقع بلڈنگ میں رہا جس کے ایک فلورپر سرگودھا پریس کلب تھا اور دوسرے فلور پر روزنامہ وفاق کا دفتر۔ اکثر کارکن صحافی وفاق کے دفتر آنا فرض عین سمجھتے تھے۔ صرف عبدالرشید اشک تھے جنہوں نے اپنے ہفت روزہ شعلہ کو روزنامہ میں تبدیل کرلیا تھا اور اب خود ہی وفاق اور مدیران وفاق کے حریف بن گئے تھے۔ جب وفاق سرگودھا کو پاکستان ریلویز کے اشتہارات ملنے لگے تو اشک صاحب کو یہ بات بھی گراں گزر ی۔ اتفاق سے انہی دنوں وفاقی وزیر ریلوے جناب عبدالوحید خاں سرگودھا کے دورے پر آئے ہوئے تھے۔ انہوں نے سرگودھا کے صحافیوں سے بھی ملاقات کا اہتمام کیا۔ مصطفی صادق صاحب اور یہ عاجز بھی اس اجلاس میں شریک تھے۔ اشک صاحب نے آئو دیکھا نہ تائو اور وفاق کی مخالفت میں ایک تقریر جھاڑ ڈالی اور اس میں یہ دعویٰ بھی کیا کہ وفاق صرف اڑھائی سو کی تعداد میں شائع ہوتا ہے اورریلوے کے اشتہارات سے خوب مال بنا رہا ہے۔ (جاری)
عبدالوحید خان ایک دیرینہ سیاسی رہنما اور کارکن تھے۔ ان کی ساری عمر قیام پاکستان کی جدوجہد میں بسر ہوئی۔ انہوں نے اشک صاحب کی تقریر کے جواب میں کہا مجھے ان بہادر لوگوں کی زیارت کروائیں جو سرگودھا جیسے صحافتی لحاظ سے بنجر علاقے میں اڑھائی سو کی تعداد میں اخبار شائع کررہے ہیں۔ یہ تو ان کا بہت بڑا کارنامہ ہے جس کی نہ صرف داد دینی چاہئے بلکہ اس کی خوب حوصلہ افزائی ہونی چاہے۔ اشک صاحب نے جو اشک بہائے تھے وہ بالکل رائیگاں گئے۔ انہوں نے اس بھرے اجتماع میں خفت اٹھائی اور وفاق کو ریلوے کے اور بھی زیادہ اشتہارات ملنے لگے۔اشک صاحب بھی کمال شخصیت تھے وہ جب کبھی کراچی اور لاہور جاتے تھے اور مشتہرین اور ایڈورٹائزنگ ایجنسیوں میں اشتہارات کے لئے رابطے کرتے تھے تو ایک قرآن مجید کا نسخہ بھی ساتھ لے جاتے تھے اور بڑی بڑی قسمیں اٹھا کر کہتے تھے کہ وفاق کی اشاعت تو نہ ہونے کے برابر ہے۔ اصل اخبار ان کا شعلہ ہے۔ وفاق ان دنوں جماعت اسلامی کا مخالف اخبار تھا۔ جناب مصطفی صادق ان رہنمائوں میں شامل تھے جنہوں نے انتخابات میں براہ راست حصہ لینے کی مولانا موودی کی حکمت عملی سے اختلاف کیا اور اسے مولانا کے بنیادی نظریہ کے منافی قرار دیتے ہوئے اس کااز سر نو جائزہ لینے کا مطالبہ کیا۔ کچھ عرصہ بعد جب ہم جماعت اسلامی کے اس اجتماع میں شریک ہوئے جہاں گورنر امیر محمد خان نے لائوڈ سپیکر کے استعمال پر پابندی عائد کر دی تھی۔ مولانا اپنی لکھی ہوئی تقریر پڑھتے جاتے تھے اور کچھ کچھ فاصلے پر مکبرین ان کی تقریر کے الفاظ اور فقرے دہراتے رہتے تھے۔ اسی اجتماع پر حکمران جماعت کے غنڈوں نے حملہ کر دیا تھا جس میں جماعت کے سمندری سے تعلق رکھنے والے ایک بزرگ رکن اللہ بخش گولی لگنے سے شہید ہوگئے۔ ہم اس اجتماع کے اسٹالوں سے گزر رہے تھے کہ اچانک ہم نے روزنامہ شعلہ کا اسٹال بھی دیکھا۔ اب کلین شیو عبدالرشید اشک نے داڑھی بھی رکھ لی تھی۔ وہ بظاہر جماعت کے کارکن ہونے کا تاثر دے رہے تھے اور اپنے اخبار کو وفاق کی مخالفت میں از خود ہی جماعت اسلامی کا ترجمان بنا لیا تھا۔ یہ کایا پلٹ ہمارے لئے سخت حیرت کا موجب بنی۔
