دوسرا ٹیسٹ نوآموز کھلاڑیوں نے جیت لیا‘ سپنرز کی گھومتی گیندیں کام دکھا گئیں
پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کپتان شان مسعود کیلئے بھی یہ جیت خوشی کا باعث ہوگی کیونکہ 6 پے درپے ناکامیوں کے بعد بالآخر کامیابی نے قدم چوم لئے۔ خاص طور پر نعما ن علی اور ساجد خان مبارکباد کے مستحق ہیں جنہوں نے گھوم گھما کر بال کرائے اور انگلینڈ ٹیم کے بلے بازوں کو واقعی گھما کر رکھ دیا۔ انہیں سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کریں۔ ملتان ویسے ہی گور‘ گدا اور گرما کی وجہ سے مشہور ہے‘ اب اس میں گھوم کا بھی اضافہ ہو جائیگا۔اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ گرائونڈ کے باہر کھڑے ہو کر گیندیں پکڑنے والے اور پانی پلانے والے کھلاڑیوں نے یہ میچ جیت لیا اور ثابت کر دیا کہ واقعی کبھی ممولے بھی شہباز سے لڑجا تے ہیں۔ یوں تین میچوں کی یہ سیریز اب ایک ایک میچ سے برابر ہو گئی ہے۔ بس اب ہمارے کھلاڑی اس جیت پر ہی اکتفا نہ کریں‘ اور اگلا میچ جیتنے کیلئے جان لڑا دیں۔
شکست وفتح مقدر سے ہے اے میر
مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا۔ میدان میں اترنے سے پہلے فتح و شکست کے بارے میں نہیں سوچا جاتا‘ صرف اپنے کھیل پر توجہ دی جاتی ہے۔ اب 4سال بعد اس کامیابی سے پاکستانی ٹیم کے حوصلے بھی بلند ہوئے ہونگے۔ جو مسلسل شکستوں کے بعد کافی دبائو میں آگئے تھے۔ کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ ایک اننگ میں 500 سے زیادہ رنز بنانے کے باوجود ہماری ٹیم ہار سکتی ہے۔ مگر گزشتہ میچ میں یہ بھی ہوا اور مخالف ٹیم نے 700 سے بھی زیادہ سکو ر کیا‘ ایک اننگز میں‘ اب اگر ہماری ’’بالکوں‘‘ کی یہ ٹیم اگر خامیوں پر قابو پاتی ہے جو غلطیاں ہوئیں‘ ان کو دور کرتی ہے تو تیسرا میچ جو راولپنڈی میں ہو رہا ہے‘ زیادہ سنسنی خیز ہو سکتا ہے۔ انگلینڈ کی ٹیم بھی اسے نتیجہ خیز بنانے کی پوری تیاری کریگی اور وہ میچ جس نے جیتنا ہے‘ وہی سلطان کہلائے گا۔ راولپنڈی کی پچ ملتان کے موسم اور پیچ سے کافی مختلف ہوگی۔ انگلینڈ کی ٹیم ملتان کی نسبت راولپنڈی میں زیادہ آرام محسوس کریگی۔
٭…٭…٭
یحییٰ السنواری کی شہادت پر نتین یاہو اور جوبائیڈن کی فون پر ایک دوسرے کو مبارکبادیں۔
انسان کس حد درجہ انسانیت سے گر سکتا ہے‘ اس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ غزہ میں فلسطینی مجاہد رہنما یحییٰ السنواری کی شہادت پر جس طرح امریکی صدر جوبائیڈن نے اپنے لے پالک اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے ساتھ قہقہے لگاتے ہوئے جشن منایا اور سنگدلی سے ایک دوسرے کو مبارکباد دی‘ وہ حیوانیت کی اعلیٰ مثال ہے۔ اس کے باوجود کہ امریکہ اور اسکے اتحادی دیکھ رہے ہیں کہ غزہ اور لبنان میں اسرائیلی فوج قیامت ڈھا رہی ہے۔ ہزاروں افراد جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں‘ شہید ہو رہے ہیں۔ شہر کے شہر کھنڈر بنا چکے ہیں‘ سویلین مہاجر کیمپوں ، سکولوں ، ہسپتالوں پر بمباری ہو رہی ہے‘ اس قتل عام پر اگر کوئی جشن طرب منا رہا ہے تو وہ انسان کہلانے کے لاحق نہیں۔ نتین یاہو کو تو چھوڑیں‘ وہ ابھی اتنے عمر رسیدہ نہیں‘ مگر یہ جوبائیڈن تو سوکھے پتے کی طرح کسی بھی وقت پیوند خاک ہو سکتے ہیں۔ سماعت اور بصارت انکی زائل ہو رہی ہے‘ کیا انہیں بھی آگ میں جلتے خیمے‘ بچے‘ عورتیں اور بوڑھے نظر نہیں آرہے۔ مغربی دنیا والے شاید موت سے بے خوف ہو چکے ہیں یا انہیں مسلمانوں سے اتنی نفرت ہے کہ وہ انہیں مار کر خوشی محسوس کرتے ہیں۔ ایسا ہی عمل اگر فلسطینی کریں تو یہی امیریک ہ اسکے اتحادی اور اسرائیل والے اس کو ظلم قرار دیتے ہیں۔ شدید ایکشن کی پلاننگ کرتے ہیں۔
شہر در شہر گھر جلائے گئے
یوں بھی جشن طرب منائے گئے
اب بھی عالمی ضمیر اگر کسی بدمست مدہوش شرابی کی طرح جو کثرت مے باعث کسی کچرے کے ڈھیر کے قریب گرا پڑا رہے اور بیدار نہ ہوا تو پھر شاید یہ آگ جو یہود اپنے حلیفوں یعنی نصاریٰ کی مدد سے بھڑکا رہے ہیں‘ بہت جلد اس کرہ ارض پر ایک خطرناک آخری جنگ کا طبل بجائے گی۔ کیونکہ
جو آگ تیل کے چشموں کو چھوکے گزرے گی
سمندروں کی تہوں کو بھی چیر جائے گی
لگتا ہے وہ وقت آن پہنچا ہے۔ آخر مسلم امہ کب تک یہ تذلیل و تحقیر برداشت کریگی۔ کبھی نہ کبھی‘ کہیں نہ کہیں کسی موڑ پر انکے صبر و تحمل کا پیمانہ چھلک سکتا ہے۔
٭…٭…٭
پی ٹی آئی والے مولانا کے ترمیمی مسودے پر متفق ہو گئے
یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ پی ٹی آئی والے مولانا فضل الرحمان کے مسودے سے متفق ہیں اور مولانا حکومتی مسودے سے۔ جب یہ دونوں یعنی مولانا‘ حکومت اور پیپلزپارٹی والے کسی ایک مسودے پر متفق ہیں تو یہ پی ٹی آئی والے اب کس مسودے کی بات کر رہے ہیں۔ یہ معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھا نے کا۔حکومت کہتی ہے ہم نے پیپلزپارٹی اور مولانا کے مشورے مان لئے ہیں تو پھر اب یہ پی ٹی آئی والے کس بات پر اب اڑ رہے ہیں۔ چیئرمین گوہر کا کہنا ہے کہ اب ہم بانی پی ٹی آئی سے جیل میں ملاقات کرکے اسکی منظوری لیں گے تو پھر اتفاق کس پر ہوا ہے۔ کیا پی ٹی آئی والے مولانا کوڈاج دے رہے تھے۔ اب اگر بانی نے انکار کردیا تو یہ اتفاق دوٹکے کا بھی نہیں رہ جاتا۔ نہ مولانا کی عزت رہے گی نہ پی ٹی آئی کے مذاکراتی وفد کی۔ کیا یہ ساری تگ و دو صرف وقت کا ضیاع تھی۔ شاید اس طرح پی ٹی آئی والے چاہتے تھے کہ 25 اکتوبر تک معاملہ ٹالا جائے۔ اسکے بعد جب نئے چیف جسٹس آئیں گے تو شاید انہیں چودھری افتخار والی سہولتیں مل جائیں گی۔ مگر حکومت والے بھی کائیاں نکلے‘ انہوں نے یہ کام جیسے تیسے مکمل کر ہی لیا۔ اب پی ٹی آئی والے کہہ رہے ہیں کہ ہمارے ارکان اسمبلی پر بہت دبائوہے۔ انہیں کروڑوں کی آفر کی جا رہی ہے۔ اب نئی ترامیم کی منظوری کے بعد تو کسی اور کو ووٹ ڈالنے پر فلور کراسنگ کا خوف بھی نہیں رہے گا۔ یوں ’’رند کے رند اپنے ہاتھ سے جنت نہ گئی‘‘ والا معاملہ ہوگا۔ ابھی تک معاملہ حکومتی اتحاد کے حسب منشاء طے ہو رہا ہے۔ کہیں اڈیالہ جیل کا مکیں کوئی نئی اڑچن نہ ڈال دے۔ اسکے باوجود بھی اگر حکومت اپنی گنتی کے نمبر پورے کرلے تو یہ اسکی بڑی فتح ہوگی مگر شاید اس کیلئے جو پاپڑ شہبازشریف‘ بلاول اور آصف زرداری نے بیلے ہیں‘ اور مولانا کے ترلے منتیں کیں‘ وہ سب نے دیکھیں۔
ملک میں مہنگائی بڑھنے لگی‘ اشیاء ضروریہ مہنگی ہو گئیں‘ ادارہ شماریات کی رپورٹ
ایک طرف حکومتی حلقوں میں یہ غلغلہ برپا ہے کہ مہنگائی کم ہو رہی ہے‘ ایک کسر رہ گئی ہے کہ پہلے کی طرح جب تانگے ہوتے تھے‘ فلمی اشتہار ان پر لگا کر ساتھ ہی ایک ڈھول والا بیٹھا ہوتا تھا جو ڈھول بجاتا تھا۔ یہ اشتہار گلی گلی‘ کوچے کوچے پھرتے اور لوگوں کو اس فلم کا اور کس سینما میں لگی ہے‘ کا پتہ چلتا۔ آج کل یہ کام بسوں پر اشتہار لگا کر ہونے لگا ہے۔ مہنگائی کے حوالے سے تمام تر دعوئوں کے باوجود حکومتی بیان الگ‘ سٹیٹ بنک کی رپورٹ الگ اور ادارہ شماریات کی رپورٹ الگ سمت میں دوڑتی نظر آتی ہے۔ اگر عوام سے پوچھیں تو اصل بات جو سامنے آتی ہے‘ وہ یہ ہے کہ صارفین رو رہے ہیں۔ مہنگائی کو کوس رہے ہیں‘ سبزیاں‘ گوشت‘ برائلر‘ پھل‘ گھی‘ آٹا‘ چینی اور دالیں اب عوام کی پہنچ میں نہیں رہیں۔ قیمتیں سن کر ہاتھ پائوں پھول جاتے ہیں۔ آنکھوں تلے اندھیرا چھا جاتا ہے۔ جیب اجازت ہی نہیں دیتی کہ جو دل مانگتا ہے وہ خریدیں۔‘ بیوی بچوں کی فرمائشیں دھری رہ جاتی ہیں۔ دال سبزی پوری نہیں ہوتی تو مرغ مسلم کہاں سے آئے۔ چند دن نجانے کس طرح اشیائے صرف کی قیمتوں میں تھوڑی کمی ہوئی مگر اب پھر وہ بڑھنے لگی ہیں۔ مارکیٹ کمیٹیاں ہوں یا پرائس کنٹرول کمیٹیاں‘ کوئی بھی اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے میں کامیاب نظر نہیں۔ یہ سب صرف دکھاوے کیلئے ہیں۔ جس طرح ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور ہوتے ہیں۔ حکومت انکی رپورٹوں سے زیادہ بہتر ہے عوام کی رائے معلوم کرے اور دیکھے کہ اصل حقائق کیا ہیں جو بے چارے
بھنڈی ہے نہ ٹینڈا ہے
جان بہت شرمندہ ہے
کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ اب تو یہی راہ مناسب لگتی ہے کہ منافع خور بلکہ حرام خور مافیا کو لگام ڈالنے کیلئے عوام کو ان ڈاکوئوں سے بچانے کیلئے بھارت سے آسان نرخوں پر سبزیاں اور دیگر اجناس منگوائی جائیں تاکہ عوام کا پیٹ بھرے ورنہ خالی پیٹ والا آسانی سے خودکش بمبار بن جاتا ہے۔ ویسے بھی جان پر بنی ہو تو حرام بھی حلال ہوتا ہے۔ بھارت دشمن ہے‘ کافر ملک ہے‘ مگر سبزیاں اور اجناس تو مسلم اور کافر نہیں ہوتے۔ بقول نوازشریف‘ صرف آدھے گھنٹے میں ہم واہگہ کے راستے بھارتی پنجاب سے سامان منگوا سکتے ہیں جس کا خرچہ بھی کم ہوگا۔ حکومت ذرا سوچے کیا وجہ ہے کہ چند کلو میٹر کے فاصلے پر یہی 200 روپے والی سبزی اور دال 50 روپے فی کلو کیوں ملتی ہے۔ انکے پاس ایسا کون سا فارمولا ہے کہ قیمتیں کنٹرول میں رہتی ہیں۔
٭…٭…٭
غزہ کے متاثرین کیلئے مزید 600 ٹن امدادی سامان بھیجا جائیگا‘ سامان میعاری ہو‘ وزیراعظم۔
پاکستان بھی حسب المقدور غزہ متاثرین کیلئے غذائی امداد ادویات اور خیمے و کمبل فراہم کرنے میں پیش پیش ہے۔ گزشتہ روز وزیراعظم نے مزید 600 ٹن سامان غزہ بھجوانے کاحکم دیا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اچھا اور معیاری سامان بھجوایا جائے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وزیراعظم اپنی قوم کے دونمبری اور ہیرا پھیری والے مزاج سے بخوبی واقف ہیں کہ اوپر اوپر اچھا مال رکھ کر بول کس طرح دوسروں کو دھوکہ دیتے ہیں جبکہ بوری یا کریٹ میں نیچے خراب ناقص مال بھرا ہوا ہوتا ہے۔ اس د و نمبری کی وجہ سے دنیا بھر میں ہماری ساکھ بے حد خراب ہے۔ ہم سے لین دین اور سودا کرتے ہوئے لوگ گھبراتے ہیں۔ جس ملک میں آنکھیں کھول کر مال چیک کرنے والوں کو بھی دھوکا ملتا ہے‘ وہ بے چارے پوری قیمت ادا کرکے بھی اوپر اچھا اور نیچے خراب مال لے آتے ہیں۔ اس ملک سے جو مال باہر جائیگا‘ اسکی گارنٹی کون دے۔ اور پھر یہ تو امدادی سامان ہے‘ اس میں تو ہمارے تاجر دل کھول کر دونمبری کریں گے۔ یوں 10 پر 20 کا منافع کمائیں گے کہ یہاں کونسی چیکنگ ہونی ہے اور غزہ میں کون چیک کریگا کہ اچھا مال ہے یا ناقص۔ یوں یہ لوگ دنیا کے ساتھ ساتھ اپنی آخرت کا بھی خانہ خراب کرتے ہوئے رتی بھر نہیں ہچکچاتے۔ اب ہماری عزت اسی میں ہے کہ ہم ملک سے باہر چاہے امدادی سامان بھیجیں یا مارکیٹ میں‘ سامان ہمیں ٹھونک بجا کر معیار چیک کرنا چاہیے تاکہ دو نمبری کرنے والوں کو موقع نہ ملے اور ہماری مزید بے عزتی نہ ہو۔ عالمی منڈی میں ہمارے مال کی اسی دونمبری کی وجہ سے کوئی وقعت نہیں جبکہ بھارت جیسا ملک ہمارے چاول اور نمک پر اپنا لیبل لگا کر دھڑا دھڑ مارکیٹ میں اپنی جگہ بنا چکا ہے کیونکہ وہ کم از کم عالمی منڈی میں دونمبری کا مال فروخت نہیں کرتا اور ہمیں اپنی پراڈکٹ عالمی منڈی میں لانے کیلئے تگ و دو کرنا پڑی ہے۔
٭…٭…٭