ہمارے قیامِ سرگودھا کا ایک دلچسپ اور نہایت تکلیف دہ واقعہ ذہن کے افق پر منڈلا رہا ہے۔ یہ ہمارا پریشان حالی کا دور تھا۔ ہم نئے نئے سرگودھا گئے تھے اورلائل پورمیں جن مسائل سے سابقہ پڑا تھا ان سے نجات حاصل کرنے کے لئے ہم نے یہ پناہ گاہ ڈھونڈی تھی۔ سٹینڈرڈ بینک سے ایک چیک کے عوض دو ہزار روپے ایڈوانس لئے تھے اور یہ چیک کیش نہیں ہوسکا تھا۔ 30 جون کی تاریخ قریب تھی۔ بینک کا اصرار تھا کہ ہم تیس سے پہلے پہلے دوہزار روپے جمع کرا دیں، وہ یکم یادو تاریخ کو یہی دو ہزار روپے پھر ہمیں ایڈوانس کردیں گے۔ ادھر تنخواہوں کی ادائیگی کا مسئلہ منہ کھولے کھڑا تھا۔ مصطفی صادق صاحب نے لاہور کی راہ لی اور اپنے دوست حاجی برکت علی صاحب سے دو ہزار روپے ادھار حاصل کئے اور پھر سرگودھا لوٹ آئے۔ ہمارے دفتر میں ایک نوجوان نیا نیا ملازم ہوا تھا۔ ہم نے اس کی نیکی اور شرافت دیکھ کر اسے رہائش کے لئے دفتر میں ایک کمرہ بھی دے دیا تھا۔ مصطفی صادق صاحب نے اسے بلایا۔ دو ہزار روپے اس کے ہاتھ میں تھمائے اور کہا کہ سٹینڈرڈ بینک جائو اوریہ رقم وہاں جمع کرا دو۔ وہ نوجوان خوشی خوشی دو ہزار روپے لے کر چلتابنا اور شام تک واپس نہیں آیا اور نہ ہی اس کا کوئی سراغ ملا۔ اس خیال سے کہ وہ کسی حادثے کا شکار نہ ہوگیا ہو ہسپتالوں اور تھانوں سے بھی اس کی خبر گیری کی مگر اسے ملنا تھااور نہیں ملا۔ ہمارے ایک ساتھی مولوی محمد عیسیٰ اس نوجوان کو ملازمت کے لئے کہیں سے ڈھونڈ کر لائے تھے۔ انہوں نے بھی اس کی تلاش کے لئے ہرممکن کوشش کی مگر وہ تو شائد کوئی خلائی مخلوق تھا جو ہمارے دو ہزار روپے لے کر چلتا بنا۔ اب ہمارے سامنے تین مسائل ہاتھ باندھے کھڑے تھے۔ ایک سٹینڈرڈ بینک کو ادائیگی۔ دوسرے تنخواہیں، تیسرے حاجی برکت علی صاحب کو ادھار رقم کی واپسی۔ یہ دو ہزار روپے کیا گئے ہمارے دفتر اورگھروں میں ماتم کا سماں تھا۔ اس روز سوگ کی یہ کیفیت تھی کہ گھروں میں چولہے روشن نہ ہوئے۔ ہمارے بزرگ مولانا گلزار احمد پراچہ کو اس سانحہ کی خبر ہوئی تو وہ کسی معاون کی مدد سے سائیکل پر دفتر وفاق پہنچے۔ گزشتہ شب ہی جب ہم ان کے زیر تعمیر گھر میں ان سے بات چیت کررہے تھے اور ڈرائنگ روم کا فرش ابھی پختہ نہیں ہوا تھا۔ ان کے بیٹے حسین (اب ڈاکٹر حسین احمد پراچہ) گھر کے داخلی حصے سے چائے کی کیتلی لے کر آئے اور ناہموار فرش کی وجہ سے توازن برقرار نہ رکھ سکے اور کیتلی کی ساری چائے مولانا گلزاراحمد صاحب پر آ پڑی مگر وہ بڑے صابر و شاکر انسان تھے۔ سخت تکلیف کے باوجود ان کے منہ سے دکھ کا کوئی لفظ نہیں نکلا۔ اگلے روز ہی وہ ہمارا دکھ بٹانے ہمارے پاس تشریف لے آئے اور ہمارے لئے کھانا بھی گھر سے پکا کر لے آئے اور دو ہزار روپے بھی دیئے۔ مولانا کا یہ جذبہ ٔ ایثار مصطفی صادق صاحب اورمجھے ہمیشہ یاد رہا اور ان کے صاحبزادوں ڈاکٹر حسین احمد پراچہ اور ڈاکٹر فرید احمد پراچہ سے ہماری الفت برقرار رہی۔